سعدالرحمن ملک
زراعت میں پانی کی اہمیت و افادیت مسلّمہ ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کرآج تک زراعت کا انحصار پانی پر ہے۔یہی وجہ کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو ہمیں قدیم تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر ہی آباد ملیں گی جس کی بنیادی وجہ پانی کے وسائل سے استفادہ کرنا تھا۔حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں پانی کے ذخائر کا تناسب صرف 60فیصد رہ گیا ہے جس کے لیے سنجیدگی سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اگلے پندرہ سالوں میں پانی کے عالمی بحرا ن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں مستقبل میں پانی کم یاب ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں دستیاب پانی کا 90 فیصد زرعی شعبے کودیا جاتا ہے جس میں سے 80فیصد پانی آبپاشی کے ناقص نظام اور پانی کی تقسیم میں نقائص کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ ہماری زراعت کے لیے آبپاشی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہریں ہیں۔انڈس واٹر سسٹم 3بڑے آبی ذخائر، 19 بیراجوں، 12رابطہ نہروں،45بڑی نہروں اور 1لاکھ7ہزار کھالوں پر مشتمل ہے جس کا تخمینہ تقریباً140ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔
جان بریسکو (John Briscoe) اور عثمان قمر نے اپنی کتاب پاکستان واٹر اکانومی رننگ ڈرائی ( Pakistan's Water Economy Running Dry ) میں لکھا ہے کہ پاکستانی پنجاب کا سندھ طاس دنیا کا سب سے غیرمؤثر نظام آبپاشی ہے۔یہاں زیادہ آبپاشی کی وجہ سے زمین سیم و تھور کا شکار ہوگئی ہے جسکی وجہ سے سیلینٹی کنٹرول اور ریکلیمشن پروجیکٹس (SCARP ) کو زیرزمین پانی کی بحالی پر کام کررہے ہیں۔یہ افسوسناک حقیقت کہ ہمارے آبپاشی کے نظام کی استعداد کار انتہائی کم ہے اور ہمارے آبی وسائل کا تقریباََ 70 فیصد پانی جذب و تبخیر کے عوامل، چھوٹی بڑی نہروں، کھالوں اور کھیتوں میں دوران آبپاشی ضائع ہوجاتا ہے۔
مذکورہ اعداد و شمارسے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ہم ضائع ہونے والے آبی وسائل کا صرف 50 فیصد بھی بچائیں تو ہم موجودہ آبی ذخائر سے کئی گنا پانی محفوظ کرسکتے ہیں اور اسے بہتر استعمال میں لاسکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک زرعی شعبہ میں پانی کے کم اور موثر استعمال کو یقینی بنا کر جہاں اضافی پیداوار حاصل کر رہے ہیں وہیں دستیاب پانی کو عام آبادی اور دیگر ضروریات کے لیے بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن سمندری پانی کو اس کی شوریت کی وجہ سے فصلوں میں براہ راست استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
چارلی پیٹن (Charlie Paton) نے اس پانی کو زراعت کے لیے قابل استعمال بناتے ہوئے سمندر کی نمی والی ہوا کو اس کے قریبی صحراؤں تک پہنچانے کے کامیاب تجربات کیے۔اب عمان، ابوظہبی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی ساحلی علاقوں کے ساتھ گرین ہائوسز قائم کیے گئے ہیں، جہاں بخارات بنانے والے پمپ نصب کئے گئے تاکہ نمی والی فضا پیدا کردی جائے جو کہ فصلوں اور مختلف فصلوں کی افزائش کے لئے ساز گار ماحول مہیا کرے گی۔ سائنس ٹیکنالوجی اور زراعت کی وزارتوں کو ہماری ساحلی پٹیوں پر اس طرح کے پروجیکٹ کاآغاز کرنا چاہئے۔
بعض پودوں میں ان کے مخصوص جینیاتی میکنزم کی وجہ سے نمکین پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے اس لیے انہیں سخت نمکین اور کھارے پانی میں بھی اگایا جاسکتا ہے ۔ نمک کو برداشت کرنے والے جین کی شناخت اور اس کو گندم ، مکئی یا چاول کی فصل میں داخل کرکے ہم نمک برداشت کرنے والی فصلیں تیار کرسکتے ہیں اور سمندر کے پانی یا شورہ زدہ علاقوں میں بھی غذائی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں تاکہ میٹھے پانی کے زراعت میں استعمال کو کم سے کم کیا جاسکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سے آج بھی انگریز کے وقت کا تشکیل کردہ نظام آبپاشی اپنی خستہ حالی میں چل رہا ہے۔بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں اور مستقبل کی آبی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہم نے تاحال کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔آبپاشی کے اس فرسودہ نظام کی تشکیل نو کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پالیسی ساز ایسا میکانزم تیار کریں جو آبپاشی کے سیکٹر کو مؤثر بنائے اور ابھرتی ہوئی بہتر ٹیکنالوجیز کی تشہیر کریں تاکہ وہ کھیتوں تک قابل رسائی ہوں۔
پانی کی بچت اور تحفظ آب کے لیے کام کر نے والے سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر یہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کاشتکاروں کی مالی اور تکنیکی مدد کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔کسان کو بھی یہ آگاہی دینا ضروری ہے کہ اگر ہم اپنے فرسودہ اور پرانے آبپاشی کے طریقوں کو نہیں بدلیں گے اور پانی کی بچت پر مبنی آبپاشی سکیموں پر اپنے زرعی بندوبست کو منتقل نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہماری آنیوالی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں۔کسانوں کو شعور دیا جائے کھلی آبپاشی (Flat) کے بجائے گہری نالیاں (Furrow) بنا کرپانی استعمال کریں۔
آبپاشی کے لیے روایتی طریقہ کار کو ترک کر کے سپرنکلر اور ڈرپ جیسے مستعد اور کفایت شعار آبپاشی نظام اختیار کرنے پر زور دیا جائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کی مقدار کم ہو وہاں صرف کم پانی والی اور جلد تیار ہونے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔ اگر پانی کم دستیاب ہو تو فصل کو صرف اس وقت پانی دیا جائے جب اس کی اشد ضرورت ہو۔زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین مرتب کیے جائیں۔
کھالوں کی وقتاً فو قتاً صفائی کی جائے اور پانی کو ضائع اور جذب ہونے سے بچانیکے لیے کھالوں کو پختہ بھی کیا جائے ۔زمین کو ہرچار سال بعد بذریعہ لیزر لینڈ لیولر ہموار کیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق لیزر لینڈ لیولر سے ہموار کی گئی زمین 50فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے۔ہمیں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، پانی کے ذخائر و انفراسٹرکچر میں اضافہ،پانی کی قیمتوں کا تعین و کاروباری ماڈلز اور پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے۔
آبپاشی کے جدید نظام کو فروغ دینے کے لیے صوبہ پنجاب میں مالی سال 2016-17اور 2018ء کے لیے سوا دو ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی۔اس منصوبے کے تحت ڈرپ اور سپرنکلر نظام آبپاشی پر 60 فیصد سبسڈی، ٹنل کی تنصیب پر 50 فیصد سبسڈی، ڈرپ نظام آبپاشی چلانے کے لئے سولرسسٹم پر 80 فیصد سبسڈی شامل ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق مالی سال 2016-17سے لے کر اب تک 11 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر ڈرپ نظام آبپاشی، 350 ایکڑ سے زائد رقبے پر ٹنل فارمنگ، 1500 ایکڑ سے زائد رقبے پر سولر سسٹم برائے ڈرپ/ سپرنکلر نظام آبپاشی کی تنصیب کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ جبکہ اسی منصوبے کے تحت 20 ہزار ایکڑ رقبے پر ڈرپ نظام آبپاشی چلانے کے لئے سولر سسٹم جبکہ 3 ہزار ایکڑ رقبے پر غیر موسمی سبزیاں اگانے کے لئے ٹنل ٹیکنالوجی کی تنصیب کی جائے گی۔
دیگر صوبوں کو بھی آبپاشی کے جدید طریقوں کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ زراعت کے فرو غ کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کے لیے پانی کی بھی بچت کی جائے۔اس مقصد کے لیے کسانوں کو چاہیے کہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومتِ پنجاب کی طرف سے دی جانے والی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید زرعی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کریں۔