• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شرارتی پینگونے توبہ کرلی

رباب شکیل، کراچی

ننھا پنگوین بہت شرارتی تھا، کبھی ایک جگہ نہیں بیٹھتا تھا، اسے جس کام سے منع کرو وہی کام اسے لازمی کرنا ہوتا۔ ایک روز پنگو کے امی ابو نے ساحل سمندر پر پکنک کا منصوبہ بنایا، تو پنگو نئی نئی شرارتیں سوچنے لگا۔

ساحلِ پر پہنچ کر وہ تینوں خوب کھیلتے رہے اور پھر کھانا کھا کر پنگو کے امی ابو کچھ دیر کے لیے سستانے لیٹ گئے۔ اس دوران انہیں گہری نیند آ گئی۔ پنگو موقعے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اپنے ٹیڈی بیئر کے ساتھ کھیلتے کھیلتے امی ابو سے دور نکل گیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنا دور آ چکا ہے، لیکن وہ پریشان ہونے کے بجائے آس پاس کے علاقوں کو دیکھنا چاہتا تھا، کیوں کہ وہ پہلی بار ساحل پر آیا تھا۔ وہ سب سے اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور پھر وہاں سے نیچے کی جانب لڑھکنے لگا۔ 

یوں لڑھکتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا، لیکن کچھ دیر بعد ایسا کرتے کرتے بور ہوگیا تو اس نے سمندر کنارے جانے کا سوچا، چوں کہ سمندر کا ایک حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اس لیے وہ اس پر پھسلنے لگا، پھر نا جانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے ایک چھلانگ لگائی تو ایک دم زور دار چٹاخ کی آواز آئی، اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے، گو کہ اس کی جھلانگ زیادہ زور دار نہ تھی لیکن اس کے وزن کے باعث برف کا وہ حصہ جس پر پنگو تھا ، باقی حصے سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا، جب تک اسے سمجھ آئی کافی دیر ہو چکی تھی۔ برف کا یہ حصہ پانی کے بہاؤ سے سمندر میں دور نکل گیا تھا۔ 

اس نے مدد کے لیے امی ابو کو آوازیں دیں، مگر اس کی آواز ان تک نہیں پہنچ سکی۔ البتہ، اس کی فریاد دو سمندری گھوڑوں نے سُن لی، وہ فوراً اس کی مدد کو آگئے، انہوں نے پنگو سے پوچھا کہ، ’’تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم کیوں مدد کے لیے پکار رہے ہو؟‘‘

سمندری گھوڑوں کو دیکھ کر پنگو کی ڈھارس بندھی ، اس نے تمام ماجرا روتے ہوئے انہیں بتایا کہ، ‘‘مجھے تیرنا نہیں آتا… اب میں اپنے امی ابو کے پاس کیسے جاؤں گا، وہ لوگ میرا انتظار کر رہے ہوں گے، مجھے نہ پاکر وہ بہت پریشان ہوجائیں گے‘‘۔

اب سمندری گھوڑوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس کی مدد کیسے کریں، اسی اثناء میں ایک سمندری گھوڑے نے دوسرے سے کہا کہ، ’’ایسا کرتے ہیں کہ ہم اس برف کی چٹان کو کسی طرح دھکیلتے ہوئے واپس ساحل کی طرف لے جاتے ہیں، پھر پنگو چھلانگ مار کر اتر جائے گا‘‘۔

سمندری گھوڑے نے جتنی آسانی سے یہ مشورہ دیا تھا، یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ لیکن جیسے تیسے دونوں نے مل کر برف کی چٹان کو دھکیل دھکیل کر ساحل تک پہنچا دیا۔ پھر پنگو احتیاط کے ساتھ چٹان سے اترنے میں کامیاب ہو گیا۔ 

اسے ساحل پر پہنچ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔ اس نے دونوں سمندری گھوڑوں کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ امی ابو کو بتائے بغیر کہیں جانے سے توبہ کر لی۔ وہ بھاگا بھاگا امی ابو کے پاس چلا گیا، جو اُس کے لیے پریشان بیٹھے تھے۔ پنگو کو دیکھ کر پہلے وہ بہت خوش ہوئے، پھر اُنہیں غصّہ آگیا اُسے خوب ڈانٹا، پنگو کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا تھا، اُس نے اپنے امی ابو سے معافی مانگی اور آئندہ بغیر بتائے کہیں نہ جانے کا وعدہ کیا۔

دیکھا بچو! امی ابو کو بتائے بغیر کہیں جانے سے آپ کیسے پریشانی میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں، اس لیے جب کبھی کہیں جائیں تو امی ابو یا کسی بڑے کو ضرور بتائیں تاکہ کسی بڑی مصعیبت سے بچ سکیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین