”جب زندگی شروع ہوگی“ کے زیرعنوان اپنی نوعیت کا یہ پہلا ناول ایک دوست نے پڑھنے کو دیا ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہلا کے رکھ دے گا اور سچی بات یہ ہے کہ ہلا کے رکھ دینے والی کتاب ہے۔ ابویحییٰ کا تحریر کردہ یہ ناول اپنی نوعیت کا پہلا اردو ناول ہے جس میں مناظر قیامت نہایت سبق آموز انداز میں بیان کئے گئے ہیں ۔ ہے تو یہ ناول لیکن ابویحییٰ نے اس کی بنیاد قرآن و حدیث میں قیامت سے متعلق بیان کردہ تفصیلات پر رکھی ہیں۔ قبر سے لے کر جنت اور دوزخ کی ابدی زندگی تک کے مناظر ، وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ انسان پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو وہاں موجود پاتا ہے ۔ یوں تو اس کتاب کا ہر ورق اور ہر لفظ اپنی مثال آپ ہے لیکن مجھے حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے واقعے نے یوں زیادہ متوجہ کیا کیونکہ مجھے ان کی قوم اور پاکستانیوں کے مابین غیرمعمولی مشابہت نظر آئی۔ لگتا ہے کہ ایمان و عقیدے، عمل ، دانش اور حکمت کی بات کرنے والے محدود پاکستانی حضرت یرمیاہ علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہیں اور جواب میں قوم کی اکثریت ان کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو بنی اسرائیل نے حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے ساتھ کیا ۔
مصنف نے یہ ناول اس انداز میں لکھا ہے کہ جیسے وہ خود قیامت کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ ان کی نظروں کے سامنے ہورہا ہے ۔ ابو یحییٰ کتاب کے صفحہ نمبر 199 پر لکھتے ہیں: ”تھوڑی دیر میں یرمیاہ علیہ السلام کچھ فرشتوں کی معیت میں تشریف لائے۔ وہ عرش کے سامنے کھڑے ہوگئے مگر انہوں نے کچھ کہا نہیں۔
صالح (فرشتہ)نے کہا ”اللہ تعالیٰ اپنے نبی کا مقدمہ خود پیش کریں گے“۔صالح (فرشتہ) نے یہ الفاظ کہے تھے کہ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی اور تمام نگاہیں ان مناظر کو دیکھنے کے لئے اوپر کی طرف اٹھ گئیں… پھر اسکرین پر ان کی زندگی اور ان کے دور کے کئی مناظر ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے۔ وہ قوم کے اکابرین اور عوام کو سمجھارہے تھے مگر ان کی بات کوئی نہیں سن رہا تھا۔ ان کی قوم عراق کے سپر پاور بادشاہ اور آشوریوں کے زبردست حکمران بخت نصر کی تابع تھی۔ سالانہ خراج بخت نصر کو بھیجنا ہی ان کی زندگی اور عافیت کا سبب تھا۔ اس غلامی کا سبب وہ اخلاقی پستی تھی جو قوم کے رگ وپے میں سرائیت کرگئی تھی ۔ توحید کے رکھوالوں میں شرک عام تھا، زنا اور قمار بازی معمول تھی، بد دیانتی اور اپنے لوگوں پر ظلم ان کا چلن تھا۔ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا اور پڑوسیوں سے زیادتی کرنا ان کا معمول تھا۔ یہ لوگ بھاری سود پر قرض دیتے جو مقروض قرض ادا نہ کر پاتا اس کے خاندان کو غلام بنا لیتے۔ علماء لوگوں کی اصلاح کرنے کی بجائے انہیں قومی فخر میں مبتلا کئے ہوئے تھے ۔ ایمان،اخلاق اور شریعت کے بجائے ذبیحوں اور قربانیوں کو اصل دین سمجھ لیا گیا تھا۔ ان کے حکمران ظالم اور رشوت خور تھے۔ انصاف کی بجائے عیش و عشرت ان کا معمول تھا مگر پوری قوم اس بات پر جمع تھی کہ ہمیں بخت نصر کی غلامی سے نکل کر بغاوت کر دینی چاہئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان پر خدا کا غضب تھا مگر ان کو یہ بات بتانے کی بجائے قومی فخر اور سلیمان و داؤد کی عظمت رفتہ کے خواب دکھائے جارہے تھے ۔ انہیں امامت عالم کی دہائی دی جارہی تھی حالانکہ وہ بدترین ایمانی اور اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ پھر اسکرین پر وہ منظر سامنے آیا جب یرمیاہ علیہ السلام پر وحی آئی کہ اپنی قوم کی اصلاح کرو، انہیں سیاست سے نکال کر ہدایت کی طرف لاؤ ۔ ایک دفعہ سچی خدا پرستی پیدا ہوگئی تو سیاست میں بھی تم ہی غالب ہوگے۔ انہیں حکم تھا کہ وہ شادی کرکے گھر بسانے کے بجائے قوم کو آگے آنے والی تباہی سے خبردار کریں مگر جب یرمیاہ علیہ السلام یہ پیغام لے کر اٹھے تو ہر طرف سے ان کی مخالفت شروع ہوگئی۔ خدا کے اس نبی نے اپنے زمانے کے عوام و خواص ، اہل مذہب اور اہل سیاست سب کو پکارا مگر گنتی کے چند لوگوں کے سوا کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ ان کی دعوت بالکل سادہ تھی ۔ بخت نصر سے ٹکرانے کے بجائے اپنے ایمان و اخلاق کی اصلاح کرو۔
اللہ کے اس نبی کو بخت نصر کا ایجنٹ قرار دے کر بطور سزا پہلے کنویں میں الٹا لٹکایا گیا اور پھر ایک پنجرہ میں باندھ دیا گیا۔ بخت نصر کے خلاف بغاوت کردی گئی ۔ جواب میں بخت نصر عذاب الٰہی بن کر ٹوٹ پڑا۔ پھر اسکرین پر وہی منظر آگیا جب عذاب کی بارش سے یروشلم نہا رہا تھا ۔
یرمیاہ علیہ السلام نے آنکھیں کھول کر اردگرد پڑی بے گوروکفن لاشوں اور چاروں طرف رقصاں تباہی کے مناظر پر ایک نظر ڈالی اور بلند آواز میں کہا :”میں نے تم لوگوں کو کتنا سمجھایا مگر تم نے سیاسی شعبدہ بازوں اور متعصب جاہل مذہبی لیڈروں کی پیروی کو پسند کیا۔ تم حق وباطل کے معاملے میں غیرجانبدار رہے ۔ تم معاشرے کے خیروشر اور خدائی احکام سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتے رہے ۔ آخر کار اس کی سزا سامنے آگئی“۔
پھر یرمیاہ نے آسمان کی طرف نظراٹھائی اور دھیرے سے بولے :”عدل کامل کا دن آئے گا، ضرور آئے گا مگر کچھ انتظار کے بعد “۔