میں اپنے گھر والوں، خصوصاً ابّو کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں معذور ہوچکا ہوں۔پتا نہیں کیوں، آج خیال آیا کہ آپ کے توسّط سے اپنے ان جذبات و احساسات کو بیان کروں، جنہوں نے مجھے دنیا سے بالکل الگ تھلگ کرکے صرف ایک کمرے تک محدود کردیا تھا۔ میں تین سال کی عمر میں ایک ایسے ظالم بخار کی گرفت میں آگیا، جس نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔
وقتی طور پر ڈاکٹروں کی ادویہ سے بخار اتر جاتا تھا، مگر چند دنوں بعد طبیعت مالش کرنے لگتی، پہلے الٹیاں ہوتیں اور پھر بخار چڑھ جاتا، سر میں بھی مسلسل درد رہنے لگا تھا، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس بیماری نے مجھ سے چلنے پھرنے کی قوت چھین لی، حتیٰ کہ ایک وقت یہ آیا کہ میں اپنی ٹانگوں پر بھی کھڑا ہونے سے محروم ہوگیا۔ جب چھوٹا تھا، تب گھر والے گود میں اٹھاکر صحن میں لے آتے تھے۔ تھوڑا بڑا ہوا، تو مجھے ان پر بوجھ بنتے ہوئے شرم سی محسوس ہونے لگی، لہٰذا اپنے کمرے میں مقیّد ہوکر رہ گیا۔ میرے گھر والے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ والد صاحب کی تو میں آنکھ کا تارا تھا، وہ فرصت کے لمحات میرے ساتھ گزارتے تھے، اپنی باتوں سے کبھی مجھے معذوری کا احساس نہیں دلاتے تھے۔
مجھ سے دنیا بھر کے قصّے، کہانیاں شیئر کرتے۔ ان کہانیوں میں یہ سبق ہوتا کہ انسان کو کبھی مایوس ہوکر حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور ان کی ان باتوں سے مجھے خود اعتمادی ملتی۔ دوسرے بہن بھائیوں کو اسکول جاتے دیکھ کر میرے اندر بھی خواہش پیدا ہوگئی تھی کہ میں بھی اسکول جائوں۔ والد صاحب سے اظہار کیا، تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ انھوں نے مجھے قریب واقع ایک پرائیویٹ اسکول میں داخل کروادیا، کہنے لگے ’’دیکھتے ہیں کہ تمہیں پڑھائی کا کتنا شوق ہے، اگر تم اچھا رزلٹ دوگے، تو مجھے بے حد خوشی ہوگی۔‘‘ پھر والد صاحب روزانہ مجھے کندھوں پر بٹھا کر اسکول چھوڑنے اور چھٹی پر گھر لے کر آنے لگے۔ وہ گھر پر بھی مجھے پڑھاتے تھے۔
میرا شوق بڑھتا گیا، کیوں کہ میں نے پہلی جماعت میں اوّل پوزیشن لے کر استادوں اور دوسروں بچّوں کی نگاہوں میں اپنے لیے ستائش اور خلوص دیکھ لیا تھا،اور ان ہی جذبوں کو برقرار رکھنے کے لیے پھر میں نے ہر کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ ان کام یابیوں نے میرے اندر کی گھٹن اور پژمردگی کو تو کافی حد تک دور کردیا، لیکن میری صحت اتنی محنت برداشت نہ کرسکی۔ میں پانچویں کا رزلٹ آنے سے قبل ہی بیمار پڑگیا۔ اس وقت والد صاحب کی پریشانی دیدنی تھی، وہ مجھے شہر کے ہر مشہور ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے، لیکن مرض کی جڑ کسی کے سمجھ میں نہ آئی۔
ایک دن میرے والد کے ایک پرانے دوست جو عرصہ دراز سے لاہور شفٹ ہوگئے تھے، ان سے ملنے آئے۔ اس روز میری طبیعت بہت خراب تھی۔ انہوں نے میری حالت دیکھ کر والد صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے الف سے ی تک میری کتھا سنادی اور پھر میری ذہانت اور پڑھائی کے شوق کے بارے میں بتاتے ہوئے رو پڑے۔ انہیں میں نے پہلی بار حوصلہ ہارتے دیکھا تھا، میں بھی رونے لگا، والد صاحب کے دوست نے کہا کہ ’’جب اس شہر میں اس کا صحیح علاج نہیں ہورہا، تو اللہ کا نام لے کر میرا ایک مشورہ مانو، بیٹے کو لاہور کے چلڈرن اسپتال لے جائو۔ کم از کم وہ مرض کی تشخیص تو صحیح کرلیں گے، پھر علاج کا بعد میں سوچیں گے۔‘‘ یہ بات والد صاحب کے دل نے قبول کرلی۔ تیسرے روز وہ مجھے لے کر لاہور روانہ ہوگئے۔
میں نے تو اپنا شہر بھی محض ایک فرلانگ تک ہی دیکھا تھا، وہ بھی والد صاحب کے کندھوں پر اسکول آتے جاتے ہوئے۔ لاہور پہنچ کر وہاں کی گہما گہمی دیکھ کر حیران ہورہا تھا اور خوش بھی۔ ہم جس وقت اسپتال پہنچے، اس کی او پی ڈی بند ہوچکی تھی۔ والد مجھے لے کر سڑک کنارے بیٹھ گئے۔ ہم نے وہ سارا دن فٹ پاتھ پر گزارا، میرے لیے وہ نیا اور انوکھا تجربہ تھا، رات کو بھی میں وہاں بیٹھا شہر کی رونقیں دیکھتا رہا۔ اگلی صبح ابو کے وہی دوست آگئے۔ ان کی اسپتال میں جان پہچان تھی، جس کی وجہ سے جلدی باری آگئی اور ڈاکٹر نے بھی توجّہ سے معائنہ کیا اور ابّو سے کہا کہ بچّے کو اسپتال داخل کرنا پڑے گا، تاکہ اس کے ضروری ٹیسٹ لیے جاسکیں۔
ابو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ بہرحال، اسی روز مجھے اسپتال داخل کرلیا گیا۔ والد صاحب گھر سے پیسوں کا بندوبست کر کے چلے تھے، اس لیے کوئی دقّت نہ ہوئی۔ چند دن تک میرے مختلف قسم کے ٹیسٹ وغیرہ ہوتے رہے۔ ان سب کی رپورٹس آنے سے پہلے ڈاکٹرز نے والد صاحب کو بتادیا تھا کہ علامات سے ہمیں جس بیماری کا خدشہ ہے، دعا کریں، وہ نہ ہو، ورنہ آپ کے بیٹے کی زندگی دشوار ہوجائے گی۔‘‘ جب رپورٹس آگئیں، تو ڈاکٹرز نے والد صاحب سے میٹنگ کی، مجھے کچھ نہیں بتایا۔ صبح ایک لیڈی ڈاکٹر میرے پاس آئی اور طبیعت کا پوچھا، تو میں نے بتایا کہ پہلے سے بہتر محسوس کررہا ہوں۔ اس نے کہا ’’میں نے سنا ہے کہ تم پڑھنے کے بہت شوقین ہو؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا، وہ کہنے لگی ’’گڈ بوائے، اچھا تم آگے بہت پڑھنا چاہتے ہو اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ہائی اسکول بھی جانے کی خواہش رکھتے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں یہ خواب تو میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں، میرے ساتھی جب کھیلتے کودتے دکھائی دیتے، تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے ان جیسا بنادے۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ’’تو سمجھ لو، تمہاری دعا ان شاء اللہ ضرور پوری ہوگی، مگر اس سے پہلے تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا اور اسے ساری زندگی نبھانا بھی ہوگا۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ جو کہیں گی، میں مان لوں گا۔
آپ بس مجھے میری ٹانگوں پر کھڑا کردیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے جواب دیا ’’بیٹا، جو چیزیں گندم سے بنتی ہیں، وہ کھانا چھوڑنا پڑیں گی۔ ساری عمر تم گندم نہیں کھاسکو گے۔ تمہاری بیماری کا پہلا علاج گندم سے پرہیز ہے۔ چاول، باجرہ، مکئی کھا سکتے ہو۔‘‘ میں یہ سن کر حیران و پریشان ہوگیا، والد صاحب نے آکر مجھے اپنے طریقے سے سمجھایا کہ ’’تمہاری صحت کچھ قربانی مانگتی ہے، جو تمہیں ہرحال میں دینی ہوگی، جب تم اس بیماری سے نجات پالوگے، تب تمہاری ٹانگوں کا علاج کیا جائے گا، ورنہ تمہیں ساری عمر اسی حالت بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں جینا پڑے گا۔‘‘ میں نے ان کی بات مان لی۔
مجھے دراصل Celiac disease ہوگئی تھی، جس کا ڈاکٹرز کو خدشہ تھا، میں نے گندم کھانا چھوڑ دی اور چاول اور مکئی کو ہمیشہ کے لیے اپنی خوراک بنالیا۔ دو سال تک ادویہ کھانے کے بعد میری حالت سدھر گئی۔ بخار اورالٹیوں کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ مجھے پھر اسپتال لے جایا گیا، اس دوران والد صاحب نے ڈاکٹرز سے مسلسل رابطہ رکھا، جنہوں نے بتایا تھا کہ اب میری دونوں ٹانگوں کا آپریشن ہوگا۔ والد صاحب نے میرے علاج کے لیے اپنی زمین تک بیچ دی۔
ڈاکٹرز نے انہیں بتادیا تھا کہ پہلے تجرباتی آپریشن ہوگا، جس کے نتائج حتمی نہیں ہوتے۔ بچّہ ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی، اور خداناخواستہ اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔ والد صاحب نے جواب دیا، ’’آپ آپریشن کریں، آگے جو مرضی میرے رب کی۔‘‘ ان کی تحریری اجازت کے بعد میری ٹانگوں کا آپریشن شروع ہوا، جو بارہ گھنٹے تک جاری رہا۔ ڈاکٹرز کی پوری ٹیم اس آپریشن میں غیرمعمولی دل چسپی لے رہی تھی۔
صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک انہوں نے اَن تھک محنت اور توجّہ سے آپریشن کیا، میری دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوچکی تھیں، جنہیں کاٹ کر سیدھا کیا گیا۔ آپریشن کام یاب رہا تھا، جب مجھے ہوش آیا، تو والدین، بہن، بھائی میرے اردگرد کھڑے تھے،اگلے تین روز انتہائی تکلیف میں گزرے۔ پھر ٹانگوں پر پلستر چڑھا دیا گیا۔ مئی، جون کے مہینے ان پلستروں کے ساتھ گزارنا بڑا تکلیف دہ تھا، مگر والد صاحب نے مجھے اچھے دنوں کی نوید سناکر یہ کڑا وقت بھی آسان کردیا۔ میری ٹانگوں میں راڈز وغیرہ ڈالی گئی تھیں اور بتایاگیا تھا کہ جب اپنے پیروں پر چلنے لگو گے، تو شاید یہ چیزیں تکلیف دیں، مگر پھر ہم آپریشن کر کے انہیں بھی نکال دیں گے۔
پانچ ماہ کے بعد پلستر کاٹ دیا گیا، پھر فزیو تھراپی کا دور شروع ہوا، گھر آنے کے بعد والد صاحب نے ننھے بچّوں کی طرح مجھے تھام کر پائوں پر چلنے کی صبر آزما پریکٹس کروائی۔ کچھ عرصے ان کے سہارے اور پھر اپنے قدموں پر سہارے کے بغیر میں نے بالآخر چلنا سیکھ لیا۔ ٹانگیں سیدھی کرنے کے عمل میں انہیں کاٹا گیا تھا، لہٰذا میرا قد زیادہ نہیں بڑھ سکا، مگر مجھے قد کی پروا نہیں تھی۔ میں اب نارمل لوگوں کی طرح چلنے پھرنے لگا تھا، میرے لیے یہی اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت تھی۔ ڈاکٹرز کی جس ٹیم نے میرا علاج کیا تھا، وہ مجھے دیکھ کر خوشی کا بھرپور اظہار کرتے کہ میں وہی ٹیڑھی ٹانگوں والا بچّہ ہوں، جو باپ کی گود میں اسپتال آیا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال جو میری آپریشن ٹیم کے ہیڈ تھے، وہ خصوصی طور پر مجھ سے ہاتھ ملاتے تھے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی، اکثر مجھ سے یہی کہتے ’’بیٹا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا، جس نے تم پر خصوصی کرم کیا اور ہماری محنت سے ناممکن کو ممکن کردیا اور کبھی اپنے والدین کی خدمت سے منہ نہ موڑنا، جنہوں نے تمہیں اس قابل کر دکھایا کہ آج اپنے پیروں پر چل پھر رہے ہو۔‘‘میں نے ڈاکٹر صاحب سے وعدہ کیا کہ ان کی نصیحت پر ہمیشہ عمل کروں گا، مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ میرے ابّو، جنہوں نے مجھے، ایک ننّھے سے ٹیڑھے پودے کو سینچ کر اس کی جَڑوں کو مضبوط کیا تھا، وہ اس آپریشن کے تین برس بعد ہی میرا ساتھ چھوڑگئے۔
مجھے سہارے کے بغیر کھڑا کرکے وہ خود عدم سدھار گئے۔ اور پھر میں نے ان کے وہ جملے گرہ سے باندھ لیے کہ ’’تمہیں اپنے پیروں پر چلتا دیکھنے کی میری خواہش اللہ تعالیٰ نے پوری کردی اور دوسری خواہش میرے مرنے کے بعد تم پوری کرنا، اورخوب پڑھ لکھ کر اس میدان میں دوسروں سے آگے نکل جانا۔‘‘ اور پھر میں نے ان کی یہ خواہش اپنی بھرپور محنت اور لگن سے پوری کردی۔ اس وقت میں ایک ایسوسی ایٹ انجینئر ہوں، لیکن آگے بھی مزید پڑھائی جاری ہے، اچھی جاب کے بعد مزید ڈگریوں کے حصول کا پکّا ارادہ رکھتا ہوں۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود والد صاحب شدت سے یاد آتے ہیں، جنہوں نے مجھے اپنے قدموں پر کھڑا کیا تھا۔ اے کاش! کہ میری ان کام یابیوں کے سفر میں بھی میرے ساتھ ہوتے، تو میں کس قدر خوش ہوتا۔(غلام محی الدین، تحصیل لالیاں، ضلع چنیوٹ)
میں 45برس قبل اپنے قصبے کے واحد اسکول میں بہ حیثیت ٹیچر، بچّوں کو بڑی توجّہ اور محنت سے پڑھایا کرتا تھا۔ ایک روز حسبِ معمول اپنی کلاس کے طلباء کو پڑھانے گیا، تو وہاں ایک نئے لڑکے کو دیکھا، جس کا اسی روز داخلہ ہوا تھا۔ وہ نہایت خوب رو اور سنجیدہ قسم کا نوجوان تھا، سنہری فریم کے چشمے نے اس کی سنجیدگی کو مزید بڑھادیا تھا۔ وہ انہماک اور توجّہ سے پڑھتا تھا،ہر سوال کا جواب توقع سے بڑھ کر دیا کرتا۔
دوسرے بچّوں کی بہ نسبت اس کی جسمانی اٹھان بھی بہت اچھی تھی۔ کپڑے بھی اچھے پہنتا تھا۔ تاہم، قصبے کے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے کہ، کون ہے، کہاں سے آیا ہے؟مجھے بھی تجسّس تھا، لہٰذا میں نے ایک روز اسے اپنے پاس بلا کر محبت سے پوچھ ہی لیا کہ’’اکرم!تمہیں اور تمہارے والدین کو ہم قصبے والے نہیں جانتے، تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘تو اس نے چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ذہین آنکھوں سے چند ثانیے میری طرف دیکھا، پھر بولا ’’سر!یہ بات میں خود آپ کو بتانا چاہتا تھا، لیکن بہرحال، آج آپ نے پوچھ لیا ہے، تو اپنی داستان سنانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم آپ سے درخواست ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے تک آپ اسے راز ہی رکھیںگے۔ ‘‘
میں نے اسے راز داری کا یقین دلایا، تو وہ کچھ اس طرح گویا ہوا ’’سر! میں جن کے ساتھ رہتا ہوں، وہ میرے گھریلو وفادار ملازم ہیں۔ میرا تعلق بہاول پور کے نواحی علاقے کے بڑے زمین دار گھرانے سے ہے۔ ہمارے چچائوں نے زمینوں کے جھگڑوں میں سازش کر کے میرے والد کو قتل کروا دیا۔ والد کو قتل کرنے کے بعد وہ مجھے بھی راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ ان حالات میں میری والدہ ڈری سہمی رہنے لگی تھیں۔ والد کے ناگہانی قتل کے بعد انہوں نے کئی برس مجھے اسکول بھی جانے نہیں دیا۔ گھر پر اگرچہ ٹیوٹر رکھوا دیا تھا، لیکن میں اسکول جانا چاہتا تھا ،والدہ کو بھی میری پڑھائی کی فکر تھی، لہٰذاانہوں نے مجھے اس قصبےمیںیہ سوچ کر بھجوادیا کہ یہاں کوئی مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ یہاں آنے کے بعد مَیں اپنی پڑھائی کا نقصان پورا کرنے کے لیے ساتویں جماعت میں داخلہ لے کر ساتھ ہی پرائیویٹ طور پر میٹرک کے امتحان کی بھی تیاری کر رہا ہوں۔‘‘
