پاکستان ٹیلی ویژن جب ایک تنہا نشریاتی چینل تھا تو اس کے ڈرامے بہت زیادہ مشہور ہوئے بلکہ انہوں نے فلموں سے بھی زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل کی، یہاں تک کے انڈین نشریاتی چینل اس کی تقلید کرنے لگے ، میں نے کنال پیلس دہلی میں ایک دکان پر ٹیلی ویژن کے پاکستانی ڈرامے فروخت ہوتے دیکھے، دکاندار نے مجھ سے ڈراموں کی بعض کاپیوں پر میرے دستخط لئے اور اس کے معاوضے میں مجھے سلک کے سوٹ کا کپڑا دیا۔ واپسی پر انڈین بارڈر پر پوچھا گیا کہ یہ آپ کہاں سے لائے ہیں میں نے بتایا یہ میری محنت کا معاوضہ ہے، جب ٹیلی ویژن کی نشریات پاکستان میں 100سے زیادہ نشریاتی ذریعوں کے ساتھ ڈرامے پیش کرنے لگی تو ان کی شہرت کے باوجود ان کے معیار میں کمزوری دیکھنے میں آئی۔آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پاس ساس، بہو ا ور میاں بیوی کے جھگڑوں کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہے بلکہ دکھائی دیتا ہے کہ ابھی ملک پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت پائی جاتی ہے اور ضیاء الحق کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کی جارہی ہے، جمہوریت ہمارے ملک میں نہیں آئی نہ آزادی اظہار کا کوئی نمونہ پایا جاتا ہے۔ہمارے ٹیلی ویژن ڈراموں میں ساس بہو کے جھگڑوں بھائیوں کے اپنی دشمنی کے نشان پائے جاتے ہیں، لگتا ہے کہ ضیاء الحق کا ضابطہ اخلاق ابھی تک چل رہا ہے جس کے مطابق ایک لڑکی تالاب میں ڈوب مری اور اسے جب تالاب سے نکالا گیا تو وہ حجاب میں تھی اور پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے حجاب کو بچاتے ہوئے ڈوب مری ہے۔ایک محفل میں جو کہ فلمی اداکاروں اور اداکارائوں کے علاوہ فلم ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں پر مشتمل تھی، اس میں جنرل ضیاء الحق صدارت فرمارہے تھے۔ میں کوشش کرتا رہا کہ ان کے سامنے جانے اور ہاتھ ملانے کی اذیت سے بچا رہوں، چنانچہ وہ جب ایک میز پر جاتے اور لوگوں سے ہاتھ ملاتے اور اداکارائوں سے ان کی صحت کی خبر لیتے تو میں کسی دور کے میز پر چلا جاتا۔ میری یہ کوشش ناکام رہی کیونکہ ایک لمحے کے لئے ضیاء الحق میرے سامنے آگئے اور ہاتھ ملانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور پوچھا آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا میں ویسے کا ویسا ہوں اور وہ چلے گئے۔ اس محفل میں میڈیم نورجہاں بھی موجود تھیں جنہوں نے ضیاء الحق سے اپنے خاوند سید شوکت حسین رضوی کی شکایت کی کہ انہوں نے اخبار میں ایک بہت قابل اعتراض الزام لگایا ہے تو ضیاء الحق نے کہا الزامات کے اوپر پریشان نہ ہوا کریں میرے سے زیادہ الزامات کس پر ہوئے ہوں گے؟ جبکہ مجھے ان اعتراضات نے کبھی ناراض اور پریشان نہیں کیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں ملک کے سوشل اور اکنامک حالات کی نمائندگی کی جا ئے اور محض ساس بہو، سسر اور داماد کے جھگڑوں سے باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے جیسا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی دور میں ہوتا تھا اور ادب کی دنیا میں معروف لوگ اس کے لئے ڈرامے لکھتے تھے اور فنکار اپنی اداکاری کے ذریعے اس کوشش کو لوگوں تک پہنچاتے اور وہ خوش ہوتے تھے۔ پاپولر ڈراموں کی نشریات کے دوران سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی معمولی ہوتی تھی۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ٹیلی ویژن کا وہ دور واپس آئے اور دیکھنے والوں میں ٹیلی ویژن ڈرامے اسی طرح مقبول ہوں جیسے کہ پہلے ہوتے تھے۔ ایک بات ضروری ہے کہ ڈراموں کے لکھتے وقت ان کے ادبی معیار کا فائدہ اٹھایا جائے۔ٹیلی ویژن کا ایک ڈرامہ میں نے لکھا اور یہ ڈرامہ ایک ٹی وی پروڈیوسر کو دیا تو ٹی وی انتظامیہ نے اس کو اپنے افسروں کے مطالعے کے لئے لیا تو اس میں ’’متالیا‘‘کا لفظ بھی تھا انہوں نے کہا کہ یہ لفظ نکال دیں ضیاء الحق سمجھیں گے کہ آپ نے کسی بچے کو پیشاب کرانے کے اظہار کا موقع دیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے اسلم اظہر، آغا ناصر، یاور حیات اور نثار حسین کے زمانے کو واپس لانے کی ضرورت ہے جو کہ ڈراموں کے ادبی معیار کا خیال رکھتے تھے، ورنہ ٹیلی ویژن کا بھی وہی حال ہوگا جوکہ پاکستان فلم انڈسٹری کا ہوا ہے۔