افغانستان میں چھپے دہشت گرد تشدد ترک کر دیں، حکومت انہیں معافی دے گی۔ پاکستان نے دہشت گردی کو شکست دی ہے اور ان دہشت گردوں کو بھی معاف کریں گے اگر وہ ہتھیار چھوڑ دیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کرنے کا عہد کریں۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لنڈی کوتل کے دورہ میں قبائلی عمائدین سے ملاقات میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ اعلان اس لئے اہم ہے کہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پندرہ سال کا عرصہ ہو چکا ہے اس دوران کئی فوجی آپریشنز کے ذریعے امن کو یقینی بنایا گیا۔ آپریشن ضرب عضب نے عسکریت پسندی کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا اور جنرل باجوہ کے آنے کے بعد آپریشن رد الفساد کے ذریعے باقی ماندہ دہشت گردی کو بھی ختم کر دیا۔ موجودہ صورتحال میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ جن میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ باقی ماندہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے کیا سلوک کیا جائے؟اس معاملے پر اہل دانش کی رائے منقسم ہے کہ کیا دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو ریاستی معافی ملنی چاہیے یا نہیں؟ اس کی مخالفت میں دلیل دی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی افواج اور عوام کو نشانہ بنایا اس لئے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے، دوسری جانب رائے یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے باقی ماندہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو نیوٹرل کرنے کے بعد قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ موجودہ ریاستی حکمت عملی دوسری رائے کو اہمیت دیتی نظر آتی ہے۔ جنرل قمر باجوہ ڈاکٹرائن کے مطابق وہ عسکریت پسند گروہوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کرکے مرکزی دھارے میں لانا چاہتے ہیں جیسا کہ آئرلینڈ نے اس طرح کے مسئلے کا حل نکالا۔ پاکستان میں اس مسئلے کا تعلق چار طرح کے عسکریت پسند گروہوں سے ہے۔ اِن میں مذہبی انتہا پسند طالبان، بلوچ علیحدگی پسند، کراچی کے لسانی عسکریت پسند اور سندھی علیحدگی پسند شامل ہیں (کالعدم جماعۃ الدعوۃ کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ انہوں نے ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا)۔ ان سب گروہوں کو ریاست کے ساتھ چلنے پر رضامند کرنے پر کام جاری ہے، گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کی چند مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں اور جن کی بنیاد پر اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ممکنہ طور پر ان گروہوں سے بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
بلوچستان میں مذاکرات اور معافی کے ذریعے عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس لایا جا رہا ہے، سب سے پہلے یہی منصوبہ شروع کیا گیا تھا اور سینکڑوں بلوچ فراری اس اسکیم سے مستفید ہوئے۔ حال ہی میں بلوچستان کے مشہور مزاحمتی لیڈر ہزار خان مری کے بیٹے جمعہ خان مری نے بھی بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے دستبرداری کا اعلان کیا اور وفاق پاکستان کی حمایت کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے ہی بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے آزاد بلوچستان کا پرچم تخلیق کیا تھا، لیکن اب انہوں نے اس تحریک سے ترک تعلق کر لیا ہے۔ اس سے پہلے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ گزین مری اٹھارہ سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئے، اگرچہ انہیں اس وقت کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا لیکن دو ماہ بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اور دہشت گردی میں ملوث رہنے والے تین سو سے زائد لوگ لاپتہ یا اداروں کی حراست میں ہیں، ان کے علادہ ساڑھے چار سو کے لگ بھگ ایسے افراد ہیں جو مفرور ہیں اور حالات بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے پاک سر زمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے ریاستی اداروں سے مذاکرات شروع کئے جس کا وہ اعلانیہ اعتراف کرتے ہیں اور ان افراد کی رہائی کی کوششیں شروع کیں اور انہیں اس میں جزوی کامیابی بھی ملی لیکن ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے اس بات چیت کو منظر عام پر لانے کے بعد لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کا سلسلہ رک گیا۔
گزشتہ ڈیڑھ سال میں جئے سندھ قومی محاذ کے سو سے زائد کارکنان نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کیا اور سندھو دیش تحریک کو خیر باد کہا۔ کچھ ہفتے قبل بھی پنو عاقل میں جئے سندھ قومی محاذ کے چھبیس کارکن اپنی پارٹی کو چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہوئے، انہوں نے سندھو دیش کے نعرے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ چلنے کا عزم کیا۔ یہ عزم کرنے والوں میں جسقم کے ایک ضلعی صدر بھی تھے۔ گزشتہ سال بھی کشمور اور اردگرد کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے جسقم کے کارکنان کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد صوبائی پولیس نے ماضی کے مقدمات میں انہیں گرفتار کر لیا۔ جس سے مفاہمت کی ان کوششوں کو نقصان بھی پہنچا اگرچہ بعد ازاں مسئلے کو حل کیا گیا۔
کالعدم تحریک طالبان کے مختلف گروہوں سے بھی الگ الگ مذاکرات ہوئے اور اس کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے اپنے آپ کو ریاست کے حوالے کیا۔ کالعدم تحریک طالبان کے شہر یار محسود گروپ نے بھی مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار ڈالے۔ طالبان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے بھائی اعجاز محسود نے پاک افغان بارڈر پر اپنے خاندان سمیت اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کیا۔ احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جماعت الاحرار کے کئی کمانڈروں نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کیا اور جماعت الاحرار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ لیکن اس مسئلے میں پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پابند کیا کہ احسان اللہ احسان کو رہا نہ کیا جائے اور اس کے خلاف تحقیقات کی جائیں، جس کے جواب میں وفاقی حکومت نے محض ایک لائن کا جواب جمع کروایا کہ احسان اللہ احسان سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اس سال جنوری میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کو رہا کر دیا۔ وہ آٹھ سال سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیر حراست تھے۔
اس طرح تین صوبوں میں طالبان، ایم کیو ایم، آزاد بلوچستان تحریک اور سندھو دیش تحریک کے رہنمائوں، کارکنوں اور عسکریت پسندوں کو ریاست پاکستان سے وفاداری پر قائل کیا جا رہا ہے اور ظاہراً اس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات سے کالعدم تنظیموں میں موجود عسکریت پسندوں کی رائے تقسیم ہوئی اور وہ آپس میں اختلافات کا شکار ہوئے جسکا فائدہ ریاست پاکستان کو ہوا۔ اگرچہ ماضی میں نائن الیون کے بعد کشمیری عسکری تنظیموں پر پابندی لگائی گئی لیکن ریاست نے عسکریت سے وابستہ افراد کے لئے متبادل انتظام نہیں کیا اور اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری عسکریت سے منسلک الیاس کشمیری، عصمت اللہ معاویہ، احسن عزیز، راشد رؤف اور میجر مست گل نے کشمیری تنظیموں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے طاقتور گروپوں کے ساتھ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نشاندہی اہم ہے کہ اس ریاستی پالیسی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کئے گئے اقدامات کو علانیہ، آئینی اور قانونی راستے کا سہارا دیا جائے تاکہ اس کے فوائد دیرپا ہوں، وگرنہ یہ خدشہ موجود رہے گا کہ دو سال بعد پالیسی تبدیل ہونے کی صورت میں خدانخواستہ پاکستان کو ایک اور مذہبی، نسلی یا لسانی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)