ہماری دادی جان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ پڑھا لکھا متموّل خاندان ہونے کی وجہ سے ان کے گھرانے کا شمار مقبول اور پسندیدہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد پاکستان ہجرت کی تھی۔ دادی جان کا سنایا ہوایہ واقعہ ان ہی کی زبانی پیش کررہی ہوں۔’’ہم حیدرآباد دکن کے گول گنڈا نامی علاقے میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایک محل نما گھر میں خوش و خرّم زندگی گزار رہے تھے۔
اس وقت ہمارے گھر میں ہر اعتبار سے خوش حالی اور سکھ چین تھا، اس زمانے میں تقریباً سبھی گھروں میں کنواں ضرور ہوتا تھا، ہمارے گھر میں بھی دروازے سے ذرا فاصلے پر ایک کنواں تھا۔ چاروں طرف کیاریوں میں پھولوں کی بہار تھی۔ بہت سے پھل دار درخت بھی تھے۔ اس وسیع احاطے کی دیواروں کے ساتھ بھی کیاریاں تھیں، جن میں ہم نے رات کی رانی، چنبیلی، موگرے اور گلاب کے پودے لگائے ہوئے تھے، جن سے سارا صحن مہکتا رہتا تھا۔
ان ہی دنوں ہمارے محلّے کے ایک چھوٹے سے گھر میں کرائے دار کی حیثیت سے ایک فیملی آئی۔ ان نئے محلّے داروں نے رفتہ رفتہ اہلِ محلہ سے رابطے بڑھانے شروع کردیئے۔ جب اس فیملی کی ایک خاتون پہلی بار ہمارے گھر آئیں، تو امّی جان نے ان سے اخلاقی طور پر پیار و محبت اور اپنائیت سے بات کی۔ انہیں ہمارے گھر کا صحن بہت اچھا لگا تھا۔ کہنے لگیں ’’میں پھولوں کی دیوانی ہوں، مگر گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے پھول پودے نہیں لگا سکتی۔‘‘
پھروہ باتیں کرتے ہوئے اٹھیں اور پودوں، درختوں کو بڑے شوق سے دیکھنے لگیں۔ امّی جان کو خود پودوں سے دل چسپی تھی۔ دونوں میں کچھ ہی دیر میں دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ وہ خاتون، کسی بھی طور ہمارے ہم پلّہ نہ ہونے کے باوجود دو چار ملاقاتوں میں امّی جان کے اتنے قریب آگئیں کہ دونوں جیسے دوپٹا بدل بہنیں بن گئیں۔ رفتہ رفتہ اپنی دل چسپ باتوں سے انہوں نے امّی کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے بچّے ہمارے ہم عمر تھے، وہ بھی اکثر ساتھ آنے لگے۔ اپنی بیٹی کو وہ عموماً ساتھ لاتی تھیں۔ جب تعلقات خاصے بڑھ گئے، تو ایک روز انہوں نے امّی جان سے میری بڑی آپا کا رشتہ مانگ لیا۔
امّی جان تو ان پر پہلے ہی فدا تھیں، انہوں نے بلا سوچے سمجھے ہامی بھرلی۔لیکن، جب گھر والوں کو بتایاگیا، تو کوئی بھی اس بات پر راضی نہیں ہوا، خصوصاً خالہ نے شدید مخالفت کی کہ ’’ہمارا رہن سہن ان سے بالکل الگ ہے، ہماری بچّی وہاں چھوٹے سے تنگ گھر میں کیسے رہ پائے گی۔‘‘ جس پر امّی نے وقتی طور پر ان خاتون کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’لڑکے کو اچھی ملازمت وغیرہ مل جائے، تو پھر گھر والوں کو اس رشتے پر راضی کروں گی، فی الحال ذرا انتظار کریں۔‘‘ ان خاتون نے، جو ہر صورت امّی کے خاندان سے جڑناچاہتی تھیں، جواباً کہا کہ ’’اگر لڑکی کا رشتہ دینے میں قباحت ہے، تو اپنے لڑکے کی میری بیٹی سے شادی کروادیں۔‘‘ خاتون کے لہجے میں نہ جانے کیسا جادو تھا کہ امّی نے یہ بات نہ صرف مان لی، بلکہ بڑے بھائی پر جذباتی دبائو ڈال کرانہیں رضامند بھی کر لیا۔ سب حیران تھے کہ ان خاتون میں ایسی کیا بات ہے کہ امّی ہر وقت ان ہی کے گن گایا کرتی ہیں۔ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتیں۔
