• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چینی جاسوس بھی کسی سے پیچھے نہیں

گزشتہ برس نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’2010ء سے 2012ء کے درمیان چین میں جاری ، امریکی جاسوسی آپریشن کو چینی خفیہ اداروں کی جانب سے ناکام بنا دیا گیا، جب کہ اس آپریشن میں شریک اٹھارہ سے بیس خفیہ اہل کاروں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر قید کرلیا گیا‘‘۔

اس جاسوسی آپریشن کا مقصد چین کے وہ راز حاصل کرنا تھا، جن کے باعث وہ تیزی سے ترقی کے زینے چڑھ رہا تھا، جن میں عسکری ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور اٹیلی جنس اداروں کی اہم خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنا شامل تھا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی قوتوں کے درمیان بظاہر جیسے بھی تعلقات ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس دوڑ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ، امریکا نے چین کی جاسوسی کرنا چاہی، بلکہ امریکا کے مطابق یہ جوابی کارروائی تھی۔

کیوں کہ اس سے قبل چین طویل عرصے تک امریکا کی جاسوسی کرتا آیا ہے۔ اس کے کئی جاسوس مختلف بھیس میں امریکی خفیہ اداروں میں بھرتی ہونے کے بعد اہم معلومات تک رسائی حاصل کرکے اسے اپنے ملک کو مہیا کرتے رہے ہیں، جن کا انکشاف امریکا کئی بار کر چکا ہے۔ ایک بڑی تعداد ایسے چینی خفیہ جاسوسوں کی بھی ہے، جنہیں امریکی خفیہ ادارہ، سی آئی اے، نہ صرف بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ انہیں سخت سزایں بھی دے چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محب وطن چینی ملک و قوم کی ترقی کی خاطر جان ومال اور انجام کی پروا کیے بغیر غیر سرزمِن پر ان کے راز جاننے کی خاطر قدم رکھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ 

زیر نظر مضمون میں ہم قارئین کو ایسے ہی چند خفیہ جاسوسوں کے بارے میں بتا رہے ہیں، جنہوں نے مختلف قانونی و غیر قانونی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے امریکی خفیہ اداروں اور حکومتی اداروں میں نہ صرف اپنی اہم جگہ بنائی بلکہ ان کے وہ قیمتی راز حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے، جن سے چین کو فائدہ تھا اور جن کی بنیاد پر باآسانی مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔

لاری ووتائی چن (Larry Wu-tai Chin)

21 فروری 1986 کو امریکی جیل سے لاری ووتائی چن کی لاش بر آمد ہوئی، جس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے دو بار تاحیات قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ کوئی عام شخص نہیں تھا بلکہ سی آئی اے میں تیس برس تک ترجمان کے عہدے پر فائض رہا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس کی موت خودکشی کے باعث ہوئی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سی آئی اے کے ایجنٹ کا جرم کیا تھا، جس کے خوف سے اس نے اپنی ہی جان لے لی، اسے اتنی سخت سزا کیوں ہوئی اور اسے خودکشی کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ۔ پریشان نہ ہوں ہم ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔

چینی جاسوس بھی کسی سے پیچھے نہیں
لاری ووتائی چن، عدالت میں پیشی
 سے قبل ایک منظر

لاری ووتائی چن درحقیقت ایک چینی نژاد امریکی تھا، انگریزی زبان پر عبور حاصل ہونے کے باعث دوسری جنگ عظیم کے دوران لاری امریکی اور چینی افواج کے درمیان ترجمان کی حیثیت سے ذمے داریاں انجام دے رہا تھا، بعدازاں اسے باقاعدہ امریکی افواج کے رابطہ دفتر میں ترجمان کی حیثیت سے ملازمت پر رکھ لیا گیا۔ 1948ء میں اس کا تبادلہ شنگھائی میں قائم امریکی قونصلیٹ کے دفتر میں ہو گیا، جہاں اس نے چینی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطے قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ اسے حاصل ہونے والی خفیہ معلومات انہیں فراہم کرسکے۔

1951ء میں کورین جنگ کے دوران پکڑے جانے والے چینی قیدیوں سے تحقیقات میں امریکی محکمہ کی مدد کی، اور اسی دوران وہ چینی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطہ کرنے اور ان کے سامنے اپنی شناخت ظاہر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اس کے ایک سال بعد یعنی 1952ء میں سی آئی اے کی جانب سے جاپان میں خارجہ نشریاتی ادارے سے منسلک ہو گیا۔ اس دوران وہ چینی خفیہ اداروں سے رابطے میں رہا، انہیں خفیہ معلومات کی ترسیل کے لیے کئی بار ہانگ کانگ گیا۔ 1961 میں اس خارجہ نشریاتی ادارے نے لاری کا تبادلہ کیلی فورنیا کر دیا، تو چینی ایجنٹس نے بھی معلومات کی ترسیل کے لیے ہانگ کانگ کے بجائے کینیڈا کا انتخاب کیا۔ چار سال بعد لاری کو امریکی شہریت مل گئی، نیز کسی کو اس پر کسی قسم کا شک بھی نہیں ہوا کہ وہ کیا کام کر رہا ہے۔

1970ء میں اس کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نشریاتی ادارے نے اسے ترقی دیتے ہوئے ورجینیا بھیج دیا، جہاں سے اس کی پہنچ ان حساس معلومات تک ہوگئی جو اس سے قبل لاری کے لیے حاصل کرنا ناممکن تھا، جن میں امریکی صدر ریچرڈ نیکسن کی بین الاقوامی تعلقات، بالخصوص چین امریکی تعلقات کے حوالے سے حساس معلومات شامل تھیں۔ 1981 میں جب لاری نے اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی تو انہیں بہترین کارکردگی کے عوض سی آئی اے کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا۔ کسی کو ان پر شک تک نہیں ہوا کہ لاری اپنے کیرئیر کے تیس برسوں کے دوران کتنی اہم اورخفیہ معلومات چین کو دے چکے ہیں۔

معاملات اس وقت تک ٹھیک رہے جب تک چین نے انہیں ان کی خدمات کا صلح نہیں دیا تھا۔ لیکن 1982 میں جب انہیں چینی حکومت نے اعزاز سے نوازا تو امریکی خفیہ اداروں کو ان پر شک ہوا، جس کے بعد امریکی ایجنٹس نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں، یہ محض اتفاق تھا یا کچھ اور کہ، یو چینگ شینگ (Yu Qiangsheng) جس نے لاری کو چینی حکومت کی جانب سے اعزاز دیا، اسی نے امریکا کا دفاع کیا اور لاری کے خلاف تمام ثبوت امریکا کو فراہم کر دے۔ لاری خلاف توقع اپنے ہی خلاف تحقیقات کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور عدالت میں تمام الزامات قبول کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا تھا، بہرحال اس پر جاسوسی، سازش اور ٹیکس چوری کے سترہ الزامات ثابت ہوئے، جس کے نتیجے میں انہیں دو بار عمر قید اور 3.3 ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ فرد جرم عائد ہونے کے اگلے روز لاری نے شرمندگی کے باعث خودکشی کرلی۔

گاؤ باؤ مِن (Gwo-Bao Min)

تائیوان سے تعلق رکھنے والے گاؤ باؤ مِن، طیارہ ساز انجینیر ہیں۔ انہوں نے کیلی فورنیا کی لارئینس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد یہاں سے میزائل اور نیوکلئیر ہتھیار تیار کرنا سیکھے۔ 1981ء کے دوران ایف بی آئی کو خفیہ ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ، گاؤ باؤ مِن امریکی حساس ہتھیاروں کی معلومات کے حوالے سے خفیہ دستاویزات ملک سے باہر لے جا رہے ہیں۔ ایف بی آئی نے ایک لمحہ ضائع کیے بنا خارجہ انٹیلی جنس حراست ایکٹ (FISA) کے تحت گاؤ باؤ مِن کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا اور انہیں ائیر پورٹ پر گرفتار کر لیا، ان کے قبضہ سے لارئینس لائبریری کی جو دستاویزات برآمد ہوئیں ان میں بیشتر ایسی تھیں، جن کا تعلق گاؤ باؤ مِن کی ذمہ داریوں اور کام کے حوالے سے نہیں تھا، اسی بنیاد پر انہیں مشتبہ قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا۔ 

بعدازاں ان کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ گاؤ باؤ مِن چین کے ہر دورے سے قبل ہی لارئینس لائبریری سے چند مخصوص اور خفیہ معلومات حاصل کرتے تھے، جن میں بیشتر دفاعی اور ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق تھیں۔ نیز امریکی محکمہ دفاع نے ان پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ، انہوں نے پہلے نیوٹران بم کے حوالے سے اہم معلومات چین کو فراہم کیں۔ کیوں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ستر کی دہائی میں امریکا نے پہلے نیوٹران بم کا، کامیاب تجربہ کیا، جس کے کچھ عرصے بعد ہی چین نے بھی نیوٹران بم کا، کامیاب تجربہ کرلیا۔ بل کلیوی لینڈ، ایف بی آئی کی جانب سے گاؤ باؤ مِن کے کیس کی سربراہی کر رہے تھے، وہ اس کیس میں گاؤ باؤ مِن کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے، جس کے باعث انہیں سزا تو نہ ہوئی لیکن انہیں لارئینس لیبارٹری میں نہ صرف مزید کام کرنے سے روک دیا گیا بلکہ ان سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ لیکن ان کے خلاف تحقیقات یہاں ختم نہیں ہوئیں، بلکہ 1982ء میں ایف بی آئی ان کی تمام فون کالز ریکارڈ کر رہا تھا۔ ان فون کالز سے ایف بی آئی کترینہ لیونگ تک پہنچ گئی۔ کترینہ لیونگ کون تھی؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے۔

کترینہ لیونگ (Katrina Leung)

1982ء میں جیمز اسمیتھ نے اٹھائیس سالہ چینی نژاد امریکی کترینہ لیونگ کو چینی انسداد انٹیلی جنس میں بطور کاروباری مشیر (بزنس کنسلٹینٹ) تعینات کیا۔ اسے اعلیٰ سطح پر چینی حکام کے ساتھ تعلقات ہونے کے باعث اہمیت حامل تھی۔ لیکن اس نے دو دہائیوں تک ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے، ایف بی آئی کی خفیہ دستاویزات چین کو دیں، جب کہ چین سے ایٹمی ہتھیاروں، دفاعی نظام اور سیاست کے حوالے سے حساس معلومات حاصل کر کے ایف بی آئی کو فراہم کرتی رہی۔ 

چینی جاسوس بھی کسی سے پیچھے نہیں
کترینہ لیونگ

2002ء میں ایف بی آئی نے اسے مشتبہ قرار دیتے ہوئے اس کے گھر کی تلاشی لی، جہاں سے انہیں ادارے کی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئیں۔ تحقیقات کے دوران کترینہ نے اعتراف کیا کہ، اسے یہ خفیہ معلومات ایف بی آئی آفیسر کلیوی لینڈ اور جیمز اسمیتھ کی لاپرواہی کے باعث حاصل ہوئیں۔ بعدازاں انہیں 3 ماہ جیل میں جب کہ اٹھارہ ماہ ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 6 جنوری 2005ء کو پروسیکیوشن کی جانب سے غلط بیانی کے باعث کیس کو مسترد کر دیا گیا۔ نیز جیمز اسمیتھ کو حساس دستاویزات سنبھال کر نہ رکھنے کی وجہ سے سزا کا سامنا کرنا پڑا۔

 مو کوسوین (Moo Ko-Suen)

موکوسوین کا شمار جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے کاروباری شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ انہیں بھی چینی خفیہ جاسوس یا سہولت کار ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ 

چینی جاسوس بھی کسی سے پیچھے نہیں
مو کوسوین

انہوں نے مئی 2006ء میں امریکا سے دفاعی ہتھیار خریدنے کی کوشش کی، جن میں ایف- 16 فائٹر جیٹ انجن، اے جی ایم- 129A کروز میزائل، UH-60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر انجن اور AIM-120 ہوائی میزائل شامل تھے۔ وہ یہ ہتھیار امریکا سے خرید کر چین کو فراہم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اسی دوران انہیں امریکی جاسوسوں نے گرفتار کر لیا۔

کینڈسی ماری کلیبورن (Candace Marie Claiborne)

امریکی محکمہ عدل و انصاف کی جانب سے امریکی سفارت کار کینڈسی ماری کلیبورن پر ہزاروں ڈالرز کیش اور تحفے تحائف کی صورت میں رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا۔ امریکی محکمہ عدل و انصاف کے مطابق کینڈسی جانتی تھی کہ جن کے ساتھ وہ خفیہ معلومات شئیر کر رہی ہیں، ان کا تعلق چین سے ہے۔ انہوں نے یہ جرم چین میں امریکی سفارت کار کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے کیا۔ واضح رہے کہ انہیں ملنے والی رشوت کا بڑا حصہ ان کے ساتھی کے نام پر منتقل کیا جاتا تھا، جو مختلف کارروائیوں میں ان کے ساتھ شریک ہوتا تھا۔ 

چینی جاسوس بھی کسی سے پیچھے نہیں
کینڈسی ماری کلیبورن

1999 میں جب اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کیس عدالت میں گیا تو اس نے انتہائی سفاکی سے تمام الزام اپنے ساتھی پر عائد کر دئیے اور پھر وہ خود بری ہوگئی، عدالت نے انہیں انتباہ دیتے ہوئے رِہا کر دیا اور کہا کہ، مستقبل میں اگر کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث پائی گئی تو کم از کم پندرہ سال قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین