رابعہ شیخ
’’عورت ،،قدرت کی طرف سے انسانیت کو دیا گیا گیا ایک اہم تحفہ ہے جس کا معاشرے میں سماجی،سیاسی ،ثقافتی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار تمام معاشرے تسلیم کرنے لگے ہیں۔اس کا اہم ثبوت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال مارچ کی 8 تاریخ کو’’ خواتین کا عالمی دن،، منایا جانا ہے ۔
عالمی دن کے حوالےسے کرشن چندر کی تحریر کا ایک اہم اقتباس یاد آتا ہے جس میں وہ عورت کی عظمت کو بے حد خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔
’’اے عورت !تو اس جہاں کی سب سے خوبصورت مخلوق ہے ،تیرے لئے بادشاہوں نے تخت چھوڑے ،تیری خاطر جنگیں لڑیں ،تیرے لئے سمندر کی تہہ میں جاکہ موتی لائے ،تیرے لئے شعر لکھے داستانیں بنائیں ،سازبجے ،رقص کیا ۔۔۔حتیٰ کہ تجھے دیوی بناکے پوجا ۔۔۔۔اے عورت تو نے اس دنیا کو خوبصورتی دی ، زندگی دی ،آبادی دی ۔۔۔سب رنگ تیرے لئے ۔۔۔آج سب سنگ تیرے لئے،،
عورت آج ہر جگہ ہے اس کی اہمیت ناگزیر، اس کا وجود لازمی قرار دیا جاچکا ہے حکومت اسے بااختیار بنائے بغیرمعیشت کی ترقی تسلیم نہیں کرتی ، درسگاہوں کا آغاز اس کی گود ،گھر اس بنا قبرستان ،مرد اس کے بنا ادھور،ا حتیٰ کہ کائنات کاحسن اس کے وجود کی تکمیل سے مکمل تصور کیا جاتاہے ۔یہ مثبت تبدیلی کانشان،قوموں کی پہچان ہے اے عورت تجھے سلام ۔تجھے سلام ہے ۔
عورت کی عظمت کے جتنے گن گائے جائیں ،جتنے لفظ اس کے لئے لکھے جائیں وہ اس کے لئے کم ہیں۔لیکن عالمی یوم خواتین کامقصد اس کا آغاز بھی آج خاصا اہم ہے اگر اس دن کے حوالے سے بات کی جائے تو تاریخ کے جھروکوں سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے لئے عالمی دن منانے کا فیصلہ سنہ 1913 میں کیا گیا۔
جب سنہ1908 میںامریکی شہر نیویارک کی گارمنٹس فیکٹری کی 1500عورتیں مختصر اوقاتِ کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کرنے نکلیںاس دن خواتین کے خلاف نہ صرف گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر کوڑے برسائے گئے اور ان میں سے بہت سی عورتوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
سنہ 1909میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکہ بھر میں عورتوں کا دن منایا گیا اور اس کے بعد سنہ انیس سو تیرہ تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو عورتوں کا دن منایا جاتا رہا۔ سنہ 1910میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔
کانفرنس میںجرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں عورتوں کا دن منانے کی تجویز پیش کی۔تجویز پیش کرنے کے بعد سنہ1911 میں19 مارچ کو پہلی بار عورتوں کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سویئٹزر لینڈ میں10 لاکھ سے زائد عورتوں اور مردوں نے اس موقع پر کام، ووٹ، تربیت اور سرکاری عہدوں پر عورتوں کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا۔
لیکن اسی سال 25 مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ’ جسے ٹرائی اینگل فائر کا نام دیا گیا ۔اس ٹرائی اینگل فائر‘ کے نام سے یاد کی جانے والی آگ میں 140 ورکنگ وویمن جل کر ہلاک ہو گئیں۔ جس کے بعد فروری سنہ 1913میں پہلی بار روس میں خواتین نے 8مارچ کوخواتین کا عالمی دن منایا۔
تاہم یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں اس سال کے بعد مارچ کی 8تاریخ خواتین کے عالمی دن سے منسوب کردی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی اسلام اوربانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کے دیئے گئے درس کے تحت خواتین کی برابری تسلیم کی جانے لگی ہے خواتین کو با اختیار بنانے کی راہ میں ہمیں کس طرح مزید اصلاح کی ضرورت ہے اس حوالے سے ہم نے بات کی مختلف شعبوں میں کام کرنے والی پاکستان کی بااختیار خواتین سے۔جن سے کی گئی گفتگو نذرقارئین ہے ۔
شازیہ مری(معروف سیاستدان )
پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نےعالمی یوم خواتین سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ دنیا بھر میں خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی بےشمار خواتین ایسی گزری ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ آج کے دن ان کا ذکرنہ کیا جائے تو اس دن کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔محترمہ فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان سے لے کر نصرت بھٹو ،اور عاصمہ جہانگیر جیسی نمایاں خواتین پاکستانی ہی تھیں جنھوں نےاپنے خاندان سمیت ملک کا نام روشن کیاتاہم آج کے دن خواتین کے ساتھ ان مردوں کی عظمت کا اعتراف بھی ضروری ہے جنہوں نے ان خواتین کو آگے بڑھنے کے لئے سپورٹ کیاانھیں اعتماد دیا کہ وہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں۔ہمیں فخر کرنا چاہیئے قائداعظم پر جنہوںنے محترمہ فاطمہ جناح سمیت دیگر خواتین کو مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کام کرنے کااعتماد دیا ہمیں، فخر کرنا چاہئیےذوالفقار علی بھٹو پر جنھوں نصرت بھٹو اور بینظیر جیسی نامورخواتین شخصیات کو حوصلہ دیا۔مجھے فخر ہے اپنے والد عطامحمد مری پر جنہوںنے مجھے اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ایسے مردوں کا پاکستان کی تاریخ میں مثالی کردار ہے اور ہمیشہ رہے گا‘‘