بہرحال، جھٹ پٹ شادی کروانے کے بعد وہ باقاعدہ امّی جان کی سمدھن بن گئیں، تو ان کے انداز بھی بدل گئے۔ پہلے بیٹی کے لیے اوپر کی منزل کا انتخاب کیا، پھر بھائی کو بیٹی کے ذریعے مٹّھی میں لیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا کہ ہمارے پھل دار درخت اچانک سوکھنے لگے۔ پہلے تو ہم اسے موسمی اثرات سمجھتے رہے، مگرجب تقریباً سب ہی درخت ٹنڈمنڈ ہو گئے اور صحن کے ہرے بھرے پودے بھی مرجھا کر زمیں بوس ہونے لگے، تو ہمیں فکرلاحق ہوئی۔ گھر اور باہر کے کام کاج کے لیے ہم نے علائوالدین نامی ایک ملازم رکھا ہوا تھا۔
ایک دن ہم اس معاملے پر بات کررہے تھے، تو اس نے کہا۔ ’’بیگم صاحبہ! میں بہت عرصے سے ایک بات کہنا چاہ رہ تھا، مگر ہمّت نہیں ہوپارہی تھی، آج چھوٹے صاحب اور دلہن گھر پر نہیں ہیں، اس لیے بتا رہا ہوں کہ دلہن کی امّی جب بھی یہاں آتی ہیں،تو وہ درختوں کے پاس کچھ دیر ضروررکتی ہیں۔ انہوں نے آس پاس کھرپی بھی چھپا رکھی ہے، جس سے زمین کھود کر ان کی جڑوں میں اپنے تھیلے سے کچھ نکال کر دبادیتی ہیں۔
یہ کام وہ بہت ہوشیاری سے کرتی ہیں۔ میں نے کئی بار انہیں یہ حرکت کرتے دیکھا ہے۔‘‘ امّی نے علائوالدین کو ڈانٹ دیا اور کہا کہ ’’وہ خاتون پھول، پودوں کی شیدائی ہیں، اسی لیے کچھ دیر وہاں بیٹھ جاتی ہوں گی۔‘‘ علائوالدین ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میں آنکھوں دیکھا جھٹلا نہیں سکتا، آپ ان درختوں کے پاس کھدائی کرواکے دیکھ لیں۔ سارے درخت بھی اسی وجہ سے سوکھ رہے ہیں۔‘‘
ہمیں بھی اس کی بات عجیب لگی تھی، اس لیے کسی نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ پھر کچھ دنوں بعد گھر میں بلاوجہ لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ ہمارے انکل، جو گھر کے سربراہ کی حیثیت رکھتے تھے، وہ اچانک بیمار پڑگئے۔ ہمارے بڑے بھائی نے بھی، جن سے ان خاتون کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی، گھر میں لڑنا جھگڑنا شروع کردیا اور جعل سازی سے گھر کے جعلی کاغذات بنوا کر اوپر کا پورشن اپنے نام کروانے کی کوشش کی۔ وہ یہ سب کچھ اپنی بیوی کے اکسانے پر کررہے تھے۔ بیوی انہیں گھر بیچ کر جائیداد میں سے حصّہ الگ کرنے کی پٹّیاں پڑھاتی تھی، جب کہ گھر میں وہ بڑی تابع دار قسم کی بہو بننے کا ناٹک رچائے ہوئے تھی۔
ادھر ہمارے وہ انکل، جن کے فیصلے ہمارے لیے اٹل ہوتےتھے، ایسے شدید بیمار پڑے کہ بستر سے لگ گئے۔ بہ ظاہر انہیں کوئی بیماری نہیں تھی، لیکن وہ روز بہ روز گھلتے جارہے تھے۔اسی دوران میرے بھائی نے ایک روز دبے لفظوں میں امّی سے گھر کے بٹوارے کی بات کی، تو ابّاجان نے انکل کو بتادیا۔ انکل کا بہت اثرورسوخ تھا۔ ان کے دوست عیادت کے لیے آتے رہتے تھے۔ جن کے ذریعے پتا چلا کہ ہمارے بھائی اوپر کے پورشن پر قبضے کی جعلی دستاویزات بنوانے کے لیے کورٹ کچہری کے چکّر کاٹ رہے ہیں۔
ان کا سالا، جو سدا کا نکمّا اور میری آپا سے رشتے کا طلب گار تھا، وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔ اب یہ کھیل گھر والوں کی سمجھ میں آنے لگا تھا۔ امّی بھی چوکنّا ہوگئیں، مگر انکل نے سب کو احتیاطاً خاموش رہنے کی تاکید کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے بیماری کے دوران کچھ ایسی چیزیں دکھائی دی ہیں، جن پر میں کبھی یقین نہیں کرتا تھا۔ صحن میں مچھر دانی کے اندر لیٹتا، تو میرے اطراف برف جیسی ٹھنڈی تیز ہوائیں چلنے لگتیں۔ کبھی منڈیر پر کالی بلّی آکر بیٹھ جاتی اور عجیب و غریب حرکتیں کرکے غرّاتی رہتی۔ پہلے اسے میں اپنی بیماری کی کیفیت سمجھتا تھا، لیکن اب میں سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ کچھ اور عوامل بھی اس گھر کی آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ میں شامل ہیں۔‘‘
ایک روز امّی جان کے ایک دور کے بزرگ رشتے دار، انکل کی عیادت کو آئے، تو کچھ پریشان سے دکھائی دیئے۔ آتے ہی امّی کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’تونے گھر کی کیا حالت بنادی ہے۔‘‘ پھر انکل نے جب انہیں تمام واقعات بتائے تو کہنے لگے۔ ’’تم لوگوں پر سفلی عمل ہو رہا ہے، گھر کے پیڑ،پودے اور خوش حالی سب پر رفتہ رفتہ خزاں آچکی ہے۔ تمہارے گھر میں آنے والی نئی بہو کی ماں، بہت عرصے سے اس غلیظ کام میں مصروف ہے، وہی یہ سفلی عمل کروا رہی ہے۔‘‘ اس انکشاف کے بعد جب وہ جانے لگے، تو ہم نے ان سے کچھ روز ٹھہرنے کی درخواست کی۔
وہ اس شرط پر گھر میں ٹھہرنے پر راضی ہوئے کہ غیر لوگوں کومیرے قیام کی بھنک نہ پڑنے پائے، خصوصاً بڑے بھائی کو تو بالکل بھی علم نہ ہو۔ پھر ہماری امّی جان کو علائوالدین کی باتیں یاد آئیں۔ انہوں نے یہ باتیںاپنے بزرگ چچا کو بتائیں، تو انہوں نےتلقین کی کہ’’ فی الحال چپ رہیں، جس روز دلہن اور بیٹا گھر پر نہ ہوں، تب وہ جگہ کھودی جائے گی۔‘‘ اتفاق سے اسی شام وہ دونوں کسی کام سےکہیں باہرچلے گئے۔ ہماری موجودگی میں علائوالدین نے ان جگہوں کی نشان دہی کی اور جب وہاں کی کھدائی کروائی گئی، تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انہوں نے ذرا ذرا سے فاصلے پر تقریباً ہمارے گھر کے سبھی افراد کے، کپڑے کی گڑیوں پر نقش و نگار بناکرانہیں زمین میں دفن کیا ہوا تھااور ان گڑیوں میں سوئیاں پیوست تھیں۔
پھر امّی جان کے کمرے سے ان کے سرہانے دبے تعویذ برآمد ہوئے۔ ایک درخت کی جڑ کھدوائی، تو اندر سے ہمارے بیمار انکل کی مورتی نکلی۔ مورتی کی آنکھوں پر کالی پٹّی بندھی تھی۔ یہ سب چیزیں نکلواکر انہوں نے اُن خاتون کو امّی کا پیغام دے کر بلوالیا۔ ان کی بیٹی اور ہمارے بھائی کو بھی بلا کر وہیں کھڑا کردیا۔ بزرگ نے خاتون سے کہا۔ ’’محترمہ! آپ ان کے بارے میں خود کچھ فرمائیں گی یا پھر تھانے میں بیان دیں گی۔‘‘
پہلے تو خاتون نے واویلا مچا کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ اسے بہتان تراشی اور سازش قراردینے لگیں۔ ان کی بیٹی بھی شوہر کو اکسانے لگی کہ اِن الزامات کو رد کردیں۔ بھائی بے چارا کبھی ہمیں، کبھی اپنی بیوی اور کبھی ساس کو دیکھتا۔ کچھ دیر بزرگ خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے، پھر بھائی کو اپنے قریب بلایا اور اس سے دھیمے انداز میں کچھ کہا۔ بھائی فوراً اپنے کمرے میں چلے گئے۔
کچھ دیر بعد واپس آئے، تو بالکل خاموش تھے۔ امّی نے استفسار کیا، تو بھائی نے کمرے سے لائی ہوئی چیزیں بزرگ کے قدموں میں رکھ دیں۔ بھائی کے کمرے میں بھی جگہ جگہ تعویز، بالوں کے گچھے اور چھوٹی چھوٹی مورتیاں موجود تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی بیوی اپنی ماں کی شہ پر گھر میں تباہی کا سامان لا کر کونوں کھدروں میں چھپاتی رہی ہے۔ جب بزرگ نے یہ چیزیں خاتون کو دکھائیں، تو ان کے ہوش اڑگئے۔
انہوں نے بزرگ کے خوف سے ساری حقیقت اگل دی کہ کس طرح گھر پر قبضے کے لیے پلاننگ کی تھی۔ پہلے میری امّی جان کو قابو کیا، پھر انکل پر کالا جادو کرواکے بیمار کیا، بیٹی کی شادی بھائی سے کرواکر اسے اپنا غلام بنایا، وہ تو اللہ نے کرم کیا کہ جائیداد کے کاغذات انکل نے اپنے بینک میں رکھے ہوئے تھے، ورنہ وہ خاتون اگر اپنے ارادے میں کام یاب ہوجاتیں، تو ہمیں تو دربدرہی کردیتیں۔ اللہ بچائے ایسی عورتوں سے۔ بعدازاں،بھائی نے بیوی کو طلاق دے کر رخصت کردیا، پھر وہ خاتون بھی اپنے بچّوں سمیت چند دنوں میں محلّے سے فرار ہو گئیں اور ہم نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔
(ممتاز سلطانہ، حیدرآباد)