میاں محمد شہزاد مقبول مڑل
حکومت ہر سال کسانوں سے مقررہ نرخوں پر گندم کی خریداری سرکاری اداروں کے ذریعے کرواتی ہے۔ یہ سرکاری ادارے ہر سال گندم کی خریداری کے طریقہ کار کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ خریداری مراکز پر طریقہ کار اس قدر پیچیدہ ہوتا ہے کہ کسان کے بجائے مڈل مین ،آڑھتی اور بیوپاری ہی اپنی خرید کردہ گندم ان مراکز پر فروخت کرتے ہیں۔ گزشتہ برس ملک بھر میں گندم وافر مقدار میں پیدا ہوئی ، حکومت نے فصل کو بمپر کراپ قرار دیتے ہوئے سرکاری اداروں کو گندم خرید کرنے کا ایسا طریقہ کار بنانے کی ہدایت کی کہ صرف کسان ہی اپنی گندم فروخت کرسکیں۔
سرکاری اداروں نے کسانوں کے بجائے مڈل مین سے کمیشن طے کرکے گندم خرید کی اور کسانوں کو طریقہ کار میں الجھائے رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں گندم کی خریداری کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ کسانوں کی پیداواری لاگت تک پوری نہ ہوسکی جس کی وجہ سے گندم کے کاشتکاروں نے گزشتہ دو برسوں سے ایک نعرہ لگایا ’’اناج اتنا اگائو جتنا کھائو‘‘ اس طرح رواں سال کماد کی فصل کی خریداری کا بحران پیدا ہونے سے کسانوں کا معاشی استحصال ہوا۔ کسانوں نے رواں سال بھی گندم نامساعد حالات میں کاشت کی ۔
اس بار بمپر کراپ حاصل ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال بھی گندم خریداری پالیسی کا پنجاب حکومت نے اعلان کردیا ہے جس کے مطابق 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم خرید کی جائے گی اور 1300 روپے فی من نرخ مقرر کئے گئے ہیں۔ گزشتہ برس بھی یہی نرخ تھے مگر کسان کو ساڑھے 9 سو روپے فی 40 کلوگرام تک دیئے گئے ، جس سے پیداواری لاگت تک پوری نہ ہوئی۔ کسانوں کو فی ایکڑ 3 سے 4 ہزار روپے نقصان برداشت کرنا پڑا۔
سرکاری ادارے خوراک اور پاسکو نے گزشتہ دو برسوں سے حکومت کی ہدایت پر ’’گوسلو‘‘ پالیسی اختیار رکھی ہوئی جو رواں سال بھی جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔ فی ایکڑ بار دانہ 8 بوری 20 ایکڑ کے زمیندار کو ترجیح دینا ’’فسٹ کم فسٹ سرو‘‘ یعنی پہلے آئو پہلے پائوباردانہ یکمشت دینے کی بجائے پہلے کال ڈیپازٹ جمع کروانے کے بعد خسرہ گرداوری میں نام شامل ہونے پر 10 فیصد باردانے کا اجرا کیا جائے گا۔ اس کے بعد دوسری قسط میں 15 فیصد، تیسری قسط پر پھر بڑی مشکل سے نمبر آنے پر 10 فیصد باردانہ فراہم کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔
اس طرح ادائیگیاں اور فی بوری کٹوتی بھی کرکے کسان کے بلوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی سے سرکاری مقرر کردہ نرخ کی بجائے سنٹروں پر پریشان ہونے کے باوجود فی من 11 سو سے پونے 12 سو روپے بڑی مشکل سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس پیچیدہ طریقہ کار اور خواری سے بچنے کیلئے کسان اپنی خسرہ گرداوری کی کاپی اور قومی شناختی آڑھتیوں کو دے کر گندم کا صرف 20 فیصد حصہ فروخت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس میں بھی پورے سرکاری نرخ نہیں ملتے۔ ان نامساعد حالات کے باوجود رواں سال بھی ریکارڈ رقبہ پر گندم کاشت ہوئی ہے اور خریداری پالیسی میں افسر شاہی کی مداخلت سے کمیشن مافیا اور بیوپاری کمائی کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
دوسری جانب فلور ملز مالکان اور فیڈز ملز مالکان براہ راست کسانوں سے اونے پونے گندم خرید کرکے ذخیرہ کرتے ہیں ، جو بعد میں آٹا اور دیگر مصنوعات فروخت کرکے فی من 13 سے 14 سو روپے کمائی کرلیتے ہیں۔ فی من 3 سے 4 سو روپے منافع کماتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان اور سندھ کے آڑھتی بھی جنوبی پنجاب کے کسانوں کو بے دردی سے لوٹتے ہیں۔ حکومت ہر سال گندم کی کاشت 2 کروڑ ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت کروانے کا ہدف مقرر کرتی ہے اور کاشتکار بھی قریباً پونے 2 کروڑ ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت کرتے ہیں جس سے پیداوار ڈھائی کروڑ میٹرک ٹن حاصل ہوتی ہے۔
حکومت صرف 40 لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری کا اعلان کرتی ہے جبکہ اصل میں خریداری 20 سے 25 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ نہیں کی جاتی اور اتنے ہی فنڈز محکمہ خوراک اور پاسکو کو فراہم کئے جاتے ہیں۔ محض کسانوں کو چکر دینے کیلئے 40 لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری کا اعلان کرکے کسانوں کو خوش کیا جاتا ہے۔ اب کسان حکومت کی پالیسیوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ حکومت ہر سال آخری دانے تک خریداری کا حکم دیتی ہے مگر کسانوں کے پاس 70 فیصد گندم باقی ہوتی ہے جسے وہ سرکاری نرخوں سے کم پر فروخت کرتے ہیں۔ بڑے زمیندار گندم سٹاک کرکے 3 ماہ بعد وہی گندم ساڑھے بارہ سو سے 13 سو روپے تک غلہ منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت گندم کے سیزن میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔ کسان پُرامید ہیں کہ رواں سیزن گندم کی خریداری تیز اور سرکار کے مقرر کردہ نرخوں پر ہونے کا امکان ہے۔ اس وجہ سے ابھی تک کسا ن گندم کی برداشت میں تاخیر کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال گندم کی فصل برداشت یعنی کٹائی یکم اپریل سے شروع ہوگئی تھی جبکہ امسال گندم کی کٹائی 10 سے 13 اپریل تک شروع ہونے کا امکان ہے لیکن کہیں کٹائی شروع ہوگئی ہے۔ حکومت نے بھی گندم کی خریداری کا شیڈول 20 اپریل سے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گندم خریداری آپریشن 40 دن کا ہوتا ہے۔ 40 دنوں کے اندر 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کو خرید کرنے کا ہدف دیا گیاہے جبکہ یہ صرف ڈرامہ ہے۔ خریداری آپریشن میں بھی افسر شاہی روڑے اٹکاتی ہے اور اس کو سست کرکے جون کے وسط تک جاری رکھا جاتا ہے۔ حکومت کا مقصد مارکیٹ میں گندم کی خریداری کا عمل جاری رکھا جائے ، جو غلط ہے۔ سمال فارمرز پنجاب کے صدر رائو افسر کا کہنا ہے کہ گندم کی خریداری اوپن رکھی جائے ۔ پاسکو اور محکمہ خوراک کو گندم کی کی خریداری کے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے کی تاکید کی جائے۔ جتنے لوگ اور ادارے گندم کی خریداری کریں گے اتنی اچھی مارکیٹ رہے گی۔ کسانوں کو بہتر نرخ ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
خالی نعرے اور اعلانات تک کسانوں کو خوش نہ کیا جائے۔ کسان حکومت کی گندم کی خریداری پالیسی مسترد کرتے ہیں اور گندم کی خریداری میں ڈی سی کمشنر کو مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سپرائزری کمیٹیاں بھی کسانوں کو لوٹتی ہیں۔ گندم خریداری مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ باردانہ یکشمت دیا جائے۔ چھوٹے کسانوں کے ساتھ مستاجروں، ٹھیکیداروں کو بھی اپنی گندم فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس مقرر کئے جائیں جو گندم کے نرخوں کا مارکیٹ میں جائزہ لیں۔
کوئی بھی سرکاری نرحوں سے کم پر گندم خرید کرے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان اقدامات سے گندم کے نرخوں کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے، ورنہ کسان کپاس اور کماد کے بعد گندم میں بھی لوٹ جائیں گے۔ کسانوں کو لوٹنے سے بچایا جائے۔ اگر ہوسکے تو گندم خریداری مراکز پر فوجی افسروں کو تعینات کیا جائے جو صرف گندم کی خریداری کو مانیٹر کریں۔ کسان اتحاد کے رہنما میاں محسن زوار نے کہا ، گندم واحد جنس ہے جو پورا سال تک سٹور کی جاسکتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ گندم خریداری ہدف 40 لاکھ کی بجائے ایک کروڑ مقرر کرے۔ فلور ملوں ، فیڈ ملوں کو سرکاری نرخوں پر براہ راست گندم خرید کرنے کا پابند بنائے۔ گندم خریداری کا عمل آسان ہونا چاہئے۔
باردانہ زر ضمانت پر دیا جائے۔باردانہ کے مطابق ہی گندم خرید کی جائے۔ خسرہ گرداوری میں محکمہ مال کے افسر جان بوجھ کر اپنے چہیتوں کو نوازتے ہیں۔ خریداری بوگس کروانے کیلئے آڑھتیوں کے ناموں کاا ندراج کردیا جاتا ہے۔ اصل زمینداروں کی بجائے ان کے رقبوں کا اندراج کم کردیا جاتا ہے جس کی درستگی میں بعد میں کمائی کی جاتی ہے۔ حکومت اس طرح کے پیچیدہ طریق کار کو ختم کرکے 15 سال پرانا طریقہ اختیار کیا جائے۔ محکمہ خوراک اور پاسکو کے فیلڈ سٹاف کو مکمل آزادی دی جائے کہ وہ کسانوں کے کھیتوں سے صاف ستھری گندم براہ راست خرید کریں تاکہ کسان مشکلات سے بچ سکیں۔
محکمہ خوراک ملتان کے ڈپٹی ڈائریکٹر حق نواز چوہان نے گندم کی خریداری کو صاف شفاف بنانے کیلئے ایماندار، اچھی شہرت کے حامل فیلڈ سٹاف کو تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ کسی بھی سفارشی کو سنٹر انچارج نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح پاسکو ملتان زون کے زونل ہیڈ نے بھی خریداری پالیسی کے مطابق گندم کی صاف شفاف پالیسی اختیار کرنے کا اظہار کیا ہے۔امید ہے کہ حکومت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے گندم خریداری کی پالیسی پر عمل درآمد سوفیصد کروائے گی۔
خریداری مراکز پر حکمران جماعت کے افراد کو کافی مداخلت کرنے کی اجازت دینے کا امکان ہے۔ سپروائزری کمیٹیوں میں مسلم لیگ ن کے ورکرز ، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوںکو بھرپور انداز میں اختیارات دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے تمام جنوبی پنجاب کے اضلاع کے ڈی سی کو حکم دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کو بااختیار بنایا جائے گا۔ اس سے خریداری پر مثبت اور منفی اثرات بھی مرتب ہونے کا امکان ہے۔
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اگر نوازا گیا تو باقی زمینداروں کا استحصال بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے کافی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ کسان رہنما میاں محمد جاوید نے حکومت پنجاب سے اپیل کی ہے کہ گندم کی خریداری کو الیکشن کا آلہ کار نہ بنایا جائے۔ بلاامتیاز گندم کی خریداری کروائی جائے۔ خریداری کے عمل کو سست نہ کیا جائے بلکہ تیز بنایا جائے تاکہ آئندہ فصل کپاس کی کاشت بروقت ہوسکے۔