عظمیٰ الکریم(سربراہ انسداد جنسی ہراس کمیٹی جیو ’اینکر،میزبان پروگرام)
میرا ماننا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے چند تنظیموں یا فاؤنڈیشن کو نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا،۔گھر میں تربیت سے لیکر کام کرنے کی جگہ کے ماحول تک ہمیں خواتین کیلئے سازگار ماحول قائم کرنا ہوگا۔اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں توسیاسی ایوانوں سے لیکر قوانین کی پاسداری تک ہمیں ہر جگہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔کیونکہ با اختیار اور با شعور خواتین ترقی یافتہ معاشرے کی ضامن ہوتی ہیں۔
مہنازرحمٰن(ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن )
ملک کی ترقی عورتوں کی بااختیاری سے ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ عورتوں کی معیشت میں شمولیت ترقی کی کنجی ہے تو غلط نہ ہوگا ہمیں معیشت میں عورتوں کو شامل کرنا ہوگا جبھی پاکستان معاشیطور پر مزید ترقی کرسکے گا۔
رابعہ انعم(اینکر جیو نیوز )
جیو نیوز کی معروف اینکر اور عوام میں اپنی صلاحیتوں سے مقبول رابعہ انعم خواتین کی بااختیاری ان کی تعلیم سےمنسلک کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کےلئے ضروری ہے کہ خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ کیاجائے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جتنی تعلیم مردوں کیلئے ضروری ہے اُتنی ہی خواتین کیلئے بھی ۔بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے جان بوجھ کر دور رکھا جاتا ہے حالانکہ صرف ایک تعلیم یافتہ خاتون پوری نسل کو تعلیم کے ذریعے باشعور بنا سکتی ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ خواتین یکجا ہوکر اپنے اِس بنیادی حقوق کیلئے آواز اُٹھائیں۔ باشعور اور تعلیم یافتہ خاتون ہی مکمل با اختیار بن کر ملک و قوم کی بہترین خدمت کرسکتی ہیں۔
علینہ فاروق شیخ(اینکر جیو نیوز)
ملک کی ترقی اور خوشحالی خواتین کو عملی زندگی میں بھر پور شرکت کے مواقع فراہم کرنے سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں بے شمار با ہمت اور محنتی خواتین موجود ہیں لیکن مردوں کے اس معاشرے میں اُنہیں آگے بڑھنے کے آسان مواقع میسر نہیں ، اگر حکومتی سرپرستی ہو تو پاکستان کی ہونہار خواتین بھی اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہیں۔لہٰذا پاکستانی خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے اُنہیں زندگی کے ہر شعبے میں یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ابصا کومل (اینکر جیو نیوز)
دی نیوز کے خصوصی شمارےwomen Power 50کی کیٹگری میڈیا ٹاپ5 پر منتخب کی گئی جیو نیوز کی معروف اینکرابصا کومل خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دُنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جہاں خواتین کو برابری کی سطح پر کام کرنے کے مواقع دیئے گئے تو اس معاشرے میں انقلاب برپا ہوا۔ ساری دُنیا میں خواتین کی خدمات کا کھل کر اعتراف کیا جاتا ہے۔ صحت، تجارت، معیشت، سیاست ہر میدان میں خاتون آگے آگے ہیں لہٰذا پاکستان میں خواتین کو مزید با اختیار بنانے کیلئے زندگی کے ہر شعبے میں اُن کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
فرح ناز (اینکر،لکھاری ،ماہر تعلیم ،کالم ؍تبصرہ نگار،شیف)
بے شمار صلاحیتوں سے مالامال کالم نگار فرح ناز کہتی ہیں کہ خواتین کو اُن کا جائز مقام اور حق دیکر اُنہیں با اختیار بنایا جاسکتا ہے، ہمیں خواتین کو ہر شعبے میں اُن کی صلاحیتوں کے اعتبار سے انکا حصہ دینا ہوگا۔
انیبہ ضمیر شاہ (رپورٹر جیو ٹی وی)
جب ہم وویمن امپاورمنٹ کی بات کرتے ہیں تو وورکنگ وویمن کے لئے سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہےشادی کے بعد جاب کو جاری رکھنا کیونکہ ہمارے پاس بہت سے کم آرگنائزیشن ہیں جہاں ڈے کیئر دیا جاتا ہو جس کے باعث خواتین کے لئے جاب کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔و اگر ہم خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں عورت کو وہ تمام سہولتیں دینی ہوں گی جو اس کی ضرورت ہے جن میں سے ایک کام کی جگہوں پرڈے کیئر کا ہو ناہے دوسری بات یہ کہ ہمیں وومینجمنٹ جیسی اہم پوزیشن پر مرد وں کی طرح عورتوں کو بھی منتخب کرنا ہوگا ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ خواتین اچھی فیصلہ ساز بھی ہیں۔
حفظہ چوہدری(اینکر جیو نیوز)
اگر حکومت خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے مخلص ہے تو تعلیم، روزگار، جائیداد میں وراثت، قرضوں کی سہولت، انصاف تک رسائی ، سیاست و حکومت اور قومی و نجی زندگی کے تمام شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے اور خواتین کی ترقی کیلئے کوششیں مزید تیز کرے۔