• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھرم باز منگتے....

ابصار فاطمہ

’’نسیمہ!اُنھیں باتوں باتوں میں جتا دینا کہ ہم صاعقہ کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کریں گے۔ہم نہیں چاہتے کہ ٹکے ٹکے کی چند چیزوں کی خاطر ہماری بیٹی کسی کے طعنے سُنے۔‘‘مَیں ڈرائنگ روم میں داخل ہورہا تھا، تو امّی کی آواز سُنائی دی۔’’لگتا ہے، امّی نے آج پھر آپی کے رشتے کے لیے پریشان ہوکر نسیمہ آنٹی کو فون کیا ہے۔‘‘مَیں جب تک کمرے میں داخل ہوا، امّی فون بندکرچکی تھیں۔ ’’امّی! جو لوگ چند ٹکوں کی چیزوں کے لیے طعنے دے سکتے ہیں، وہ پھر کسی بھی بات پر طعنے دے سکتے ہیں۔‘‘مَیں نے ان کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔امّی نے پہلے تو مجھےخشمگیں نگاہوں سے دیکھا ، پھر بولیں،’’تم ان معاملات میں ٹانگ نہ ہی اڑاؤ، تو بہتر ہے۔‘‘

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صاعقہ آپی شدید غصّے میں چلّاتی ہوئی میرے کمرے میں داخل ہوئیں،’’آخر مَیں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے، جو تم نہیں چاہتے کہ میری شادی ہو۔ ہر بار کوئی ایسی منحوس بات کہہ دیتے ہو کہ پھر رشتے والے پلٹ کر ہی نہیں پوچھتے۔‘‘آپی نے غصّے سے بات شروع کی، مگر ختم کرتے کرتے رونا شروع کردیا۔’’آپی! مَیں خود چاہتا ہوں کہ آپ کی شادی جلد سے جلدہوجائے، مگر ایسی جگہ شادی کا کیا فائدہ ؟جہاں آپ کی بجائے جہیز کی اہمیت ہو۔ آپ مَیں اتنی ساری خوبیاں ہیں، پھر آپ خود کو کم تر کیوں ثابت کرنا چاہتی ہیں۔

مُنہ سے جہیز مانگنے والے افراد لالچی ہوتے ہیں اور لالچ کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا۔ساس کو سونے کے کنگن، نندوں کو سونے کے جھمکے،سُسر کو مہنگی گھڑی اور تو اور،سب کے لیے مہنگے تحائف کی فہرست الگ۔اچھا ،ایک بات بتائیں، کیا بابایہ سب اخراجات برداشت کرسکتے ہیں؟‘‘ ’’مگراحمد! آج کل تو سب ہی جہیز مانگتے ہیں۔بس کوئی مُنہ کھول کر مانگ لیتا ہے، تو کوئی ڈھکے چُھپے لفظوں میں اظہارکرتا ہے۔‘‘’’سب نہیں آپی! مَیں تو بابا کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ ایک بار معیز بھائی کے رشتے پربھی غور کرلیں۔

اُن کے گھر والے آپ کو پسند کرتے ہیں، شادی کے بعد آپ کی عزّت بھی کریں گے۔‘‘ ’’جب تمہیں پتا ہے کہ بابا دوسری برادری میں میری شادی نہیں کریں گے، تو پھریہ بات کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘ ’’ٹھیک ہے، اب مَیں کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘ مَیں نے بھی چڑ کے کہہ دیا۔

چندہی دِن بعد نسیمہ آنٹی ایک اور رشتہ لے آئیں۔ گھر والوں کی تمام شرائط پر پورا اُترنے والا،یعنی برداری ایک ہی تھی۔ اگلے دن اتوار تھا، سو لڑکے والوں کو کھانے پر مدعو کرلیا گیا۔ اس روز صبح ہی سے گھرمیں ہلچل سی تھی۔ صفائیاں ہو رہی تھیں، کھانےپک رہے تھے۔ ایک دَم زور زور سے دروازہ بجنے لگا۔ 

مَیں نے جلدی سے دروازہ کھولا، تو برابر والے گھرکا بارہ سالہ لڑکا کھڑا تھا، ’’احمد بھائی!انکل کو ابّو بلوا رہے ہیں۔‘‘ مَیں نے بابا کو جاکر بتایا، تو وہ فورا ہی چلے گئے۔ بابا عموماً محلّے والوں کے معاملات حل کرنے اور چھوٹے بڑے جھگڑے نمٹانے میں مدد کرتے رہتے ہیں، اس لیے مجھے اندازہ تھا کہ کوئی ایسا ہی معاملہ ہوگا، جو بابا کو اس طرح فوراًبلوایا گیا ہے۔ خیر،کوئی دو گھنٹے بعد ابّو آئے اور کمرے میں چلے گئے۔

