گو کہ یہ کوئی انوکھا اور دل چسپ واقعہ تو نہیں، تاہم ہم جیسے سفید پوش گھرانوں کے لیے ناقابلِ فراموش کے زمرے میں ضرور آتا ہے۔ میرے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد گلستانِ جوہر میں نیا گھرخریدا تو، وہاں شفٹ ہونے کے بعد ہم نے اپنے اڑوس پڑوس کے گھرانوں سے مراسم پیدا کرنے کا سوچا۔
اردگرد کا ماحول صاف ستھرا اورعلاقہ پررونق تھا، محلّے کے مکانات بھی مکینوں کی خوش حالی کا مظہر تھے، مگر جب ہم نے آس پڑوس کے لوگوں سے میل جول بڑھانےکی کوشش کی، تو احساس ہوا کہ اہلِ محلّہ کسی سے میل ملاپ رکھنا ہی نہیں چاہتے، سب ایک دوسرے سے لاتعلق اور اپنے اپنے معمولات میں مگن دکھائی دیتے تھے۔
میری ساس امّاں ایک نجی اسکول میں ٹیچر تھیں، انہوں نے بھی اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر پڑوسیوں سے میل جول کی کوشش کی، مگر ان کے حوصلہ شکن رویّوں سے مایوس ہوکر راہ و رسم بڑھانے کی کوششیں ترک کردیں۔ وہ اتنے انوکھے پڑوسی تھے کہ سلام دعا تک رکھنے میں بھی دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔
اُس روز مجھے صبح اٹھنے میں کچھ دیر ہوگئی تھی، جس کے باعث تلاوت نہ کرسکی۔ ماں جی کے ساتھ مل کر بچّوں اور شوہر کو جلدی جلدی ناشتا کرواکر گھر سے روانہ کیا۔ پھر میری ساس امّاں بھی اسکول چلی گئیں، تو میں گھر کی صفائی ستھرائی اور دیگر گھریلو کام نمٹاکر اپنے کمرے میں قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گئی۔ ابّا (سسر) گھر ہی پر تھے۔ وہ روز میری بیٹی فاطمہ کو بارہ بجے اسکول سے لانے کے لیے جایا کرتے تھے۔
اس روز صبح وہ پودوں کو پانی دینا بھول گئے تھے، اس لیے جلدی جلدی پودوں کو پانی دینے لگے کہ مبادا فاطمہ کو لانے میں دیر نہ ہوجائے۔ اسی وقت مجھے کسی اجنبی مرد کی نامانوس آواز سنائی دی۔ دیکھا، تو صحن میں ایک شخص ابّا سے بات کررہا تھا، میں نے آگے بڑھ کر دروازے کا پردہ برابر کردیا۔ چوں کہ ہمارا ریفریجریٹر کئی روز سے خراب تھا، تو میں یہ سمجھی کہ اسے ٹھیک کرنے کوئی میکینک آیا ہوگا۔
ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک کمرے کے دروازے کا پردہ ہٹا اور ایک اجنبی شخص نے جھانکتے ہوئے حکمیہ لہجے میں کہا، ’’باجی باہر آجائو۔‘‘ مجھے اس کے انداز سے جھنجھلاہٹ ہوئی، جلدی سے چادر اٹھاکر منہ ڈھانپا اور دل میں خیال آیا کہ اگر ابّا جی (سسر) کو مجھےبلانا ہوتا، تو وہ خود آتے، اس غیر مرد کو کیوں اندر آنے دیا۔
بہرحال، میں نے قرآن شریف سینے سے لگایا اور لائونج میں آئی، تو وہاں کا نقشہ دیکھ کر میرے پائوں پھول گئے، ابّا پریشان حال ایک کرسی پر بیٹھےتھے اور دو آدمی ان کے دائیں بائیں کھڑے تھے اور مجھے آواز دے کر بلانے والا تیسرا شخص، پستول تان کر میرے سامنے کھڑا ہوگیا۔
