حمیرا مختار
نیا بستہ، نئی کتابیں نیا یونیفارم، نئے جذبات اور نئے خواہشات لیے اسکول کے تقریباً تمام طالب علم اسمبلی ہال میں جمع تھے۔ کنزا، مریم اور حرا بھی ساتویں کلاس کی قطار میں کھڑی ، اپنی پیاری اور چہیتی سہیلی حفصہ کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ چاروں پہلی کلاس سے ساتھ پڑھ رہی تھیں۔ حفصہ ہمیشہ پابندی سے اسکول آتی اور ہر سال کلاس میں اول پوزیشن سے پاس ہوتی تھی۔ اس کی تینوں سہیلیاں اور اساتذہ اس پر بہت فخر کرتے تھے۔
اس لیے حفصہ کی غیر حاضری نہ صرف اس کی سہیلیوں بلکہ اس کے اساتذہ اور باقی ہم جماعت ساتھیوں کے لیے بھی تشویش اور اداسی کا باعث تھی۔ اسی پریشانی کے عالم میں پورا ایک ہفتہ گزر گیا ۔ لیکن وہ اسکول نہ آئی ، تینوں سہیلیوں نے اس کے گھر جاکر چھٹیوں کی وجہ معلوم کرنے کا ارادہ کیا۔ اتوار کے روز وہ تینوں اپنی اپنی امی سے اجازت لے کر حفصہ کے گھر گئی۔
حفصہ کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، اس کے والد فوت ہوچکے تھے ۔ اس کی امی فیکٹری میں کام کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ وہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی ۔ جس وقت حفصہ کی سہیلیاں اس کے گھر پہنچیں وہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی ۔
وہ اپنی سہیلیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔ باتوں ہی باتوں میں مریم نے اس سے اسکول نہ آنے کا سبب دریافت کیا تو حفصہ نے مایوسی سے بتایا کہ ’’ امی نے اس سال میری سب سے چھوٹی بہن کا اسکول میں داخلہ کروایا ہے، جس میں کافی خرچہ ہوچکا ہے۔
میری اسکول کی فیس جمع کروانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور پھر کورس بھی بہت مہنگا ہے ، لہٰذا امی نے اس سال مجھے اسکول جانے سے منع کر دیا ، لیکن آئندہ سال دوبارہ پڑھائی شروع کروانے کا وعدہ کیا ہے‘‘۔
یہ سن کر وہ تینوں بہت اداس ہوئیں اور کچھ دیر حفصہ کے پاس بیٹھ کرواپس آگئیں۔ اگلے روز وہ تینوں اسکول میں بہت اداس اور پریشان تھیں ،انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ، حفصہ کی مدد کیسے کریں، اچانک حرا کو ایک ترکیب سوجھی اس نے باقی دونوں سہیلیوں کوبھی اپنی ترکیب سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ہم اپنی جیب خرچ سے جو پیسے جمع کرتے ہیں کیوں نہ ان سے حفصہ کے لیے کورس خرید لیں اس طرح اس کا سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا ‘‘۔
’’خیال تو اچھا ہے ، لیکن کیا ہم اپنے جمع شدہ پیسوں سے کورس خرید سکیں گے؟ کورس تو بہت مہنگا ہے؟‘‘ مریم نے فکر مندی سے کہا۔
’’تم اس کی فکر مت کرو جو کمی بیشی ہوگی وہ اپنے ابو سے لے کر پورا کردوں گی۔‘‘ حرا نے مریم کے ہاتھ پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’اور میرے ابو بھی ہماری مدد کرسکتے ہیں ‘‘ کنزا نے خوشی سے کہا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے یہ طے ہوگیا کہ کل ہم سب اپنی جمع کی ہوئی رقم لے کر آئیں گے۔‘‘ حرا فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’یس مس ‘‘ کنزا اور مریم باآواز بلند بولیں۔ دوسرے دن تینوں نے حفصہ کے لیے نہ صرف کورس خریدا بلکہ اُس کی فیس بھی ادا کر دی اور اُس کے گھر جا کر جب اُسے کورس کی کتابیں دیں اور بتایا کہ اب کل سے تم اسکول آؤ گی تو وہ خوشی سے رونے لگی۔
ان تینوں دوستوں نے دوستی کا حق ادا کردیا۔