ایک روز پاکستان فارن آفس کے پروٹوکول آفیسر نے فون کیا کہ بھٹو صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں اور کراچی کے صحافی افاض الرحمن اسلام آباد گئے جہاں بھٹو صاحب نے کہا کہ مغربی پریس خاص طور پر روس اور امریکہ کے رسائل نے کافی پراپیگنڈہ کیا ہے کہ ہماری فوجوں نے مشرقی پاکستان کی خواتین کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور ہمیں اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے ہم یعنی میں اور افاض الرحمن برلن گئے جہاں ہمارا قیام 15دن کے لئے تھا ائیر پورٹ پر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جمشید مار کر پاکستان کے سفیر برائے مشرقی جرمنی ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے جو کرکٹ کے مشہور کومنٹیٹر بھی تھے مشرقی جرمنی کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اب جی ڈی آر (جرمن ڈیمو کریٹک ری پبلک) کہلاتا ہے میں نے پوچھا جمشید صاحب آپ کس کو ریسیو کرنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ منو بھائی اور افاض الرحمن کو میں نے کہا کہ حیرت ہے کہ پاکستان کا سفیر ہمیں ریسیو کرنے آئے۔مارکر صاحب نے کہا کہ اگر میں آپ کی عزت افزائی نہیں کروں گا تو جرمن الو کے پٹھے کس طرح آپ کی قدر کریں گے؟سفارت خانہ پہنچا تو مارکر صاحب نے نہایت اعلیٰ قسم کی شراب کی تین بوتلیں تحفتاً ہماری نذر کیں اور کہا کہ آپ جسے بھی چاہیں یہ بوتلیں تحفے میں دے سکتے ہیں اگلی صبح جب گاڑی آئی تو اس میں دوسری جنگ عظیم کے جرمن سپاہی لوسکی اور برلن کے کالج میں پڑھانے والے ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے ہم نے شراب کی دو بوتلیں انہیں دے دیں اور تیسری آگے استعمال کے لئے رکھ لی جمشید مارکر کی ایک دعوت میں جو کہ وہاں کے اخبار نویسوں کے لئے کی گئی تھی میرا تعارف ایک جرمن لڑکی سے کروایا جس نے بتایا کہ وہ جرمن شاعر گوئٹے کو بہت پسند کرتی ہے میں اس لڑکی میں ذرا دلچسپی لینے لگا تو مسز جمشید مارکر نے کہا یہاں اور باتیں کرنے والے بھی موجود ہیں رخصت ہوتے ہوئے جمشید مارکرنے مجھے بھٹو صاحب کو دینے کے لئے جرمن اخبار نویسوں کی ایک لسٹ دی جس میں اس جرمن لڑکی کا نام بھی شامل تھا بعد میں وہ لڑکی بھی دیگر جرمن اخبار نویسوں کے ہمراہ پاکستان آئی تو مجھے ان کی رہنمائی اور تواضح کرنے کا حکم دیا گیا مجھے یاد ہے کہ جرمنی میں کنڈر بچوں کو کہتے ہیں اور گارٹن بچوں کے باغ کو کہتے ہیں چنانچہ مجھے کنڈر گارٹن کے معانی معلوم ہوئے۔اسی دور میں ہم نے دیوار برلن کی زیارت بھی کی۔ گوئٹے کے آبائی شہر ’’وائی مارک‘‘ کی طرف جاتے ہوئے افاض الرحمن نے بغیر کسی پرواہ کے سگریٹ کی ایک خالی ڈبی گاڑی کے باہر پھینک دی تھوڑ ی دیر بعد ایک گاڑی ہمیں ’’آٹو بان ‘‘ پر روکنے میں کامیاب ہوئی جس میں ایک جرمن پولیس آفیسر موجود تھا اس نے پوچھا آپ کی گاڑی کا سامان زیادہ ہے ہم نے کہا نہیں۔ تو اس نے کہا کہ یہ خالی ڈبی بھی ساتھ لیتے جائو ۔ اپنے اس دورے میں دیوار برلن کے علاوہ ہم نے ’’بوکن والٹ‘‘ کے اذیت گھروں کی زیارت بھی کی یہاں یہودیوں کو تفتیش کے لئے لایا جاتا تھا ، اور دیوار کے پیچھے سے گولی مار کر انہیں قتل کر دیا جاتا تھا اس کے علاوہ ہم نے صنعتی شہر ’’ڈریسڈن‘‘ کی سیر بھی کی اس سیر میں ہم نے تباہ شدہ گرجے کا ملبہ بھی دیکھا جس کے اوپر تختی لگی ہوئی تھی کہ ’’یہ حادثہ دوبارہ نہیں ہونا چاہئے‘‘ ۔اس دورے میں قبرستان بھی دیکھا جس میں گوئٹے اور ان کے دوست کے تابوت موجود تھے میں نے ازراہ مذاق اس تابوت کے اوپر لگی ہوئی تختی کو معمولی کوشش سے اتار لیا اور اگلی شام جرمن لڑکوں کی محفل میں کہا کہ جن لڑکوں نے گوئٹے کو شاعر بنایا ہے وہ اس تختی پر اپنے بوسے ثبت کریں مجھے اور افاض الرحمن کو ایک جرمن نائٹ کلب میں رات گزارنے کا موقع بھی ملا جہاں گوئٹے کی محبوبہ ٹھہرتی تھی اس کے علاوہ دیگر بہت ساری جگہوں کو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ایک جرمن گائوں میں ہماری ملاقات ایک جرمن جوڑے سے ہوئی جن کے ساتھ ہم نے کافی وقت گزارا۔میرے پھوپھی زاد بھائی عبدالرشید قریشی کی جرمن ساس نے دیوار برلن کے گرنے کے بعد بتایا کہ انہیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب انہیں اپنے بچے کی فیس، ٹیلی فون اور صحت کے اخراجات کا بل بھی ادا کرنا پڑا یہ سہولتیں مشرقی جرمنی کے لوگوں کو مفت حاصل تھیں۔ رشید قریشی اپنی جرمن وائف کے بھائی کے ساتھ ائیر فورس میں کام کرتے تھے افاض الرحمن اللہ کی مہربانی سے حیات ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں ۔