اس صورتِ حال نے اچھی طرح واضح کردیا تھاکہ ہم ڈاکوئوں کے نرغے میں آگئے ہیں۔ ان میں سے ایک کہنے لگا ’’بڈھے! تیری بہو بھی آگئی ہے، اب اس سے کہہ دے کہ چپ کرکے جو زیور، پیسا ہے، نکال کر میز پر لاکر رکھ دے، کوئی ایسی ویسی حرکت کی، تو انجام برا ہوگا۔ آپ عزّت دار لوگ ہو، مگر ہم اس وقت تک آپ کی عزت کریں گے، جب تک آپ ہم سے چپ چاپ تعاون کروگے۔‘‘
وہ ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس ان کے حکم پر عمل کے سواکوئی اور چارہ نہیں تھا، وہ ہم دونوں کو کمرے میں لے آئے۔ کچھ رقم اور جیولری میری الماری میں موجود تھی، وہ میں نے نکال کر مسہری پر رکھ دی اور گھبرائے لہجے میں کہا کہ ’’میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘ اس نے مجھے ایک جگہ بیٹھنے کو کہا اور خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ پورے گھر کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ ظالموں نے ابّا کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم کے علاوہ عیدالاضحیٰ میں قربانی کے لیے رکھی ہوئی رقم اور ساس امّاں کی جیولری وغیرہ سب کچھ جلدی جلدی اپنے بیگ میں بھرلیے۔
پھر وہ فرار ہونے کے لیے پَر تول ہی رہے تھے کہ میری بیٹی فاطمہ آگئی، اس نے کال بیل بجائی، تو ڈاکوئوں نے ابّا کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ ابّا اٹھ کر دروازے پر گئے اور فاطمہ کو اندر لے آئے۔ میرے چہرے پر حجاب اور تین اجنبی مردوں کو دیکھ کر وہ گھبراگئی اور دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ ایک ڈاکو نے ڈھٹائی سے کہا ’’باجی!آپ عزت دار لوگ ہیں، اس لیے ہم یہاں سے کچھ لے کر نہیںجارہے۔‘‘ حالاں کہ وہ سب کچھ لُوٹ کر جارہے تھے، پھر بھی بکواس کررہے تھے۔
پھر وہ تینوں نہایت عجلت میں گھر سے نکل گئے۔ ابّا کا صدمے کے مارے بُرا حال ہورہا تھا، ساس امّاں بھی تھوڑی دیر بعد اسکول سے آگئیں، ان پر بھی سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پھر میں نے فون پر اپنے شوہر کو اس سانحے کی اطلاع دی، تو وہ فوراً گھر آگئے۔
واردات کی خبر محلّے میں پھیلتے ہی ہمارے گھر میں لوگوں کا رش لگ گیا۔ جنہوں نے کبھی سیدھے منہ سلام کا جواب تک نہیں دیا تھا، وہ بھی افسوس کرنے چلے آئے تھے۔ان کے آنے کے بعد بھید کھلا کہ یہ سب ایک دوسرے سے کیوں خفا تھے۔
ان کی آپس کی گفتگو سے یہ عقدہ کھلا کہ اس علاقے میں سب ہی ڈاکوئوں کے ڈسے ہوئے ہیں ،تقریباً ان سب ہی کے گھروں میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوچکی ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس دوران کوئی کسی کی مدد کو نہیں آیا، پولیس تھانوں کے چکّر بھی وہ اپنے اپنے طور پر لگاتے رہے۔
یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں تھی، گزشتہ تین برسوں سے ڈاکو متواتر اس علاقے میں دندناتے پھر رہے تھے، کئی گھرانے ایسے بھی تھے جن کا مال لوٹنے کے ساتھ گھر کی بہو، بیٹیوں کے سر سے ردائیں بھی چھینی گئیں۔ آئے روز لوٹ مار کی ان وارداتوں کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے لگے تھے، خفا تھے اور پریشان بھی۔ تاہم، آپس میں مل بیٹھ کر اس مصیبت کا حل نکالنے کی کسی نے کوشش نہیں کی تھی۔
ابّا، عمر بھر کی کمائی کے لُٹ جانے پر بے حد رنجیدہ تھے۔ لہٰذا انہوں نے چند روز بعداہلِ محلّہ کو بلاکرگھر میں ایک میٹنگ کی اور اس مسئلے کے حل کے لیے لوگوں سے آرا طلب کیں۔ لوگ بھرے بیٹھے تھے، سب نے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اپنے اپنے دلوں کی خوب بھڑاس نکالی، مگر ٹھوس حل کسی کے پاس نہیں تھا۔ ابّا نے مشورہ دیا کہ ’’سب مل کر تھانے چلتے ہیں اور اپنی اپنی شکایات اور واردات کی ایف آئی آر کٹواتے ہیں۔‘‘اس مشورے پر سب مزید بھڑک اٹھے اوربتایا کہ سب ہی متاثرین یہ کوششیں کرچکے ہیں۔
ایف آئی آرز کٹوانے کے لیے بھاری رشوتیں مانگی جاتی ہیں، گھر کی عورتوں کو تھانے بلواکر انہیں پریشان کیا جاتا ہے، حاصل کچھ نہیں ہو تا، لہٰذا عزت اسی میں ہے کہ بے حسی اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ میٹنگ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہونے والی تھی کہ ایک متموّل گھرانے کے شخص نے بڑی نخوت سے کہا ’’ہم نے تو اپنے گھر پر گارڈ رکھا ہوا ہے، آپ سب بھی ایسا ہی کریں۔‘‘یہ کہہ کر وہ میٹنگ کے آداب کو بالائےطاق رکھتے ہوئے شان ِ بے نیازی سے اٹھے اورکمرے سے نکل گئے۔
سب خاموش ہوگئے، وہ صاحب بہت بڑے گھر اور گاڑی کے مالک تھے۔ سب ان کی دولت سے مرعوب تھے۔ ایک ماہ بعد ان کے دو بیٹوں کی شادی تھی۔ شادیوں کی تقاریب کےبہت دھوم دھڑکے ہورہے تھے، ہفتوں فنکشنز ہوتے رہے، غرض یہ کہ انہوں نے محلے والوں پر اپنی امارت کا دِل بھر کےاظہار کیااور اہلِ محلّہ کا راتوں کا سکون دوبھر کیے رکھا، اللہ اللہ کرکے ولیمے کی تقریب کے بعد کچھ سکون ہوا، مگر یہ بھی عارضی ثابت ہوا۔
ولیمے کے چوتھے روز صبح سویرے ان کے گھر سے شوروغل کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔ پتا چلا کہ فجر سے پہلے، ڈاکو گھر میں گھس گئے تھے، لیکن کیسے گھسے اور کیسے گئے،بے چارے گھر والوں کو کچھ پتا نہ چل سکا۔ ڈاکو،سب گھر والوں کو ایک کمرے میں بند کرکے نو بیاہتا بہوئوں کے زیورات، جہیز کے قیمتی سامان سمیت گھر میں رکھاکیش لُوٹ کر فرار ہوگئے۔
ڈاکوئوںنے اس متموّل شخص کے گھر کا مکمل صفایاکردیا تھا،ان کا گارڈ ر کھنا بھی کام نہ آیا۔ واردات کی تھانےمیں رپورٹ درج کروائی گئی، تو حسب ِ روایت کوئی نتیجہ بھی برآمد نہ ہوا۔جب محافظ ہی لُٹیرے بن جائیں، تو عوام بے چارے کہاں جائیں، ہم متاثرین توصرف ماتم ہی کرسکتے ہیں اور یہی کررہے ہیں۔
(افشاں ناز،کراچی)