اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں، تو پرانی کتابوں کی تلاش میں ضرور رہتے ہوں گے ، کتب میلوں میں بھی جاتے ہوں گے، مگر ان کے علاوہ کچھ اور جگہیں بھی ہیں ،جہاں اچھی کتابیں دست یاب ہوتی ہیں، مثلاً اگر آپ کراچی کے قومی عجائب گھر یا میوزیم کادورہ کریں،تو آپ کو خوش گوار حیرت ہو گی،محکمہ ثقافت کے ایک پروجیکٹ کے تحت کمال کی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔
اس پروجیکٹ کے سربراہ سندھ کے معروف دانش ور اور صحافی مدد علی سندھی ہیں۔حال ہی میں انہوں نے تقریباً درجن بھر نایاب کتابیں شائع کیں، جو بہت عرصے سےمیسر نہیں تھیں ،پہلی کتاب کا نام ہے ’’انڈس اور اس کے صوبے ‘‘ جو ولیم پیٹرک اینڈرو کی تحریک ہے۔ اینڈرو انیسویں صدی کے وسط میں سندھ آئے اور یہاں کے مشاہدات تحریر کیے۔ وہ سندھ اور پنجاب ریلوے کے سربراہ تھے اور ہندوستان میں ریل کے فروغ کے بڑے وکیل تھے۔
1843میں سندھ کی فتح کے بعد اینڈرو نے سندھ کے طول و عرض میں سفر کیا اور بری و دریائی سفر کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ۔’’انڈس اور اس کے صوبے ‘‘ نامی کتاب اس ہی رپورٹ پر مبنی ہے ،جسے پہلے رپورٹ اور بعد میں کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اینڈرو کو 1853میں اس کام پر لگایا گیا ،کہ وہ تاج برطانیہ کی توسیع کے لیےنقل و حمل کے ذرائع قائم کریں، انہوں نے پورے خطے کے تقریباً تمام قدیم و جدید راستوں کا دورہ کیا اور بری اور دریائی سفر کے نقشے بنائے۔
اینڈرو ہی کی تجاویز پر نہ صرف ریل بلکہ ٹیلی گراف کے بھی نظام تشکیل دیئے گئے ،بولان اور خیبر پاس تک لائنیں بچھائی گئیں۔ اس کتاب میں کراچی پر بھی معلوماتی ابواب درج ہیں۔
رچرڈ فرانسز برٹن (Richard Francis Burton) بھی انیسویں صدی کے وسط میں سندھ آئے تھے۔ برٹن کا اصل موضوع زبان و ادب کے علاوہ لوگوں کی عادات و اطوار کا مطالعہ بھی تھا۔ برٹن کی نظر لوگوں کی حرکتوں اور ان کے کان لوگوں کی باتوں پر لگے رہتے تھے۔
وہ کئی زبانوں کے ماہر اور عربی کی کلاسک ’’الف لیلہ ‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کر چکے تھے ، انہوں نے چالیس سے زیادہ کتابیں تحریر کیں ، جن میں سےتقریباً دو درجن سے زیادہ کتابیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں۔برٹن کی کتاب ’’سندھ ایک ناخوش وادی‘‘ دو جلدوں میں پہلی مرتبہ 1851میں شائع ہوئی۔
اس حیرت انگیز کتاب میں انہوں نے ہندوستان میں اپنے سفر نامےتحریر کئے ،خاص طور پر ممبئی، کراچی، ٹھٹھہ، بھنبھور، جھرک، حیدر آباد،سکھر ،شکار پور، اور دریائے سندھ کے بارے میں ان کے تاثرات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اپنی تحریروں میں وہ سندھ کے باشندوں کا تجزیہ بھی کرتے جاتے ہیں اور ان کے طرز زندگی پر رائے بھی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں کل اٹھائیس ابواب ہیں جن میں وادی سندھ کی بہترین جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