شام میں نسیمہ آنٹی مہمانوں کو ساتھ لائیں۔بڑے خوش گوار ماحول میں گپ شپ ہوتی رہی۔ دیکھنے میں مناسب ہی سےلوگ تھے۔ پھر لڑکے کی ماں نے آپی کو بلوا کر پیار کیا اور بابا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،’’بھائی صاحب! ہمیں آپ کی بچّی پسند آگئی ہے۔ نسیمہ بہن نے بڑی تفصیل سے آپ لوگوں کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘ ان کی اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ جہیز کی ’’تفصیل‘‘ سُن کر آئی ہیں۔’’بس ہم چاہتے ہیں کہ اب جلد ہی شادی کی تاریخ رکھ لی جائے۔

ہم نے اپنی بہو کے لیے سب کچھ تیار کیا ہوا ہے، صرف اچھی لڑکی کی تلاش تھی، آج وہ بھی پوری ہوئی۔‘‘ اس کے بعدآپی کی بلائیں لیتے ہوئے دوبارہ بولیں،’’ہمارا بیٹابہت ہی نفاست پسند ہے، توفرنیچربھی اسے ساتھ ہی لےجا کرپسند کرلیجیے گا۔‘‘بابا نے ان کی بات بہت سُکون سے سُنی اوربولے،’’بہن! ہماری طرف سے بھی شادی کی تیاری تقریباًمکمل ہی ہے اور ہم بھی کسی اچھے شریف اور باغیرت لڑکے ہی کی تلاش میں تھے۔‘‘ بابا نے ’’باغیرت‘‘ پہ کافی زور دیا۔ اُس کے بعد بھی خوب چبا چبا کر بولے کہ’’بھئی، بچّےکی اپنی پسند ہے، وہ جیسا فرنیچر چاہے لے لے، ہم ساتھ جا کر کیا کریں گے؟‘‘ ’’ارے بھائی صاحب! آپ کیسے نہیں جائیں گے، بچّہ ہے، اگربہت مہنگا فرنیچر پسند کرلیا تو…؟‘‘ ’’ لوبھئی، اُس کا اپنا کمرا، اپنی کمائی، جیسے چاہے، خرچ کرے۔ 

ہم کون ہوتے ہیں، منع کرنے والے؟‘‘بابا نےکہا، تو خاتون کا مُنہ جیسے کھلا کا کھلا رہ گیا۔بلکہ اُن ہی کا کیا، امّی اور نسیمہ آنٹی کا بھی عجیب حال تھا۔’’دیکھیں ،مَیں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی بھی اپنے گھر میں وہ سب کچھ سہے، جومیرے پڑوسی امداد صاحب کی بیٹی سہہ رہی ہے۔ آج بھی اس کا شوہر اُسے اس نیّت سےمیکے چھوڑ گیا ہے کہ واپسی پر وہ بھاری رقم ساتھ لائے، تاکہ وہ ہیوی بائیک خرید سکے۔

حالاں کہ مجھے پتا ہے کہ پچھلی بار بھی امداد صاحب نے مجھ سے اور ایک دو اور قریبی دوستوں سے قرض لے کر اسے پیسے دیئے تھے۔ اُس کی بیٹی کی سُسرال بھی آپ ہی جیسے بھرم باز منگتوں پر مشتمل ہے، مگر مَیں اپنی بیٹی کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں، سو میری طرف سے معذرت۔‘‘ یہ کہہ کر بابا اُٹھ کھڑے ہوئے، جس کا سیدھا سا مطلب تھا کہ ’’اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔‘‘ان کے جاتے ہی بابا نے امّی سے کہا، ’’نیک بخت!ہماری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے، تو لڑکا بھی اُسی کے معیار کا ہونا چاہیے۔ 

جاؤ، معیز کی والدہ سے کہو کہ وہ لوگ جلد آئیں، تاکہ شادی کی تاریخ پکّی کردی جائے۔دیکھے بھالے لوگ ہیں۔لالچ نام کو بھی نہیں۔کیا ہوا، اگر وہ ہماری برادری کے نہیں، مسلمان تو ہیں ناں۔مَیں اس نام نہاد برادری کے چکر میں پڑ کر اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں سے دوزخ میں کیوں جھونکوں؟‘‘اور مجھے فوراً ہی سمجھ آگیا کہ انکل امداد نےبابا کو کیوں بلوایا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین