آئین کے مطابق جونہی موجودہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں 31مئی کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گیں تو یہ خود بخود تحلیل ہو جائیں گیں۔ پھر نگراں حکومت قائم ہوگی اور 60دنوں کے اندر انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے ۔ اسی لئے اب نئے الیکشن کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ گو ایک خاص سوچ کا یہ خیال ہے کہ چونکہ حلقہ بندیوں میں بڑے نقائص اور اعتراضات سامنے آئے ہیں جب تک یہ دُور نہیں ہوتے ، الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں دوسری سوچ یہ ہے کہ جس طرح کے موجودہ حالات بنا دیئے گئے ہیں، الیکشن بروقت ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ ہر کوئی اپنے مفادات کے تابع نہ صرف اپنی سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے بلکہ حالات کو اسکے مطابق ڈھالنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔ گو اس وقت سپریم کورٹ کی حیثیت اور اہمیت سب سے بڑھ کر نظر آرہی ہے اور چیف جسٹس نے کئی بار اسکا برملا اعادہ کیا ہے کہ ملک میں صرف جمہوریت اور جمہوریت ہوگی، ہم جمہوریت کے پیچھے کھڑے ہیں اور انتخابات کا انعقاد اپنے وقت پر ہی ہوگا ۔ اگر الیکشن کمیشن کو دیکھا جائے تو وہ بھی بہت سرگرم دکھائی دے رہا ہے ۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات کا وقت ختم ہوچکا اور کمیشن کا یہی کہنا ہے کہ اعتراضات دور کر کے دو مئی کے بعد حتمی فہرستیں جاری کر دی جائینگی۔ 72لاکھ سے زائد نئے ووٹوں کااندراج ہوگا جبکہ اس اندراج کیلئے ملک بھرمیں 26مارچ2018ء سے 14ہزار 4سو 87ڈسپلے سنٹر قائم کئے گئے ہیں ، جن میں پنجاب میں 7ہزار 928، سندھ میں 25 سو 85، کے پی کے میں 25سو 45اور بلوچستان میں 14سو 29ایسے سینٹرز بنائے گئے ہیںجہاں شہری جاکر فہرستوں کو دیکھ سکتے ہیں، ووٹوں کے اندراج ، اخراج اور کوائف کی درستگی کرا سکتے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے تیاریاں شروع کر دی ہیں تاکہ بروقت صاف ، شفاف الیکشن ہو سکیں ۔ نئے انتخابی قانون کے تحت الیکشن کمیشن اپنی خود مختار اور آزاد حیثیت کے اشارے بھی دے رہا ہے۔ حلقہ بندیوں پر پارلیمانی گروپ کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے جبکہ پارلیمانی گروپ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئیں حلقہ بندیوں کونہ صرف سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ 2013ء کی حلقہ بندیوں اور ووٹر فہرستوں کے مطابق انتخابات ہونے چاہئیں ۔ یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ الیکشن کمیشن اپنی خودمختاری قائم رکھ پاتا ہے یا پھر پارلیمانی گروپ اپنی مرضی ٹھونستا ہے اور ن لیگ انتخابات کا التوا کیوں چاہتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کی تیاریوں کا آغاز ادھورا ہے صرف ووٹوں کے اندراج کی مثال لے لیجئے ۔ ملک بھر میں ہزاروں ایسے ڈسپلے سینٹرز کے حوالے سے اخبارات میں تشہیر کی جاتی ، فہرستیں شائع ہوتیں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر لوگوں کو موبالائز کرنیکی مہم چلائی جاتی، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ووٹ کا اندراج اور کوائف کی درستگی کروا سکیں ۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا ۔ جو فون ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کے اخبارات میں دیئے گئے ہیں وہ بند یا پھر مصروف ملتے ہیں اگر مل جاتا ہے تو اُنکے پاس مطلوبہ معلومات ہی نہیں۔ اسلئے اگر الیکشن کمیشن ووٹرز کو موبالائز نہیں کر پاتا تو پھر ساری تیاریاں دھری رہ جائینگی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ووٹ کے اندراج یا تبدیلی پتہ کا تین صفحات پر مشتمل جو فارم ہے ، اسکو پر کرنے کیلئے رہنمائی کا ایک لفظ بھی درج نہیں اور عام آدمی جو پہلی مرتبہ ووٹ کا اندراج کرانا چاہتا ہے تواُسے سخت کنفیوژن ہورہی ہے ، اب چونکہ پاکستان بھر کے تمام قومی و صوبائی حلقوں کے نمبر تبدیل ہونے سے شماریاتی کوڈ بھی یکسر بدل گئے ہیں ، پھر یہ کوڈ بہت سارے ہندسوں پر مشتمل ہیں۔ اسلئے یہ خدشہ ہے کہ بیشمار افراد نہ تو ووٹوں کا اندراج کروا سکیں گے اور نہ ہی کوائف درست ہو پائینگے کیونکہ ماضی کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے۔ راقم ذاتی طور پر اس تجربہ سے گزرا ہے اور صرف مخصوص سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کرائے گئے فارموں کا اندراج ہو سکا ۔ اسلئے اب الیکشن کمیشن کے سامنے اپنی خودمختارحیثیت کو ثابت کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ دوسری طرف الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا حال سن لیجئے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس نئے انتخابی قوانین سے پہلے تقریباًساڑھے تین سو سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ تھیں، گو الیکشن کمیشن نے نئے ایکٹ پر پورا اترنے والی صرف34سیاسی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا ہے کیونکہ نئے ایکٹ کے تحت سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کیلئے 2ہزار کارکنوں کی تصدیق شدہ فہرست اور دو لاکھ فیس کی ادائیگی کی شرط پر پورا نہ اترنے والی تین سو کے قریب سیاسی جماعتیں تو الیکشن کی دوڑ سے ہی باہر ہوگئی ہیں جبکہ انتخابی اخراجات کی ایم این اے اور ایم پی اے کیلئے جو حد مقرر کی گئی ہے اور کاغذات نامزدگی کی جو فیس ہے اس سے عام آدمی کیلئے الیکشن میں حصہ لینے کے دروازے تو پہلے ہی بند کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخابات کے نتائج اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد آئندہ عام انتخابات کا نقشہ بالکل واضح ہوگیا اور لگتا ہے کہ وزیراعظم کو بھی زیادہ پارٹیاں مل کر منتخب کریں گیں اور یہ وہ وزیراعظم ہوگا جسکے سر پر ’’ ہما‘‘ بیٹھا ہو گا۔ آئندہ عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں نہ صرف شریک ہونگیں بلکہ اسی تناسب سے اقتدار میں حصہ دار بھی ہونگیں ماسوائے ن لیگ ۔ مذہبی جماعتوں جنکے اتحاد کے اب مولانا فضل الرحمن صدر بنے ہیںانہوں نے یہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ایم ایم اے کو بحال کر دیا ہے بلکہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے آپس میں ٹکٹو ں کی تقیسم کا فارمولا بھی طے کر لیا ہے ۔ لیکن صرف ان مذہبی جماعتوں کا کردار یا حصہ نہیں ہوگا بلکہ تحریک لبیک ان سے بڑی قوت اور حصہ دار بن کر ابھر ے گی ، جبکہ ایک تیسرا بڑا مذہبی اتحاد حافظ سعیدکے لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ سندھ کے اندر فنکشنل لیگ اور اسکی اتحادی تمام چھوٹی اور علاقائی جماعتوں کا وزن بھی پیپلز پارٹی کے برابر اور بعض علاقوں میں زیادہ ہوگا ۔ تحریک انصاف کا وزن بھی پہلے سے کم ہوجائیگا۔ بلوچستان میںوجود میں آنیوالی نئی سیاسی جماعت ’’ بلوچستان عوامی پارٹی ‘‘ کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اس نئی سیاسی جماعت کے منشور کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں ۔ اسکے منشور میں معاشی اور سیاسی حقوق سر فہرست ہونگے، اسکے بعد الیکشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹرڈ کروا کر انتخابات میں بھر پور حصہ لیا جائیگا ۔ فی الحال مرکزی سطح پر انوارالحق کاکڑ کو ترجمان مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ پارٹی نہ صرف بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی ہوگی بلکہ مرکز میں اپنے آپکو بہت بڑے حصے کی حقدار ثابت کر یگی۔ حالات یہی نظر آرہے ہیں کہ ان انتخابات میں پہلے سے زیادہ آزاد امیدوار جیتیں گے اور نگراں حکومت کے قیام کیساتھ ہی مختلف جتنے والے امیدواروں کیلئے مختلف جماعتوں میںجو گھونسلے بنائے گئے ہیں وہ انپے اپنے گھونسلوں میں بیٹھ جائینگے ۔ اسلئے عوام کو قطعی طور پر پریشان نہیں ہونا چاہئے ، انہیں با آسانی وزیراعظم مل جائیگا اور یہ وہی وزیراعظم ہوگا جسکو عوام نے ہی ووٹ دیئے ہونگے۔ پریشانی تو صرف ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘کیلئے ہوگی ۔
لمحہ فکریہ ، پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 2015-16ء میں ریٹرنگ آفیسر کے طور پر کام کرنیوالے لاہور کے 9آفیسرز نے اپنے دستخطوں کیساتھ خط لکھا ہے کہ انہیں الیکشن کمیشن میں ڈیوٹی سرانجام دینےکا ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ان نو ریٹرننگ آفیسرز نے جن یونین کونسلوں میں اپنے فرائض سرانجام دیئے ، انکی فہرست بھی منسلک ہے ۔ الیکشن کی تیاریاں عروج کی طرف ہیں مگر افسوس کہ گزشتہ انتخابات میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ان ریٹرنگ آفیسرز کو ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا ۔آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)