• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

صدارتی ایوارڈ یافتہ ، ورسٹائل اداکار، ایوب کھوسہ کی کھری کھری باتیں

صدارتی ایوارڈ یافتہ ، ورسٹائل اداکار، ایوب کھوسہ کی کھری کھری باتیں

انٹرویو :قادر نائل، کوئٹہ

تصاویر:رابرٹ جیمس

انٹرویو: صدارتی ایوارڈ یافتہ ، ورسٹائل اداکار، ایوب کھوسہ کی کھری کھری باتیں
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

 رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان کو تمام تر شعبۂ ہائے زندگی میں پس ماندہ صوبہ تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اس کے دشت و کوہ کے درمیان واقع، دُور افتادہ علاقوں کی جُھگیوں اور کچّے مکانوں میں بھی کئی ایسی پختہ کار شخصیات نے جنم لیا کہ جنہوں نے اپنے فن کی بہ دولت نہ صرف بلوچستان بلکہ مُلک بَھر کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ 

گرچہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے سے مُلکی و بین الاقوامی سطح پر نام کمانے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں، لیکن بلوچستان سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو جب بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا، وہ اپنے فن کے بَل پر عوام کے دِلوں کی دھڑکن بن گئے۔ 

مہر گڑھ تہذیب کے امین اور بلوچستان کی خُوب صُورت روایات، اقدار اور ثقافت کے ان سفیروں میں فلم، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار، ایّوب کھوسہ کا نام نمایاں ہے۔ وہ مُلک میں اور بیرونِ مُلک بلوچستان کی شناخت ہیں اور محض اداکار ہی نہیں، ایک مکمل ثقافتی سفیر ہیں۔ ان کا سیاسی و فنی شعور بلند اور بلوچستان کے سماج سے ربط بہت گہرا ہے۔ 

انسان دوستی ان کے مزاج کا خاصّہ اور محبّت ان کی سرشت میں شامل ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اداکاری کے جوہر دِکھانے والے مقبول فن کار، ایّوب کھوسہ 1960ءمیں بلوچستان کے ضلع، جعفر آباد میں پیدا ہوئے اور جامعہ بلوچستان سے گریجویشن کی۔ اسکول کے زمانے ہی سے اداکاری کا آغاز کیااور پاکستان ٹیلی ویژن، کوئٹہ سینٹر سے پیش کیا جانے والا بلوچی ڈراما، ’’واہگ‘‘ اُن کا پہلا ٹی وی ڈراما تھا۔ 

7سے زاید زبانوں پر عبور رکھنے والے، باصلاحیت ایّوب کھوسہ مُلک کے تمام صوبوں میں یک ساں مقبول ہیں اور صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی سمیت کئی اہم اعزازات بھی اپنے نام کر چُکے ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے ایّوب کھوسہ سے ایک تفصیلی نشست کی، جس کے دوران انہوں نے اپنے شوبِز کیریئر کے آغاز سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ،’’اسکول کے زمانے میں میرے دِماغ میں اچانک یہ خیال سمایا کہ مَیں خبریں پڑھ سکتا ہوں اور مُجھے ریڈیو جوائن کرنا چاہیے۔ سو، مَیں نے ریڈیو حُکّام سے رُجوع کیا، مگر انہوں نے جواب دیا کہ’’ ابھی تم بہت چھوٹے ہو ۔ میٹرک کرنے کے بعد اس شعبے میں قسمت آزمانا۔‘‘

 ویسے مُجھے بچپن ہی سے ڈراموں میں اداکاری کا بھی شوق تھا اور اکثر پی ٹی وی، کوئٹہ سینٹر جاتا رہتا تھا۔ ایک روز اتفاقاً جوہر شناس اسٹیشن منیجر، کریم بلوچ مرحوم کی نظر مُجھ پر پڑ ی، توانہوں نے پوچھا کہ’’ کیا اداکاری کا شوق ہے؟‘‘ مَیں نے اثبات میں جواب دیا، تو انہوں نے مُجھے نواز مگسی کے پاس بھیج دیا اور یوں میرا اداکاری کا سفر شروع ہوا۔ میرا پہلا ڈراما،’’ واہگ‘‘ تھا، جسے سندھی سے بلوچی میں ترجمہ کیا گیا تھا، جب کہ میرے بلیک اینڈ وائٹ ڈراما سیریل، ’’وہ کون ہے‘‘ کو بھی کافی پزیرائی ملی۔ 

اس ڈراما سیریل سے مُجھ سمیت عبدالقادر حارث، غلام نبی، اسمٰعیل شاہ مرحوم، نواز اور احمد جمیل وغیرہ مُلک بَھر میں متعارف ہوئے اور بعدازاں سبھی نے خُوب نام کمایا۔ جب ٹیلی ویژن کی رنگین نشریات شروع ہوئیں، تو ’’مَن‘‘ نامی ڈراما کافی مقبول ہوا اور پھر اقبال پاشا کے ڈرامے، ’’چھائوں‘‘ اور طارق معراج کے ڈراما سیریل ’’بھنور‘‘ سے میری شُہرت میںبے پناہ اضافہ ہوا۔‘‘

 ایک سوال کے جواب میں ایّوب کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’’ کوئی بھی فرد اتفاقاً فن کار نہیں بنتا۔ البتہ اتفاقاً فن کار ضایع ضرور ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مُجھے اتفاقاً اپنے فن کے اظہار کا موقع نہ ملتا یا مَیں اُس موقعے سے فائدہ نہ اُٹھاتا، تو میرا فن ضایع ہو جاتا۔ مَیں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ مُجھے میری توقّعات کے مطابق مواقع ملے۔ مَیں نے کم و بیش 16برس تک اداکاری کے ساتھ ایک بینکر کے طور پر بھی فرائض انجام دیے، لیکن پھر اس ملازمت کو خیر باد کہہ دیا، حالاں کہ اچّھی خاصی تن خواہ کے علاوہ گاڑی کی سہولت بھی دست یاب تھی۔

نیز، اگر کوئی فرد اتفاقاً اداکاری کے شعبے میں قدم رکھتا بھی ہے، تو اس کا کیریئر نہایت مختصر ہوتا ہے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ ’’ اگر آرٹسٹ نہ ہوتے، تو کیا بینکر ہوتے؟ ‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ جی نہیں۔ مَیں بچپن ہی سے پاکستان ایئرفورس جوائن کرنا چاہتا تھا اور اگر فن کار نہ بن پاتا، تو شاید پائلٹ ہوتا۔‘‘

اداکاری کی باقاعدہ تربیت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایّوب کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’’مَیں نے کسی اکیڈمی سے اداکاری کی تربیت حاصل نہیں کی اور پی ٹی وی ہی میری درس گاہ تھی کہ جہاں اُس دَور کے خالصتاً پروفیشنل پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے مجھ سمیت دوسرے فن کاروں کے فن کو نکھارا، لیکن اِن دِنوں پی ٹی وی میں بھی ایسے افراد بھرتی کیے جا رہے ہیں کہ جن کا آرٹ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج پی ٹی وی کی حالت قابلِ رحم ہے۔ کاظم پاشا، طارق معراج، اقبال لطیف، حیدر امام رضوی، نصرت ٹھاکر اور راشد ڈار جیسے بڑے ہدایت کار اور سینئر فن کار ہی ہمارے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ جب مَیں نے اداکاری کا آغاز کیا، تو مُجھے اردو بولنا تک نہیں آتی تھی، مگر کُہنہ مَشق ہدایت کاروں، فن کاروں کی بہ دولت نہ صرف اردو بولنا سیکھی، بلکہ اردو صَرف و نحو اور جملوں کی ادائیگی کے ساتھ چہرے کے تاثرات بدلنے سے متعلق بھی آگہی ہوئی اور یہ اُن ہی کی تربیت کا ثمر ہے کہ آج مَیں آپ کے سامنے اتنی روانی سے اردو بول رہا ہوں۔‘‘ ڈراما انڈسٹری کی موجودہ صورتِ حال سے متعلق کیے گئے۔

 ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ماضی کے مقابلے میں آج ٹی وی، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے خاصی ترقّی کر گیا ہے۔ کیمرے، لائٹنگ اور دیگر سہولتیں جدید دَور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں اور تیکنیکی طور پر ہم کسی سے پیچھے نہیں، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصل چال بُھول چُکے ہیں اور مارکیٹ کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں۔ 

آج شو بِز انڈسٹری پر ان ہی ڈکٹیٹرز کا غلبہ ہے۔ آج جو ٹی وی چینلز کے لیے اسپانسرز لے کر آتا ہے،تو وہی سب شرائط بھی طے کرتا ہے کہ ڈراما فلاں رائٹر لکھے گا،فلاں پروڈیوسر، ہدایت کار ہوگا اور پھر ایک اداکار کو مجبوراً اُسی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ڈراما نویس کو بھی ڈکٹیٹ کروایا جاتا ہے، جب کہ ماضی میں ڈراما لکھوانے سے قبل ڈراما نویس سے کئی ماہ تک مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔

اسکرپٹ فائنل ہوجاتا،تو پھر اُس کے مطابق کرداروں کا تعیّن کیا جاتا، لیکن آج اگر کسی ڈراما نویس سے کہا جائے کہ دو روز میں ڈراما لکھ کر دے دو، تو وہ اس سے بھی پہلے لکھ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ڈراموں کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘

ڈرامے کے دیہات سے شہر کی جانب سفر یا ڈراموں میں شہری ثقافت پیش کرنے کے بڑھتے رُجحان پر ایّوب کھوسہ کا کہنا تھا کہ’ شہروں میں ڈراموں کی شوٹنگ اس لیے کی جاتی ہے کہ اب پروڈیوسرز کم سے کم اخراجات میں ڈراما بنانا چاہتے ہیں۔ 

پروڈیوسر، رائٹر کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ کہانی کو زیادہ نہ پھیلائے اور اسے چار دیواری ہی تک محدود رکھے۔ پھر آج کل کے اداکار بھی ژوب یا گوادر جیسے مُلک کے دُور دراز علاقوں میں شوٹنگ سے انکار کر دیتے ہیں، لیکن اگر انہیں امریکا، برطانیہ یا کسی اور ترقّی یافتہ مُلک میں عکس بندی کا کہا جائے، تو فوراً آمادہ ہو جاتے ہیں۔

 آج ہر چیز کمرشلائز ہو چُکی ہے اور پروڈیوسرز کو صرف بزنس سے سروکار ہے۔‘‘ موجودہ اور ماضی کے ڈراموں میں موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ گرچہ آج ہماری ڈراما انڈسٹری تیکنیکی طور پر ماضی کے مقابلے میں خاصی ترقّی یافتہ ہے اور اس میں پیسا بھی بہت ہے، لیکن حالیہ ڈرامے ہماری اقدار اور روایات کو تباہ کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے نئی نسل اپنی ثقافت سے دُور ہوتی جا رہی ہے۔ مَیں پیپلز پارٹی، سندھ کے کلچرل وِنگ کا انفارمیشن سیکریٹری بھی ہوں اور اکثر اوقات لوگ مجھ سے ڈراموں کے ذریعے اپنی ثقافت کو ترقّی دینے کی بات کرتے ہیں۔ 

مَیں نے ماضی میں بلوچی زبان کے جتنے ڈراموں میں کام کیا، انہیں بعد ازاں اردو زبان میں بھی پیش کیا گیا اور ان تمام ڈراموں میں بلوچستان کے کلچر کی نمایندگی کی، جسے دُنیا بَھر میں اردو سمجھنے والوں نے دیکھا، مگر آج کل کے ڈرامے ہمارے کلچر کی نمایندگی نہیں کرتے ، جب کہ سندھی، بلوچی، پشتو، ہندکو یا دیگر علاقائی زبانوں کے ڈراموں میں تو آرٹسٹ کی مرضی قطعاً نہیں چلتی۔ میری گزارش ہے کہ حکومت اور پیمرا تمام تفریحی چینلز کو علاقائی زبانوں کے ڈرامے دِکھانے کا بھی پابند بنائے اور انہیں ایک مخصوص وقت پر آن ایئر کیا جائے۔ 

آج ناخدا، دیواریں، جنگل اور وارث جیسے ڈراما سیریلز بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسے ڈراما سیریلز کے لیے گنجائش نہ نکالی گئی، تو ہماری ثقافت کو سمجھنے والے لکھاریوں کا قلم رُک جائے گا، جو اپنے ہاتھوں سے اپنی ثقافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ بد قسمتی سے ہم بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کو مُلک بَھر میں فروغ نہیں دے سکے۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں تقریباً ہر فرد ہی تین سے چار زبانیں بول سکتا ہے، مگر جب ہم پنجاب میں براہوی میں بات کرتے ہیں، تو مقامی باشندے اسے کوئی غیر مُلکی زبان سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہاں یہ زبان نہیں پہنچائی گئی، لیکن اگر پنجابی پورے مُلک میں کہیں بھی بولی جائے، تو لوگ اسے سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے ذرایع موجود ہیں اور ہمیں انہیں استعمال کرنا چاہیے۔

انٹرویو: صدارتی ایوارڈ یافتہ ، ورسٹائل اداکار، ایوب کھوسہ کی کھری کھری باتیں

 وزارتِ ثقافت اور ٹی وی چینلز کی انتظامیہ کو مل بیٹھ کر کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا ہو گا کہ پُرانے ڈراموں کا دَور واپس آ جائے۔ ان دِنوں مارننگ شوز میں ایسے افرادعلاقائی ثقافت پیش کر رہے ہیں، جنہیں اس علاقے کے کلچر سے واقفیت تک نہیں۔ مَیں نے اس پر کئی مرتبہ اُن چینلز کی انتظامیہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ثقافت کو مسخ کر رہے ہیں، مگر یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔‘‘

گلوبلائزیشن یا عالم گیریت کے پاکستانی ڈراموں اور ثقافت پر اثرات سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ور سٹائل اداکار کا کہنا تھا کہ ’’گلوبلائزیشن کی وجہ سے پاکستانی ڈراموں اور فلمز کے لیے عرب ممالک کے دروازے کُھل گئے ہیں اور اب متعلقہ پاکستانی حُکّام اور سفارت کاروں کو اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہو گا۔ افغانستان ہمارا پڑوسی مُلک ہے اور ہمارا مذہب اور ثقافت بھی تقریباً ایک جیسی ہے، لیکن بدقسمتی سے افغانستان کے سنیمائوں میں بھارتی فلمز کی نمایش ہوتی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے حُکم ران شوبِز انڈسٹری اور فن کاروں، بالخصوص بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبے سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹس کی حالتِ زار پر کوئی توجّہ نہیں دیتے۔ 

گزشتہ دِنوں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اداکار، عبدالقادر حارث کا انتقال ہوا، تو کسی حکومتی شخصیت نے ایک تعزیتی بیان تک نہیں دیا، جب کہ لاہور کے کسی اداکار کا انتقال ہوتا ہے، تو مُلک بَھر کا میڈیا اُسے کوریج دیتا ہے۔ عبدالقادر حارث کی خدمات کے اعتراف میں کسی ٹی وی چینل نے کوئی پروگرام نہیں کیا، حالاں کہ وہ بہت بڑے فن کار اور درویش صفت انسان تھے اور انہوں نے ایک بین الاقوامی فلم بھی بنائی تھی۔ اسی طرح گزشتہ دِنوں بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، صدیق بلوچ کے انتقال پر لاہور اور اسلام آباد میں کوئی تعزیتی ریفرنس منعقد نہیں ہوا، حالاں کہ وہ کراچی کے رہائشی تھے۔ 

ان تمام باتوں کی وجہ سے ہم میں احساسِ محرومی بڑھتا جا رہا ہے اور اسے دُور کرنے کے ذمّے دار، صاحبانِ اقتدار کی گھروں کی ٹینکیوں سے پیسا بر آمد ہو رہا ہے۔ہمارے آرٹسٹ ہی ہماری ثقافت کی ترویج کرتے ہیں، لیکن اگر وہ نہ رہے، تو پھر ثقافت بھی معدوم ہو جائے گی۔ اس وقت اختر چنال دُنیا بَھر میں ہماری نمایندگی کر رہا ہے، لیکن ہم نے کتنے اختر چنال پیدا کیے اور اس نے بھی اپنی محنت ہی سے نام کمایا۔ ہم نے بے مثال آواز کے مالک ،مُراد پارکوی کی قدر نہیں کی اور نہ اُسے گروم کیا۔ وہ ساری عُمر ایک جھونپڑی میں رہا اور وہیں اس کا انتقال ہوا۔‘‘

ڈراموں میں یکسانیت کے خاتمے اور ثقافتی پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ایّوب کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن بنائی ہے، جو ڈراموں کا معیار بہتر بنانے کے لیے کام کرے گی۔ اس کے علاوہ ہم ذرایع ابلاغ کے ذریعے اپنے مسائل اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ تاہم، ڈراموں کا معیار بہتر بنانے کے لیے لکھاریوں کو بھی محنت کرنا پڑے گی۔ اس وقت کوئٹہ سینٹر ویرانی کا شکار ہے۔ 

انٹرویو: صدارتی ایوارڈ یافتہ ، ورسٹائل اداکار، ایوب کھوسہ کی کھری کھری باتیں

حکومت کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ کوئٹہ اسٹیشن کا آئوٹ پُٹ کیا ہے؟ یہاں سے گزشتہ ایک سال میں کتنے ڈرامے اور موسیقی کے پروگرامز پیش کیے گئے؟ تن خواہوں کی مَد میں کتنی رقم ادا کی گئی اور میڈیکل بِل اور ٹی اے ڈی اے کتنا وصول کیا گیا؟ پی ٹی وی انتظامیہ کو فوری طور پر کوئٹہ اسٹیشن سے ڈرامے پیش کرنے چاہئیں۔ مَیں اس موقعے پر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مُجھے اپنی اس صاف گوئی کی وجہ سے اکثر نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔ 

مُجھے مختلف شوز میں مدعو کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کُھل کر بات کریں، لیکن جب کوئی کُھل کر بات کرتا ہے، تو اسے آیندہ مدعو ہی نہیں کیاجاتا۔ اب جہاں تک ثقافتی پالیسی کی بات ہے، تو فلم کے میدان میں ہمیں پوری دُنیا کا مقابلہ کرنا ہے اور اس وقت اگر جنوبی افریقا سمیت کسی دوسرے مُلک میں پاکستانی فلمیں دِکھائی جا رہی ہیں، تو اس سلسلے کو ترقّی دینی چاہیے۔

 ہمارے سینما مالکان نے پہلے اعلان کیا کہ وہ بھارتی فلمز نہیں دِکھائیں گے، لیکن پھر خود ہی انڈین موویز کی نمایش شروع کر دی۔ دراصل، جب تک ہم خود معیاری فلمز نہیں بنائیں گے، تب تک یہ صورتِ حال برقرار رہے گی۔ دوسری جانب زیبا بختیار اور جامی نے فلمز بنائیں، لیکن سینما مالکان نے اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور جس روز زیبا بختیار کی فلم سینما میں نمایش کے لیے پیش کی گئی، اُسی روز ایک بھارتی فلم بھی پاکستانی سینمائوں میں ریلیز کر دی گئی۔ نتیجتاً زیبا بختیار کی فلم پہلے روز ہی پِٹ گئی اور پھر اُن میں دوبارہ فلم بنانے کی ہمّت ہی نہیں رہی۔

 کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم تو فلم انڈسٹری کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن سنیما مالکان کو بھی تو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ جامی نے بہترین فلم بنائی تھی، جس میں عبدالقادر حارث اور حمید شیخ نے بھی اداکاری کے جوہر دِکھائے تھے، لیکن چُوں کہ اس فلم کا کوئی تجارتی پہلو نہیں تھا اور نہ ہی اس میں غیر ضروری گانے، رقص اور بے ہودہ کامیڈی شامل تھی، اس لیے سنیما مالکان نے اس پر توجّہ نہیں دی اور یہ ناکام ہو گئی۔‘‘

تھیٹر کی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایّوب کھوسہ کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’فلم اور ڈرامے کی چکا چوند میں ہمارا تھیٹر بہت پیچھے رہ گیا ہے ، اس جانب بھی توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ 

چند روز قبل مَیں نے کراچی کے ایک تھیٹر میں معروف اداکار، ساجد حسن کا تحریر کردہ ڈراما دیکھا، جو مُجھے بہت پسند آیا۔ اس ضمن میں ’’ناپا‘‘ اور دیگر ادارے خاصا مثبت کام کر رہے ہیں اور تھیٹر کے احیا کے لیے ہمیں اُن کی مدد کرنی چاہیے۔ ’’ناپا‘‘ نے بلوچستان کے کئی نوجوان فن کاروں کو متعارف کروایا اور اس سلسلے میں اشرف سلہری کا کردار بھی خاصا اہم ہے۔ بلوچستان سے ہر برس کم و بیش نصف درجن بچّے اسکالر شپ پر ’’ناپا‘‘ جاتے ہیں۔

 تاہم، بلوچستان میں قائم آرٹس کائونسل کو بھی فعال کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ بلوچستان میں بننے والے ڈراموں کے حال اور مستقبل سے متعلق کیے گئے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’’بلوچستان میں اب بھی کئی اچّھے فن کار موجود ہیں۔ سو، یہاں بننے والے ڈراموں کا حال اچّھا ہے اور اگر ہم مستقبل میں ایک مثبت پالیسی مرتّب کریں، تو ان کا مستقبل بھی اچّھا ہو گا۔ بلوچستان سے مجھ سمیت عبداللہ بادینی، حسّام قاضی مرحوم، جاوید جمال اور جمال شاہ نے اپنی محنت کے بل پر پورے مُلک میں جگہ بنائی۔

 اس وقت افضل مُراد اور مجھ سمیت دیگر فن کاروں کی پوری کوشش ہے کہ ہم ’’کوئٹہ فلمز‘‘ کے نام سے اپنی کہانیاں آگے لائیں، جس کے لیے ہمیں فنڈز درکار ہیں، کیوں کہ بلوچستان کے زیادہ تر فن کار غریب ہیں۔ ہمارے پاس صلاحیت ہے، لیکن وسائل نہیں۔ بلوچستان میں باثروت افراد کی کمی نہیں اور مَیں اُن سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ فن کاروں پر بھی سرمایہ کاری کریں، تاکہ ہم اپنے مُلک اور علاقے کی ثقافت کو ترقّی دے سکیں۔ 

بلوچستان کا طرزِ زندگی مُلک کے دوسرے حصّوں سے بالکل مختلف ہے اور اگر ہم اپنے پسندیدہ موضوعات پر فلمز بنانے میں کام یاب ہو گئے، تو ہماری فلم انڈسٹری بھی آگے نکل جائے گی۔‘‘

فارغ اوقات میں اپنے مشاغل سے متعلق بتاتے ہوئے ایّوب کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’’مَیں سیر و سیّاحت کا بہت شوقین ہوں۔ مُجھے اپنا مُلک بے حد پسند ہے۔ گرچہ مَیں پاکستان کے ایک بڑے حصّے کی سیر کر چُکا ہوں، لیکن ابھی بھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ 

اگر مَیں صرف بلوچستان ہی پر دستاویزی فلمیں بنائوں، تو لوگ اس کا قدرتی حُسن دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ آج عالمی ذرایع ابلاغ میں پاکستان کو ایک دہشت گرد مُلک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو حقیقت کے برعکس ہے۔ پورے پاکستان بالخصوص بلوچستان کے باشندے بہت اچّھے اور صاف گو ہیں، لیکن بد قسمتی سے چند شر پسند عناصر سب پر حاوی ہو جاتے ہیں، کیوں کہ میڈیا میں منفی عناصر کو زیادہ پزیرائی ملتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی سیاست دان گالم گلوچ کرے، تو وہ ہر چینل پر آپ کو نظر آئے گا۔‘‘

 اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’شاید مَیں واحد فن کار ہوں کہ جسے عوام طویل عرصے سے ایک ہی گیٹ اپ میں پسند کرتے آ رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل میں میری کوشش ہو گی کہ کردار کے اعتبار سے اپنے گیٹ اپ میں تبدیلی لائوں۔ اداکاری کے علاوہ مُجھے ہدایت کاری اور ڈراما نویسی کا بھی شوق ہے اور میری خواہش ہے کہ جو تھوڑا بہت لکھا ہے، وہ ڈرامے کی شکل میں اسکرین پر پیش کروں۔‘‘ 

ایّوب کھوسہ نے مزید بتایا کہ’’ مَیں نے اپنے کیریئر کے دوران کئی نام وَر فن کاروں کے ساتھ کام کیا ۔ قوّی خان، عابد علی، نجیب اللہ انجم، عبدالقادر حارث، غلام نبی اور جاوید جمال کی اداکاری سے بہت متاثر ہوا۔ گرچہ ہماری اداکارائیں بھی خاصی با صلاحیت ہیں، لیکن اگر کسی ایک کا نام لیا، تو کہیںاس کے ساتھ میرا اسکینڈل ہی نہ بن جائے۔ مَیں خوش خوراک ہوں، لیکن بسیار خور نہیں۔ اس کے علاوہ کئی اقسام کے کھانے بھی بنا لیتا ہوں ۔ کوکنگ کے حوالے سے ایک شو میں مُجھے ’’بیسٹ سیلیبرٹی‘‘ کا اعزاز بھی دیا جا چُکا ہے۔ 

مَیں آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ’’ بلوچستان یونائیٹڈ آرٹسٹ فورم‘‘ غریب و ضرورت مند فن کاروں کی فلاح و بہبود اور ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں اے ڈی بلوچ، افضل مُراد اور ان جیسے کئی دوسرے دوست بھی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ وہ اکثر وزیرِاعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں، لیکن شاید وزیرِ اعلیٰ کے پاس اُن سے ملنے کا وقت نہیں ۔ 

مَیں جنگ، سن ڈے میگزین کے توسّط سے وزیرِ اعلیٰ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ انہیں ملاقات کا وقت دیں، تاکہ ہم اپنا ثقافتی وَرثہ بچا سکیں۔ غریب فن کاروں کی مالی معاونت کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے اور بہت سے فن کاروں کے لیے وظیفہ بھی مقرّر کیا گیا ہے، لیکن ہمیں مزید وسائل کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین