ریحان جبار یوسفانی
مشہور ضرب المثل ہے، ’’شادی وہ لڈو ہے،جو کھائے، وہ بھی پچھتائے،جو نہ کھائے ،وہ بھی پچھتائے‘‘، مگر یار دوست کہتے ہیں، ’’کچھ نہ کھا کر مَرنے سے بہتر ،کچھ کھا کر مَرجانا ہے۔کم از کم پچھتاوا تو نہیں ہوگا۔‘‘ بہرکیف، بات اپنے اپنے نظریے کی ہے۔وگر نہ، اندر کا حال تو خدا جانے یا بندۂ خدا۔ ویسے بھی، آج کل آزادیٔ اظہارِ رائے کا دور دورہ ہے، تو ہر کسی کو اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے۔ یہ اور بات کہ مؤخر الذکر گروہ کے اپنے ہی نظریے پہ عمل درآمدکے نتیجے میں’’آزادی‘‘ نام کی چڑیا، ان کے گھونسلے سے’’پُھر‘‘ ہوجاتی ہے۔
یوں شادی کے بعد مَرتے دَم تک بے چارے ’’شادی ٔمرگ‘‘ کی سی کیفیت میں سانسوں کا ریوڑ ہانکتے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی والے دِن داماد کو گھڑی دینے کا رواج ہے۔ شاید اس لیے کہ شوہر خود پہ آنے والے ’’بُرے وقت‘‘ کو کسی صُورت بھول نہ پائے۔ تاہم، سیانے کہتے ہیں، ’’بیوی اور گھڑی میں کچھ خاص فرق نہیں کہ دونوں کا کام ٹِک ٹِک کرنا ہے۔ بس، ایک کلائی پہ کرتی ہے، تو دوسری شوہر کی کمائی پہ۔ اگر کسی کی کمائی میں باوجود کوشش، اضافہ نہ ہورہاہو، تو بڑے بوڑھے عموماًاُسے شادی کا مشورہ دیتے ہیں، لیکن موجودہ دَور میں بیوی آنے سے کمائی بڑھنے کے ساتھ ’’کھنچائی‘‘ کے دروازے بھی کُھل سکتے ہیں۔
مزید برآں بیوی اگر’’چاہ‘‘ سے لائی گئی ہو، تو ’’دھلائی‘‘کی لکیر ہاتھوں میں امڈ آنے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے، جو تادَمِ مرگ مٹنے کا نام نہ لے گی۔ ایسا ہی ایک مظلوم میراثی شوہر کسی شادی میں زور زور سے ڈھول بجارہا تھا، جس کے دونوں طرف دو الگ الگ خواتین کی تصاویر چسپاں تھیں۔ کسی بزرگ نے پوچھا، ’’ارےمیاں! یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘میراثی جھٹ بولا، ’’بڑے میاں! ایک تصویر بیگم کی ہے، تو دوسری ساس کی۔ گھر پہ تو ہر روز ہم ہی پٹتے ہیں، اس لیے یہاں موقع غنیمت جانتے ہوئے، بس، دے دھنا دھن۔‘‘
کہتے ہیں دو میٹھے بول کسی کی زندگی بدل سکتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ’’قبولیتِ زوجین‘‘کے فوراً بعد ہوجاتا ہے کہ کم از کم درجن بَھر لوگوں کی زندگیوں میں تو ’’انقلاب‘‘ آ ہی جاتا ہے۔ آپس کی بات ہے کہ سب سے زیادہ فائدہ سُسرال والوں ہی کا ہوتا ہے کہ اپنی’’بَلا‘‘ کسی بھلے مانس کے سَر لگا کر خود سکون کا سانس لیتے ہیں۔ رہی بات بڑے بھائی، بہنوں کے بات بے بات بھنگڑے ڈالنے کی،تو دراصل، یہ خود پہ بیتی کو چھوٹے پہ بیتتا دیکھ کر باور کروارہے ہوتے ہیں کہ ’’کیوں میاں! اب پتا چلا؟‘‘۔
اس سَمے نئی نویلی دلہن، مگر مچھ کے آنسو بہاتے مَن ہی مَن میں’’بادشاہت‘‘ ملنے پر شادیانے بجا رہی ہوتی ہے۔ رہ گیا شوہر، تو وہ بےچارہ مستقبل قریب میں آنے والے ’’بھونچال‘‘ سے بے خبر، مَنوں میک اپ تلے دبی اس مصنوعی’’پَری چہرہ‘‘کودیکھ کر سرشار ہورہا ہوتا ہے،لیکن یہ خوشی بھی جلد کافور ہوجاتی ہے کہ مُنہ دھلنے کے بعد تاعُمر کوہ قاف کی’’مخلوق‘‘ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ویسے ہم نے سُنا ہے کہ بیوی اور ٹی وی میں کئی باتیں مشترک ہیں،بس، فرق صرف یہ ہے کہ ٹی وی اپنی مرضی سے بند کرسکتے ہیں، مگر بیوی اگر ایک بار بولنا شروع ہوجائے، تو پھر کوئی انہونی ہی اُسے چُپ کروا سکتی ہے۔
تاہم، ریسرچ سے پتا چلاکہ سُسرالیوں کی طرف سے بیوی کے ساتھ ٹی وی مفت نہیں، بلکہ بیوی کے ’’متبادل‘‘ کے طور پر تھمادیا جاتا ہے، تاکہ جب بیوی کچھ دیر’’تخلیہ‘‘ کرے، تو ٹی وی بقیہ فرض ادا کرتا رہے۔
ایک اور مثبت چیز ٹی وی کی یہ ہے کہ ایک سال وارنٹی میں آتا اور بعد ازاں تبدیل بھی ہوسکتا ہے، مگر بیوی کے مینیوئل کارڈ میں ایسی کسی سہولت کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اورہاں،اگر آپ نے ایسی کوئی پُرخطر مہم جوئی کرنے کی کوشش کی، توحالات کی تمام تر ذمّے داری بھی خود ہی بھگتنا ہوگی۔
بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ ’’بزرگوار! صورتِ حال ذرا واضح کردیجیے کہ کیا بیوی چار پہیوں کے برابر اور شوہر صرف ’’اسپیئر ٹائر‘‘ کہلائے گا، جو بوقتِ ضرورت ڈنگ ٹپائو کے کام آتا ہے، ورنہ تو اُسے سارا سفر چار ٹائروں کے سائے تلے ہی گزارنا ہوگا۔ابھی پچھلے دِنوں کی بات ہے، ہم ایک پُرانا گانا سُن رہے تھے،جس کے بول کچھ یوں تھے،’’ یوں ہی کٹ جائے گا سفر ساتھ چلنے سے‘‘۔ہمارے خیال میں یہاں شاعر نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، ورنہ تجربہ بتاتا ہے کہ’’یوں ہی کٹ جائے گا ،سفر مار سہنے سے‘‘ کیوں کہ سُکون بَھری زندگی کا راز بنگال کے جنگلوں میں چلّہ کشی نہیں، بلکہ بلاچون و چرا بیوی کی سُنتےرہنے میں ہے۔
ایک بڑے دبنگ آفیسر سے کسی بے تکلّف نے ان کی کام یاب ازدواجی زندگی کا راز پوچھا، تو بولے، ’’ہم نے خوش گوار زندگی گزارنے کے دو ہی اصول طے کر رکھے ہیں۔ کبھی مَیں بیگم صاحبہ کی بات بہ رضا و خوشی مان لیتا ہوں، تو کبھی وہ اپنے زور ِ بازو سے بات منوالیتی ہیں۔‘‘ اگرچہ ماں کے قدموں تلے جنّت ہے، مگر بیوی کے پیروں تلے اونچی ہیل ہوتی ہے۔
اس لیے عقل مند شوہر دنیا ہی کو جنّت بنانے کی غرض سے بیوی کی قدم بوسی کرتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ بڑے یہ بھی کہہ گئے کہ’’ ایک چُپ،سو سُکھ۔‘‘ مگر وہ بیوی ہی کیا، جو بات کا بتنگڑ نہ بنائے۔ خواہ شوہر بےچارے سَر ہلا ہلا کر اپنی محکومی کا اعتراف ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔ اتنی تگ و دود کے بعد جنّت پھر بھی انہیں بعد از مرگ ہی ملتی ہے۔ شاید آخری سانس تک’’گھریلو ظلم‘‘ سہنے کے بدلے۔
ویسے بھی بیوی سے پنگا لینا جان جوکھوں کا کام ہے۔ بالفرض آپ ایک آدھ’’وار‘‘ کر بھی جاتے ہیں، تو بھی بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کہ مشہور ضرب المثل ہے’’ سو سنار کی، ایک لوہار کی۔‘‘ پر یہاں تو حال یہ ہے کہ لوہار کے سارے اوزار ایک طرف اور بیوی کی زبان کا وار ایک طرف۔
دیکھا جائے تو شوہر اگر بیوی سے ڈرتا ہے، تو بیوی چھپکلی سے، لہٰذا جنگی حکمتِ عملی کے تحت شوہر کو چھپکلی سے برادرانہ تعلقات استوار کرلینے چاہئیں۔ اس قول کے مصداق کہ’’دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے۔‘‘ یہ اور بات کہ خود چھپکلی کی سانس ’’بیگم صاحبہ ‘‘ کو دیکھ کر وہیں رُک جاتی ہوگی۔
ایسی ہی کسی ہیبت ناک بیگم کے ستائے شوہر نے رات کو آنکھ کھلنے پہ ایک خوف ناک ناگن کو بیوی کے پیروں پہ پَھن پھیلائے پایا، تو بولا’’ڈس لے، ڈس لے۔‘‘ ناگن جھٹ بولی، ’’ بے وقوف! کوئی اپنے مرشد کو بھی مارتا ہے؟ مَیں تو ان کے چرن چُھونے آئی ہوں۔‘‘کہنے کو تو کچھ بیویاں بلی اور چوہوں سے بھی ڈرتی ہیں، البتہ شوہر نامی مخلوق سے ان کا ڈرنا تاریخ سے ثابت نہیں ہوسکا۔
الٹا شوہر لوگ بیوی کے سامنے بھیگی بلی بنے پھرتے ہیں۔ اگر کسی بیوی کو آپ اپنے مجازی خدا سے ڈرتے ہوئے اتفاقاً دیکھ بھی لیں، تو نظر انداز کرتے ہوئے یہ نسخۂ کیمیا کبھی گھر پہ مت آزمایئے گا کہ’’ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔‘‘ ایک جاننے والا، لاکھ سمجھانے کے باوجود جب بیوی کو قابو کرنے کا کوئی تعویذ لینے شہر کے مشہوربابے کے پاس پہنچا، تو بزرگ قریباً روتے ہوئے بولے، ’’بیٹا! اگر بیوی پہ قابو پانے کا کوئی منّتر ہوتا، تو مَیں’’بابا‘‘ کیوں بنتا۔‘‘ویسے تو ایک عورت دِل میں بڑے ارمان سجائے مہمان کی طرح پیا گھر سدھارتی ہے، مگر بیوی کے مکمل اختیارات مل جانے کے بعد سلطان بن کے پیاکے ارمانوں کا دیا بُجھانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
بہرکیف، سیانے پھر بھی کہہ گئے ہیں کہ’’کل کرے، سو آج کر۔ آج کرے، سو ابھی۔‘‘ لہٰذا خلوصِ دِل سے بیوی کی خدمت چاکری میں لگے رہیے، تاکہ ہر دِن آپ کا عید اور ہر رات آپ کی شبِ برأت بن جائے۔
نوٹ:درج بالا باغیانہ خیالات صرف تفریحِ طبع کے لیے ہیں۔ بخدا ہمارا ان باتوں سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں۔