مَیں اکرم کا پس منظر جاننے کے بعد اس کی اور عزت کرنے لگا تھا۔کچھ عرصے بعد اس نے اپنی ذاتی کاوشوں سے قصبے میں ایک کتب خانہ قائم کیا، جہاں بچّوں کو نصاب کی کتب کے ساتھ دیگر موضوعات کی کتابیں بہ آسانی ملنے لگیں۔لائبریری کے قیام کے بعدقریب ہی ایک مکان کرائے پر حاصل کرکے لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ بھی بنوادیا۔ وہ چوں کہ خود بھی حافظِ قرآن تھا، اس لیے خود بھی بچّیوں کو پڑھانے لگا۔ چند ہی ماہ میں خواتین اور بچّیوں کی ایک کثیر تعداد درس گاہ آنے لگی۔ یہ سارا کام اس نے محض چھے سات ماہ میں کر دکھایا تھا۔
میٹرک کے امتحانات شروع ہوئے، تو میری، نگراں کی حیثیت سے ایک بڑے اسکول میں ڈیوٹی لگا دی گئی، وہاں میں نے اکرم کو میٹرک کا امتحان دیتے دیکھا، پھر میٹرک میں اعلیٰ نمبروں سے کام یاب ہوکر وہ ملتان کے ایک معروف کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لےکر ہاسٹل شفٹ ہوگیا مگر اپنے قائم کردہ تعلیمی مدرسے اور لائبریری کا انتظام و انصرام چند معتبر لوگوں کے سپرد کرکے مجھ سےدیکھ بھال اور کبھی کبھار معائنے کی درخواست کرکے گیا، جو میں نے قبول کر لی۔ دو سال کے عرصے میں ایک بار مجھ سے ملنے قصبہ آیا اوراپنے لگائے پودوں کو پھولتا پھلتا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔مجھ سے مختصر بات چیت میں اس نے بتایا کہ’’مَیں ان دنوں بہت مصروف ہو چکا ہوں، اس لیے قصبے کی طرف آنا ممکن نہیں رہا ۔‘‘
پھرایک عرصے بعد کسی نے مجھے بتایا کہ اس نے اسے شہر میں ایک بڑے ہوٹل کی افتتاحی تقریب میں فیتہ کاٹتے دیکھا ہے، شاید وہ ہوٹل اسی کا ہو۔بہرحال، چھے، سات برس تک اس کی کوئی خیرخبر نہ ملی۔ ان ہی دنوں میرے ایک قریبی عزیز بیمار ہوئے تو انہیں شہر کےایک مشہور نجی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ میں ان کی عیادت کرنے گیا، تو گیٹ پر فوجی وردی میں ملبوس نوجوان کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ لپک کر میرے پاس آیا، وہ اکرم ہی تھا، جو کیپٹن کی وردی میں ملبوس تھا۔ اس کی اپنائیت اور گرم جوشی نے میرا دل خوش کر دیا۔ میرے ساتھ وہ میرے عزیز کی عیادت کے لیے گیا، پھر اپنی رہائش گاہ لے گیا اور خوب خاطر مدارات کی۔ مجھ سے قصبے میں اپنے لگائے گئے تدریسی پراجیکٹ کے بارے میں کرید کرید کر پوچھتا رہا اور قیمتی مشورے دیتا رہا۔
جب میں اس کے گھر سے لوٹنے لگا،تو اس نے بڑے خلوص سے کہا ’’سر! مَیں آج جو کچھ بھی ہوں، آپ ہی کی محبّتوں اور شفقتوں کی وجہ سے ہوں آپ نے میرا بہت خیال رکھا۔ میں نے اس قصبے میں صرف آپ کی غیر معمولی شفقت کی وجہ سے طویل قیام کیا تھا۔ آپ کو جب میری ضرورت پڑے گی، مَیں ان شاء اللہ حاضر ہوجائوں گا۔‘‘
قصبے واپس آکر لوگوں کو اکرم کے بارے میں بتایا،تو سب بہت خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ اس کی قائم کی گئی لائبریری اور قرآنی تعلیم کے لیے عورتوں اور بچیوں کا ادارہ پھل پھول رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد مجھےپتا چلا کہ اکرم کا ملتان سےکہیں اور ٹرانسفر ہوگیا ہے۔ ملتان سے ٹرانسفر کے بعد وہ جیسے میرے لیے کھو چکا تھا۔ بہت عرصے تک میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ادھر میرے چھوٹے بھائی نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر فوج میں بہ طور سپاہی ملازمت اختیار کرلی ،مگر آگے چل کر سخت فوجی تربیت اور مشقّت سے گھبرا کر بھاگ آیا، لیکن جلد ہی پکڑا گیااور مفرور ہونے کے جرم میں سزا کے طور پر اسے اس کے یونٹ میں قید کر دیا گیا۔
میرے بوڑھے ماں، باپ اس کے غم میں رات، دن روتے رہتے تھے۔ مجھے ایک، دو بار خیال آیا کہ اگر حافظ اکرم مل جاتا، تو وہ اس معاملے میں میری ضرور مدد کرتا۔ میں نے اسے ملازمت سے ڈسچارج کرنے اور سزا ختم کرنے کی درخواست ہیڈ کوارٹر میں جمع کروا دی تھی، لیکن کوئی کام یابی نہیں ہوئی، تو بالآخر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ ایک روز دوپہر کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ہی کنڈی کھولی۔ چوکھٹ پر حافظ اکرم کھڑا تھا۔ میں حیران ہو گیا،اندر لا کر بٹھایا۔علیک سلیک کے بعد کہنے لگا ’’آپ مجھے بہت یاد آ رہے تھے، اس لیے ملنے چلا آیا۔ اتفاق سے اس قصبے کے ایک مفرور فوجی نوجوان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔ اس نوجوان کو ڈسچارج کروانے کی بہت سی درخواستیں آئی ہوئی ہیں۔
مجھے انکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے، تو میں نے سوچا کہ خود جا کر اس کے گھریلو حالات کا جائزہ لے کر اس کیس کی رپورٹ لکھوں۔ اس بہانے آپ سے بھی ملاقات کر لوں گا۔‘‘میں حیران رہ گیا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ نوجوان میرا ہی چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے کہا ’’پہلے کھانا کھا لیں، پھر اس نوجوان کی انکوائری شروع کریں۔‘‘
کھانے کے بعد میں نے اسے اصل صورت حال بتادی کہ وہ میرا ہی چھوٹا بھائی ہے، جو ہم سے پوچھے بغیرفوج میں بھرتی ہوا ، لیکن بچپن میں لاڈ پیار میں پلنے کے باعث فوجی تربیت کی سختیاں برداشت نہیں کرسکا اور فرار ہوگیا، والدین اس کے غم میں روتے رہتے ہیں۔‘‘میری روداد سننے کے بعد کچھ دیر تک وہ ٹھہرا اور پھر چلا گیا۔چند روز بعد میرا بھائی ڈسچارج ہو کر گھر آ گیا۔
یہ میری حافظ اکرم سے آخری ملاقات تھی،اس کے بعد کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ مجھے قدم قدم پر حیران کرنے والا کہاں چلا گیا، جو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجودمجھے اب بھی یاد آتا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ جہاں رہے، خوش رہے۔ بلاشبہ،میری زندگی میں ایسا کوئی اور دوسراانسان نہیں آیا، جس کی شخصیت کے اتنے حیران کن روپ ہوں۔(غلام محمدخان، لاہور)
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔
ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں
انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ
اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی