یہ دس برس قبل کا واقعہ ہے، میں ان دنوں لاہور میں مقیم اور سالانہ چھٹیوں پر تھا، وقت گزاری کے لیے روزانہ ایک قریبی دوست کے آفس چلا جاتا۔ ایک روز وہیں ایک اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک اشتہار پر نگاہ پڑ گئی، جس میں تحریر تھا کہ’’ ہمیں اپنی زکوٰۃ کی معقول رقم مستحقین تک پہنچانے کے لیے ایسے نیک افراد کی ضرورت ہے، جو اس کام میں معاونت کے لیے ہماری راہ نمائی کر سکیں۔‘‘ اشتہار پڑھ کر پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ دنیا بھوکی مر رہی ہے اور انہیں زکوٰۃ دینےکے لیے مستحق لوگ نہیں مل رہے۔ یہ سوچ کر میں نے انہیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔ میرے دوست کے آفس کی بلڈنگ میں ایک این جی او کا دفتر تھا۔
میں نے سوچا اگر یہ اشتہار واقعی صحیح ہے، تو این جی او کے لوگ اس کام میں معاونت کر سکتے ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے اشتہارمیں دیئے گئے نمبر پر اپنے موبائل فون سے کال کی، تووہاں ریکارڈڈ میسج چل رہا تھا ’’مَیں عبادت میں مصروف ہوں، ٹیون کے بعد اپنا پیغام ریکارڈ کروائیں۔ اپنا نام اور مقصد بھی بتائیں، میں خود آپ سے رابطہ کر لوں گا۔‘‘ آواز نہایت مہذب اور بارعب شخص کا تاثر دے رہی تھی، مگر دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، جو غریبوں کو ان کی مدد کے لیے تلاش کر تے پِھررہے ہیں، پھر بھی میں نےپیغام ریکارڈ کروا دیا۔
چند روز بعد ان کی کال آگئی اور اسی مہذبانہ اور بارعب انداز میں مجھ سے پہلے میرا نام پوچھا، پھر جوابی کال میں تاخیر کی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ’’دراصل، چند روز بعد مجھے انگلینڈ واپس جانا ہے، مَیں اور میرے خاندان کے بیش تر افراد انگلینڈ ہی میں رہتے ہیں، وہاں ہمارا وسیع کاروبار ہے، سال میں رمضان سے پہلے ہم زکوٰۃ کی رقم پاکستان بھجواتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے غرباء میں تقسیم کرسکیں، ہمیں یہ کام جلد نمٹانا ہے، اس لیے اس کام میں معاونت کے لیے اشتہار دینا پڑا ۔
جس کے بعد بے شمار کالز آئیں، ہم نے باری باری ان سے ملاقاتیں کیں، مگر دل نے ان کی ایمان داری کی گواہی نہیں دی۔ آپ بھی ہم سے ملاقات کرلیں، تو تفصیل سے بات ہوسکے گی۔ کیوں کہ زکوٰۃ کی کل رقم اِکسٹھ لاکھ روپے ہے۔‘‘ مَیں نے سوچنے کے لیے ان سے ایک دن کی مہلت مانگی اور اگلے ہی روز این جی او کے آفس جا پہنچا، وہاں ایک کارکن لڑکی،نسرین سے میری ملاقات ہوئی۔
اس نے ایم اے کرنے کے بعد یہ این جی او خدمتِ خلق کے لیے جوائن کی تھی۔ اس کے والد کرنل تھے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کا جذبہ اسے والد ہی سےملا تھا۔ اس این جی او میں، اس کےساتھ ساتھ دیگر لوگوں میں ایک ڈی ایس پی کے بیٹے سمیت سب ہی نوجوان خدمت کے جذبے سے سرشار تھے، مجھے ان نوجوانوں پر رشک آیا۔
علیک سلیک کے بعد میں نے نسرین نامی اس لڑکی کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس کے سامنے اشتہاری تراشا رکھ کر پوری کتھا گوش گزار کر دی۔ وہ لڑکی پر جوش ہو گئی، اِکسٹھ لاکھ کی رقم سے وہ غریب بچیوں کی شادیاں دھوم دھام سے کروا سکتی تھی، میں نے اسے سمجھایا کہ ’’پہلے ہمیں ان لوگوں کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ہمارے ساتھ کوئی کھیل رچا رہے ہوں۔‘‘
نسرین نےکہا ’’انکل! آپ بالکل فکر مت کریں، اکبر کے والد ڈی ایس پی ہیں، ان کے ذریعے انکوائری کروالیں گے۔‘‘ مجھے تسلی دے کر اس نے فوراً اپنےان دونوں بااثر کولیگز کو کال کر کے دفتر بلا لیا۔ رقم اتنی بڑی تھی کہ انہوں نے اس کام میں تاخیر مناسب نہیں سمجھی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں دفتر پہنچ گئے۔ میں بھی اپنے دوست کے آفس چلا گیا، وہاں سے فون پر ان صاحب سے رابطہ کیا، توانہوں نے پھول نگر (پرانا نام بھائی پھیرو)میں گھر کے ایڈریس کی لوکیشن بتاکر ہمیں بلوالیا۔ ہم مطلوبہ جگہ پہنچے، وہ ایک خوبصورت بنگلہ تھا، جس کے گیٹ پر سیکیوریٹی پر مامور ایک شخص نے ہمیں بیٹھک میں پہنچادیا ۔ دس منٹ بعد چوہدری صاحب تشریف لے آئے۔
دراز قد اور لمبی داڑھی نے اس گورے چٹّے آدمی کی شخصیت کوخاصا بارعب بنا دیا تھا۔ انتہائی صاف ستھرا سفید رنگ کا لباس زیبِ تن،سر پر عمامہ، ہم چوہدری صاحب سے حقیقتاً مرعوب ہو چکے تھے۔ انہوں نے بڑے تپاک سے ہم سے ہاتھ ملایا۔ اپنا تعارف چوہدری شریف کے نام سے کرواتے ہوئے کہا کہ ’’شارجہ میں ہمارا بہت بڑا کاروبار ہے، ہماری فیملی انگلینڈ میں مقیم ہے، ہم پہلے پاکستان میں زمین داری کرتے تھے، پھر شارجہ چلے گئے، ہمارا کاروبار چل پڑا، تو چچا کی مدد سے کراچی میں چند ملیں لگالیں، چچا ہی ان کی نگرانی کرتے ہیں۔
چچا نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں۔ ایک بیوی، قادیانی اور دوسری سنّی ہے۔ قادیانی بیوی اپنی زکوٰۃ خیرات ربوہ بھیجتی ہے، جب کہ سنّی بیوی غریبوں کو براہ راست یہ رقوم بھجوانا چاہتی ہے۔ چچا نے مستحقین کو امداد پہنچانے کی ذمّے داری مجھے سونپی ہے، اس لیے ہر سال پاکستان آکر مستحق لوگ تلاش کرتا ہوں اور چھان بین کے بعد زکوٰۃ کی رقم کسی ایک شخص کو سونپ کر چلا جاتا ہوں۔ اس سال مختصر عرصے کے لیے آیا ہوں، لہٰذا یہ رقم جلداز جلد کسی معتبر شخص کے حوالے کرنا چاہتا ہوں ،جو جلد ازجلد اسےمستحقین تک پہنچاسکے۔‘‘
قصّہ کوتاہ، ہم سے بات چیت کے بعد وہ بہت خوش اور مطمئن دکھائی دیئے، ہمارےجذبہ انسانیت کو سراہتے ہوئے بتایا کہ ’’رقم سونپنے کا حتمی فیصلہ میرے چچا ہی کریں گے۔ جو کچھ ہی دیر میں آنے والے ہیں، ان کے ساتھ بیگم صاحبہ بھی تشریف لا رہی ہیں۔‘‘ ہم ان کا انتظار کرنے لگے، کچھ دیر بعد انہیں فون موصول ہوا۔ جسے سن کر چوہدری صاحب نے فکرمندی کا اظہار کیا اور بتایا کہ ’’بیگم صاحبہ کی بھانجی کا ملتان میں ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ وہ وہاں روانہ ہوگئی ہیں، لہٰذا چچا اکیلے ہی چند منٹوں کے لیے آرہےہیں۔‘‘ ہم نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بیگم صاحبہ کی بھانجی کے لیے دعا کی اور میاں صاحب کا انتظار کرنے لگے۔
اتنے میں ملازم نے جمیل نامی ایک شخص کی آمد کی اطلاع دی۔ اسے اندر بلا لیا گیا، چوہدری صاحب نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور پوچھا ’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اور کس سے ملنا ہے؟‘‘ وہ چوہدری صاحب کو دیکھ کر گڑبڑا گیا، کہنے لگا ’’مجھے بڑے چوہدری سے ملنا ہے، انہیں اطلاع کردیں۔‘‘ چوہدری صاحب نے ٹھنڈی آہ بھرکر پوچھا ’’ان سے آخری بار کب ملے تھے؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’سال بھر سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔‘‘ چوہدری صاحب کہنے لگے ’’وہ میرے بڑے چچا تھے، جو نو ماہ قبل وفات پاچکے ہیں۔
ان سے کوئی لین دین ہو، تو مجھے بتادو۔‘‘ یہ سنتے ہی جمیل نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور رونے لگا، چوہدری صاحب نے کہا ’’صبر کرو بھائی، کیا تم نے کوئی امانت ان کے پاس رکھوائی ہوئی تھی،یا کوئی اور وجہ ہے ، تو مجھے بتادو۔‘‘ اس نے کہا ’’جناب، میرا ان سے ایک خاص معاملہ تھا ،جو آپ کے بس کی بات نہیں ہے؟‘‘چوہدری صاحب نے اصرار کیا کہ ’’میں اپنے بڑے چچا کابہت احترام کرتا تھا، ہر صورت تمہاری خواہش پوری کروں گا۔‘‘تو جمیل نے جھجکتے ہوئے بتایا کہ’’ میں آپ کے مرحوم چچا کے ساتھ ’’ٹیبل پولو‘‘ کھیلتا تھا، اس میں ہارجیت کا معاملہ ہوتا تھا، اکثر میں ان سے بھاری رقم جیت جاتا تھا، جس سے چند ماہ کے لیے میرےبچّوں کی روزی روٹی کا انتظام ہو جاتا تھا۔‘‘ چوہدری صاحب نے بے تکلفی سے کہا کہ ’’تم یہ کھیل مجھے سکھا دو،تو ہوسکتا ہے میں بھی اس کھیل میں بازی لگا دوں۔‘‘چوہدری صاحب کی دل چسپی دیکھ کر جمیل نے اپنی جیب سے کھجور کی کچھ گٹھلیاں نکال کر میز پر رکھ دیں اور کہا اس میں سے مٹھی بھر گٹھلیاں نکال کر بتائیں کہ ’’جفت یا طاق؟‘‘چوہدری صاحب نے ’’طاق‘‘ کہا، تو جمیل نے کہا ’’میرا جفت‘‘ پھر تیزی سے گٹھلیاں گننےلگا، وہ جفت نکلیں، دوبارہ پھر کھیلا، اس بار چوہدری نے جفت کہا اور گٹھلیاں طاق نکلیں۔
ہم باریک بینی سے جمیل کو انتہائی چالاکی اور مہارت سے گٹھلیاں ادھر ادھر کرتے دیکھ چکے تھے ۔ یہ بات میرے نوجوان ساتھی بھی سمجھ چکے تھے، مگرچوں کہ ہمارا ان کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اس لیے چپ ہی رہے۔ اسی دوران میاں صاحب کی آمد ہو گئی، انہوں نے سفید براق لباس پہنا ہوا تھا۔ آتے ہی اپنا بریف کیس میز پر رکھا اور ہمیں سلام کرکے تاخیر سے پہنچنے کی معذرت کی۔ جمیل پر نظر پڑی تو کہنے لگے،’’ آہا، جمیل ، تم یہاں کیسے؟‘‘ان دونوں کی آپس کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ میا ں صاحب بھی اسے جانتے ہیں ۔
جمیل نے ان سے بھی کھیلنے کی درخواست کی ، تو پہلے تو انہوں نے انکار کردیا، لیکن جمیل کے اصرار پر انہوں نے پہلے دس ہزار، پھر ایک لاکھ کی بازی لگائی اور دونوں بازیاں میاں صاحب جیت گئے، پھر جمیل کی دی ہوئی رقم رکھنے کے لیے بریف کیس کھولا، تو وہ ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ رقم بریف کیس میں رکھ کر بولے ’’قسمت مہربان ہے، ایک بازی اور لگا لیتے ہیں، اس بار اٹھارہ لاکھ کی بازی ہو گی۔‘‘ ہم چونک گئے، جمیل نے مزید کھیلنے سے انکار کردیا، تو میاں صاحب برہم ہو کر کہنے لگے’’میرا موڈ بنا ہے، تو تم کھیل چھوڑ رہے ہو، ایسا نہیں ہو گا۔‘‘یہ کہہ کر میاں صاحب نے ایک پرچی پر اٹھارہ لاکھ لکھ کر جمیل کو تھما دیا اوربریف کیس بند کرکے چلے گئے، ان کے نکلتے ہی جمیل نے چوہدری صاحب سے الگ کمرے میں بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم اٹھنے لگے، مگر اس نے اشارے سے کہا ’’آپ ابھی بیٹھیں، شاید آپ بہتر مشورہ دے سکیں۔‘‘پھروہ دونوں اُٹھ کر دوسرےکمرے میں چلے گئے۔
پانچ منٹ بعد ملازم آیا اورہمارے ساتھ آئے ہوئے ڈی ایس پی کے بیٹے سے کہا ’’چوہدری صاحب آپ کوبلا رہے ہیں۔‘‘ وہ پراعتماد، پڑھا لکھا لڑکا تھا، اندر چلا گیا، دس پندرہ منٹ بعد واپس آیا، تو کچھ الجھا الجھاہوا تھا، ہم سے کہنے لگا’’ابھی واپس چلیں ،کل ہم اسی وقت پھر یہاں آئیں گے۔‘‘ راستے میں ڈی ایس پی کے صاحب زادے نے بتایا کہ جمیل کے پاس اٹھارہ لاکھ کی رقم نہیں ہے، اتنی تھوڑی مدت میں اسے کہیں سے قرض بھی نہیں مل سکتا ،تاہم نو لاکھ روپے وہ اکٹھے کرسکتا ہے اور بقیہ نو لاکھ روپے اگر ہم اسے دے دیں، تو اٹھارہ لاکھ کی رقم کل وہ ہر حال میں جیت جائے گا،جس کے بعد جیت کی رقم سے ہمارے نولاکھ کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روپے بھی ہمیں الگ سے دے دے گا۔میرے کان کھڑے ہوگئے، میں نے ان سے کہا ’’وہ لوگ ہمارے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں۔ فرض کرو، جمیل کل بھی ہارگیا، توپھر کیا ہو گا، ہماری رقم تو ڈوب جائے گی ناں۔‘‘ نسرین نے جواب دیا ’’انکل! ہمیں جو اکسٹھ لاکھ ملیں گے، ان سے اپنا نقصان پورا کر لیں گے۔‘‘ڈی ایس پی کے لڑکے نے کہا ’’انکل !جمیل کے ہارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ نے دیکھا نہیں، وہ کس مہارت سے گٹھلیاں چھپاتا ہے۔
پھر اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہماری رقم ہر صورت میں جیت کر لوٹا دے گا۔‘‘میں ان کی گفتگو سے سمجھ گیا تھا کہ وہ میری بات نہیں مانیں گے،لہٰذا دوسرے روز ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا، تو انہوں نے بصدِ اصرار یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ ہم پیسے لے کر نہیں جائیں گے، آپ بزرگ ہیں، آپ کا چلنا ضروری ہے۔ تو مجبوراً مجھے ان کے ساتھ جانا پڑا اور اگلے روز ٹھیک دس بجے ہم ان کے بنگلے پر پہنچے، توچوہدری صاحب، جمیل اورمیاں صاحب پہلے سے موجود تھے۔ جمیل نے بریف کیس کھول کر میاں صاحب کو دکھایا اور کہنے لگا۔ ’’یہ اٹھارہ لاکھ ہیں۔‘‘ میاں صاحب نے بھی اپنا بریف کیس کھول دیا جو ہزارہزارروپے کی گڈیوں سے بھرا تھا، دونوں فریق آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ جمیل نے گٹھلیوں سےبھری تھیلی نکال کر کھیل کے آغاز کا اشارہ کیا۔
ابھی میاں صاحب نے تھیلی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ جمیل یک دم ان کے قدموں میں گرگیا اور بولا ’’میاں جی! آپ کے گھر کا نمک برسوں سے کھاتا آیاہوں، میں نے اتنی بڑی رقم کبھی اس کھیل میں نہیں لگائی، میں آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتا، میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔‘‘ میاں صاحب یک دم ٹھٹک گئے، پوچھا ’’کیا کہنا چاہتے ہو، صاف کہو؟‘‘ جمیل نے کہا ’’میں پوری رقم اکٹھی نہیں کر سکا۔ اس میں ڈیڑھ لاکھ روپےکم ہیں، اگر میں جیت گیا، تو خیر ہے، اگر آپ جیت گئے، تو بقیہ رقم جلد آپ کوادا کردوں گا۔