• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنہری یادیں ،ارونا ایرانی تنگدستی کے باعث فلمی دنیا میں آئیں

ارونا ایرانی بھارتی فلم انڈسٹری کی ایسی اداکارہ ہیں جو ایک دور میں’ویمپ ‘کہلاتی تھیں۔ انڈسٹری میں قدم رکھےانہیں کئی عشرے بیت گئے اس دوران انہوں نےانگنت رولز اداکئےلیکن ان کے اداکردہ کرداروں میں ’ڈانسر‘ اور’ ویمپ‘ کے جتنے بھی کردار تھے وہ آج بھی لاجواب ہیں اور لوگ انہیں آج بھی پسند کرتے ہیں۔

ارونا ایرانی کا بچپن مفلسی میں گزرا۔ ان کے والد ایک ڈرامہ کمپنی چلایا کرتے تھےاور ان کی والدہ بھی اداکارہ تھیں۔ والد کی ڈرامہ کمپنی کچھ خاص نہیں چل رہی تھی اور گھر میں پیسوں کی تنگی تھی او ر آٹھ بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا مشکل ہورہاتھا۔

اسی دوران ارونا کو موقع ملا فلم ’’گنگا جمنا‘‘میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کرنے کا۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ شوٹنگ دیکھنے گئی تھیںکہ دلیپ کمار نے انہیں دیکھ کر پوچھاکہ’ اے لڑکی ڈائیلاگ بولوگی ‘۔ اس سوال پر ارونا ایرانی نے فوراً ہی حامی بھر لی اوریوں انہیں’گنگا جمنا‘میںبطور چائلڈ آرٹسٹ کام کرنے کا موقع مل گیا۔

انہوں نے سن1961ء میںفلم ’عذرا‘ میں کام کیا جبکہ 1962ء میں انہوں نے فلم ’ان پڑھ‘ میں مالاسنہا کے بچپن کا کردار ادا کیا اور پھر وہ دور بھی آیا جب انہوں نے بڑی اور کامیاب فلموں میں چھوٹے مگر اچھے کردار کیےجیسے ’جہاں آرا‘،’ قرض‘،’اپکار‘اور’آیا ساون جھوم کے‘۔وہ بطور ڈانسرکام کرتیں تو کبھی سائیڈ ہیروئن کے طور پر۔

لیکن جب ان کی دوستی محمود سے ہوئی تو ان کی قسمت نے نیا موڑ لیا۔محمود صاحب کے ساتھ ان کی کامیڈی جوڑی خوب جمی اور پھر وہ دور آیا کہ محمود صاحب کی فلم’بمبئی ٹو گوا‘میں ارونا ایرانی امیتابھ بچن کی ہیروئن بنتی نظر آئیں۔

سن 70کی دہائی میں اس فلم نے کمال کر دکھا یا تھا،ارونا نے کافی مشکل سے ڈانس سیکھا تھااوراس فلم میں امیتابھ کی گھبراہٹ دیکھ کر ان کو اپنا مشکل وقت یاد آگیا۔

حالانکہ’’بمبئی ٹوگوا ‘‘ سب کو پسند آئی تھی لیکن ارونا کو ا س فلم کے بعد کام ملنا کم ہوگیا تھا ۔وجہ یہ رہی کہ لوگوں کو یہ لگا کہ شاید ارونا ایرانی نے محمود سے شادی کرلی ہے ۔ ارونا نے بھی اس بات کی صحیح طرح تردید نہیں کی حالانکہ اس دور میں اگر کسی ہیروئن کی شادی ہوجاتی تواسے کام ملنا کم ہوجاتا تھا۔

کچھ عرصہ بیتا کہ ایک دن راج کپور نے محمود کو فون کیا اور ارونا ایرانی کے بارے میں پوچھا۔ انہیں اپنی فلم ’بوبی‘ کے لئے ارونا ایرانی جیسی ہی کسی لڑکی کی تلاش تھی ۔ دونوں میں مذاکرات ہوئے اور یوں ارونا کو اپنے ایکٹنگ کیرئیر کی نئی اننگز شروع کرنے کا موقع ملا۔

فلم ’’بابی‘‘ میں ان کا کرداربہت مضبوط تھاجسے نبھانے میں ارونا نے کمال کردیا۔ پھر کیا تھا یہیں سے ان کی کامیابیوں کا نیا دور شروع ہوا جس کے بعد انہیں کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

سن70 اور 80 کی دہائی میںارونا نے جو بھی کردارکئے انہیں آج تک کوئی نظر انداز نہیں کرسکا۔انہوں نے ماں کا کرداربھی کئی فلموں میں ادا کیا یہاں تک کہ فلم ’غلام مصطفیٰ‘ میں انہیں نانا پاٹیکر کی ماں کا کردار بھی ملا۔

فلم ’پیٹ پیار اور پاپ‘ کے لیے انہیں ’فلم فیئر ‘کا بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر یس کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔

ارونا ایرانی نے اپنے ابتدائی دور سے اب تک کہ تقریباً تمام بڑے فنکاروں کے ساتھ کام کیا خواہ وہ راجیش کھنہ ہوں، جتیندرہوں،دلیپ کمار ، رشی کپور،دھرمیندر ، امیتابھ بچن، یا پھر اسرانی ۔ ارونا نے ہر فنکار کے سامنے خود کو مضبوط کردار کی شکل میں ماہر فنکارہ کی حیثیت سے منوایا۔

فلموں کے بعدانہوں نےٹیلی ویژن کا رخ کیااوریہاں بھی کئی یادگار ڈرامے دیئے۔مثلاً’مہندی تیرے نام کی‘ اور’دیس میں نکلاہوگاچاند‘۔

انہیں فنکارانہ صلاحیتوں کی بناء پر ہی 19 فروری 2012 کو لائف ٹائم ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تازہ ترین