اسلام آباد(طاہر خلیل) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے حکومت کے امور حکمرانی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک روز قبل انہوں نے قسمیہ اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ نیت صاف ہے اور سیاسی مقدمات کوہاتھ لگانے کا بھی دل نہیں کرتا۔ میں چاہتا ہوں کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق، صاف پانی،روٹی ملنی چاہیے۔ قابل احترام چیف جسٹس کے ریمارکس اور عدلیہ کے اقدامات کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خیالات قابل توجہ ہیں کہ عدالتوں کو پارٹی سربراہ کےبارے میں فیصلے کرنےکا حق نہیں، اسی طرح اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی محترم چیف جسٹس کو مشورہ دے چکے ہیں کہ حکومتی امور میں مداخلت کرنے کی بجائے عدالتی نظام میں انصاف کے عمل میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کریں۔بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن عدالتی فعالیت پر یکساں خیالات کی حامل ہیں۔ اسی لئےعدالت کو حکومتی معاملات میں مداخلت کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے، لوگوں کو سستے اور فوری انصاف تک رسائی کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے جس کی ضمانت دستور پاکستان نے فراہم کی ہے، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ صاف پانی، تعلیم اور صحت کے ساتھ اچھی حکمرانی سمیت عام لوگوںکے حقوق اور مفادات کاتحفظ کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کراچی اور لاہور کے ہسپتالوں کا ذاتی مشاہدہ کرکے وہاں مریضوں کی سہولتوں کی عدم فراہمی اورلواحقین کی حالت زار کے ساتھ ملک کے دونوں بڑے شہروں میں صاف پانی کے معاملات پر جو کارروائی کی اس پر حکمران اشرافیہ کی ناگواری کوعوامی حلقوں کی پذیرائی نہیں مل سکی ۔