‘‘ میاں صاحب یہ سنتے ہی جلال میں آگئے اور جمیل کو صلواتیں سنانے لگے۔ چوہدری صاحب نےانہیں سمجھانے کی کوشش کی، تو وہ غصے سےاٹھ گئے، بولے’’ میں لعنت بھیجتا ہوں تم پر اور ایسے کھیل پر۔‘‘پھر بریف کیس بند کر کے بک بک جھک جھک کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ یہ کیا ہوا۔ جمیل سر جھکائے کھڑا تھا، چوہدری صاحب، میاں صاحب کے پیچھے لپکے ،ہم ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔
دس منٹ بعد چوہدری صاحب منہ لٹکائے واپس آگئے، کہنے لگے ’’میاں صاحب چلے گئےہیں، لہٰذا آج پھرمیٹنگ ملتوی کرنی پڑے گی۔ میں انہیں منا کرکل آپ کے آفس لے آئوں گا، ابھی آپ لوگ بیٹھیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جمیل کو اشارے سے بلا کر اندر لےگئے، تو میں نے اپنے ساتھ آئے ہوئےساتھیوں کو فوراً وہاں سے نکلنےکو کہا ، تو لڑکی رونے لگی اور بولی ’’میں نہیں جائوں گی۔‘‘میں نے اس کا بازو پکڑا، لڑکے بھی ڈر گئے تھے، کیوں کہ میاں صاحب نے جس طرح جمیل سے گالی گلوچ کی زبان میں ڈانٹ ڈپٹ کی تھی، اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس قبیل کے لوگ ہیں۔
لڑکی کو میں بہ مشکل گاڑی تک لایا۔ گاڑی اسٹارٹ ہوئی، تو جمیل اور چوہدری صاحب بھاگتے ہوئے آئےاور کہنے لگے ’’رک جائیں، میاں صاحب نے کہا ہے کہ وہ کچھ دیر بعد واپس آ رہے ہیں۔‘‘ نسرین واپسی کے لیے پھر مچل گئی، مگر میں نے لڑکوں کو سختی سے ہدایت کی کہ ’’ہر گز مت رکنا۔‘‘ انہوں نے اتفاق کیا اور ہم نے مڑ کر دیکھا، تو ہاتھ ہلا ہلا کر وہ دونوں ہمیں واپس آنے کےاشارے کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میرے موبائل فون پر چوہدری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے’’ آپ ذرا انتظار تو کرتے ،میاں صاحب آپ کے لیے اکسٹھ لاکھ بینک سے نکلوانے جا رہے تھے۔ خیر، آپ فکر مت کریں، میں میاں صاحب کے ساتھ آپ کے آفس رقم لے کر آجائوں گا۔‘‘
میں نے لڑکی سے کہا ’’بیٹا ، یہ بہت چالاک لوگ ہیں،ان کا پروگرام بہت خطرناک تھا،شکر کرو، ہم بڑے نقصان سے بچ گئے۔‘‘تب نسرین ایک دم پریشان ہوگئی اور روتے ہوئے کہا کہ ’’انکل، نقصان تو ہم اٹھا چکے، ہم نے آپ سے جھوٹ بولا تھا، ہم جوا کھیلنے اور جیت کی رقم کا نصف ملنے کی لالچ میں جمیل کو چار لاکھ روپے دے چکے ہیں۔ اس میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے میرے اور باقی دیگر ساتھیوں کے تھے۔‘‘یہ کہہ کر نسرین پھر رونے لگی۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نئے زمانے کے پڑھے لکھے بچّے بھی اس طرح بے وقوف بن سکتے ہیں، زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش میں وہ بہت بھاری نقصان اٹھا چکے تھے۔راستے میں چوہدری صاحب نے تسلّی کے لیے مجھے کئی فونز کیے،اورشام تک آفس آ کر زکوٰۃ کی رقم دینے کے وعدے بھی، مگر وہ شام آج تک نہیں آئی۔ ان بچّوں کے لٹ جانے پر میں آج تک خود سے شرمندہ ہوں۔ بچّے، ہم بڑوں کی نسبت کتنے ہی ذہین، اسمارٹ اور پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں، ناتجربہ کاری سے اکثرمار بھی کھاجاتے ہیں۔
(ایاز،ڈیرہ اسماعیل خان)