خاص طور پر گیارہواں باب ،جو کوٹری کے بارے میں ہے اور چودہواں باب ،جس میںسندھی خواتین کا ذکر ہے، انتہائی دل چسپ ہیں۔جب تقریباً دو عشروں بعد برٹن سندھ میں واپس آئے اور کچھ پرانی جگہوں کے ساتھ نئے مقامات پر بھی گئے۔
ان کے از نئے مشاہدوں پر مبنی کتاب 1871میں شائع ہوئی جس کا نام ’’سندھ کا دوسرا دورہ ‘‘ ہے،یہ کتاب پہلی کتاب سے زیادہ ضخیم اور تفصیلی ہے ،جس میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحات ہیں۔
تیس سے زیادہ ابواب پر مشتمل اس کتاب میںانیسویں صدی کے سندھ سے متعلق ہر بات کو درج کیا گیا ہے، جو دور حاضر میں ایک خزانے کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا تیسراباب کراچی کے بارے میں ہے ، اس میں اینگلو انڈین فوج کا بھی ذکر کیاگیاہے ،اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔
اسی دوران ایک اور مفکر ایڈورڈ ارچر لینگ لی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ’’میر مراد علی کے دربار میں مقیم ایک سفیر کا بیان ‘‘ ہے،لینگ لی خیرپورمیں ایک سیاسی ایجنٹ تھے، جن کا عہدہ میجر کے برابر تھا ،جب کہ میرمراد علی ریاست خیرپور کےدوسرے حکمران تھے جو 1842 سے 1894 تک اقتدار میں رہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان پر فراڈ اور دھوکہ دہی کے الزامات لگا کر ان کے اقتدار کو بہت محدود کردیا تھا اور انہیں صرف شمالی سندھ کی کچھ اراضی پر ہی اقتدار حاصل تھا، جن میں خیرپور اور اس کے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے، جس کی ہر جلد تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔
پہلی جلد کے پہلے باب میں میرعلی مراد کے اس سفر کی دل چسپ داستان ہے، جس میں وہ اٹلی میں میں پھنس گئے تھے، ان کے پاس رقم بھی ختم ہو گئی تھی،اور ان کے ملازموں میں سے کسی کو اطالوی زبان بھی نہیں آتی تھی،پھر اس کتاب کے مصنف یعنی لینگ لی کو انگلستان سے اٹلی بھیجا گیا کہ وہ میرصاحب کو ان کی مشکلات سے نکال کر، واپس سندھ لے کر آئیں۔
اس تفصیل کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انگریز کس طرح مقامی حکمرانوں کا خیال کرتے تھے ،بشرط کہ وہ تاج برطانیہ کے وفادار ہوں۔اس کتاب کی پہلی جلد میں انگلستان سے اٹلی اور پھر ہندوستان تک سفر کی تفصیل ہے جس میں براستہ بحر احمر اور عدن سے ہوتے ہوئے حیدرآباد ،شکار پور اور خیرپور تک سفر کے مشاہدے ہوئے۔دوسری جلد میں زیادہ گفتگو سندھ کے سماجی و معاشی حالات پر کی گئی ہے۔
اگلی کتاب الیگزنڈر شینڈکی ہے ،جس کا عرصہ حیات 1832سے1907تک کا ہے،انہوں نے جنرل جان جیکب کے بارے میں ، جو کتاب لکھی تھی، وہ 1900 میں شائع ہوئی۔
اس کتاب کا عنوان ہے ’’ جنرل جان جیکب ،کمانڈر اور جیکب آباد کے بانی‘‘ یہ بھی ایک نایاب کتاب تھی ،گوکہ جان جیکب صرف چھیالیس سال زندہ رہے انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً تین عشرے ہندوستان میں گزارے۔
یہ کتاب جان جیکب کی زندگی کا احاطہ بیس ابواب میں کرتی ہے۔آخر میں مزید دوکتابوں کاذکر ضروری ہے جن کے عنوان ہیں ’’وادی سندھ کی قبل از تاریخ تہذیب ‘‘ جو کے این ڈکشٹ نے لکھی اور دوسری کا عنوان ہے ’’سندھ مغلوں کے دور میں ‘‘ ہے۔