• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشکلوں سے لڑنے والے

اگر تیزی سے ترقی کرتے اس دور میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں، اس کی پیروی کرنے کی بجائے، اسے بدلنے اور بہتر بنانے کی ہمت اور جذبہ اُجاگر کریں۔ اور اگر یہ جذبہ و ہمت کم عمری میں ہی پیدا ہو جائے تو سونے پر سُہاگہ، دنیا آپ پر نہیں بلکہ آپ دنیا پر اثر انداز ہوں گے، دنیا آپ سے متاثر ہوگی۔ ہماری اس بات کی تصدیق ماہرین سماجی سائنس بھی کرتے ہیں، ان کے مطابق جوانی کا دور اہم اور فیصلہ کُن وقت ہوتا ہے۔ 

اس دور میں کیے گئے درست فیصلے اور اقدام بہتر مستقبل کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ ہی وہ دور ہوتا ہے جب صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ وہ نوجوان جن میں تخلیقی صلاحیتوں اور خیالات کو بروےکار لاتے ہوئے دنیا کو بدلنے کا جنون ہو، وہی بہتر معاشرے اور مستقبل کی بنیاد رکھنا جانتے ہیں۔ بلاشبہ انہی کے لیے کہا جاتا ہے کہ، ’’دنیا اسی کی ہے جو اسے بدلنا جانتا ہے‘‘۔ امریکی میگزین فوربز نےدنیا کو بدلنے اور کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سرشار، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تیس کامیاب اور بااثر ایشیائی نوجوانوں کی فہرست شائع کی ہے۔ 

جن میں نو پاکستانی نوجوان بھی شامل ہیں۔ اسے 30 انڈر30 کا نام دیا گیا ہے۔ اس فہرست میں ان نوجوانوں کو شامل کیا گیا ہے، جو اپنے اپنے ملک میں چیلنجنگ ماحول ہونے کے باوجود محنت اور کوششوں سے مثبت تبدیلیاں لانے کے خواہش مند ہیں اور بیشتر اس میں کامیاب بھی رہے۔ آج وہ اپنی صلاحیتوں کے باعث دنیا بھر میں الگ پہچان اور مقام رکھتے ہیں۔ فہرست میں تعلیم، کھیل، فن و ثقافت، ذرائع ابلاغ، انٹر پرائز ٹیکنالوجی سمیت دس شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے پچیس ممالک کے 300 باصلاحیت نوجوان شامل ہیں، جس میں نو پاکستانی بھی ہیں ۔ذیل میں ہونہار پاکستانی نوجوانوں کا مختصر تذکرہ درج ہے۔

سعدیہ بشیر(وڈیو گیم ڈیزائنر)

مشکلوں سے لڑنے والے

کہاجاتا ہے کہ وڈیو گیمز کھیلنے کا شوق صرف مردوں کو ہوتا ہے، لیکن سعدیہ بشیر ایک ایسی پاکستانی نوجوان خاتون ہیں، جنہوں نے ویڈیو گیمز کی دنیا میں نام پیدا کر کے ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح نہیں دی جاتی، ایسے میں وڈیو گیمز کھیلنا اور انہیں تشکیل دینا ایک خواب لگتا ہے۔ سعدیہ نے اپنی محنت اور لگن سے اس خواب کو حقیقت کا رنگ دے دیا ہے۔ انہیں بچپن سے ہی وڈیو گیمز کھیلنے کا شوق تھا، عمر کے ساتھ یہ شوق گیمز تخلیق کرنے میں بدل گیا۔ انہوں نے اسلام آباد میں قائم نجی ادارے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اکیڈمی کی بنیاد رکھی، جو گیم ڈیزائنگ کرتی اور سکھاتی ہے۔ 

وہ پاکستان میں سالانہ گیمز کانفرنس کرواتی ہیں، جس میں بین الاقوامی اسپیکرز بذریعہ وڈیو چیٹ شامل ہوتے ہیں، نیز سماجی معاملات سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے سالانہ گیمز کے مقابلے بھی کرواتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سیلیکون ویلی کے وڈیو گیم ڈیزائنرز کے تعاون سے پاکستان میں تربیتی پروگرامز منعقد کروانا چاہتی ہیں۔ سعدیہ نے کینسر کے مریضوں کی جانب سے مرض کی شناخت، آلودہ پانی سے متعلق آگہی، امن کے پھیلاؤ اور اسے متاثر کرنے والے عناصر کی شناخت پر گیمز تشکیل دیئے ہیں۔ 

وہ خواتین کے مسائل سے متعلق ایک گیم کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہیں، جس میں بحیثیت خاتون یہ گیم کھیل کر اُسے خواتین کے مسائل اور فیصلوں سے آگہی ملے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ، اب وقت بدل چکا ہے، اب خواتین آئی ٹی کے میدان میں بہت نام کما رہی ہیں۔ لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ وڈیو گیمز کی انڈسٹری میں قدم رکھیں، اس طرح نہ صرف وہ اپنا شوق پورا کرسکیں گی بلکہ ان کا ذریعہ آمدنی بھی بڑھے گا۔ سعدیہ کو وویمن انٹرپرئنیورشپ سمیٹ 2016 میں امریکی سفارت اور وویمن کین ڈو کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

عدنان شفیع اور عدیل شفیع ( کاروبای ویب سائٹ کے بانی)

مشکلوں سے لڑنے والے

28 سالہ عدنان شفیع اور 29 سالہ عدیل شفیع آن لائن کاروبای ویب سائٹ کے بانی ہیں، دونوں بھائیوں کو ریٹیل اینڈ ای کامرس کی کیٹگری میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے 2015ء میں ایک ویب سائٹ تشکیل دی، جو الیکٹرونکس کے شعبے میں قیمتوں کے مواز نے کا پلیٹ فارم ہے، یہ نہ صرف ریٹیلرز کو مارکیٹ سے آگاہ رکھتا ہے بلکہ صارفین کو بھی قیمتوں کے حوالے سے بہترین معلومات فراہم کرتا ہے۔ تقابلی جائزہ فراہم کرنے والایہ سرچ انجن پاکستان کے نسبتاً چھوٹے شہروں میں برقی آلات کی قیمتوں میں تقابل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے ریٹیلرز کو اشیاء کی مناسب قیمت اور صارفین کو مناسب قیمت پر اچھی اشیاء مل جاتی ہے۔ 

اس سے قبل آن لائن اسٹورز کی توجہ صرف بڑے شہروں کی جانب تھی۔ ان کی ویب سائٹ کو ہر ماہ لاکھوں افراد دیکھتے ہیں، اس کا اندازہ اس طرح لگا لیجیے کہ گزشتہ ماہ805000 لوگوں نے ان کی ویب سائٹ کا وزیٹ کیا۔ عدیل شفیع نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہم پاکستان میں اس نوعیت کا آن لائن پلیٹ فارم فراہم کرنے والے پائنیر ہیں، جب کہ اس سے قبل یہ کام دیگر ایشیائی ممالک میں ہو رہا تھا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہمارے پارٹنر اسٹور قائم ہیں۔

جہاں ہم اُن اسٹور کو رجسٹر کرتے ہیں جو ہمارے معیار پر پورا اترتا اور صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ ہر کسی کو رجسٹر کرنا ناممکن ہے، کیونکہ آن لائن شاپنگ میں سب سے بڑا مسئلہ اعتبار کا ہوناہے۔ہماری ویب سائٹ رجسٹر شدہ اسٹورز کی مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اور یہ بھی کہ اس اسٹور سے مصنوعات کتنے وقت میں صارف تک پہنچا دی جائیں گی‘‘۔

مومنہ مستحسن (گلوکارہ)

مشکلوں سے لڑنے والے

موسیقی کے معارف پروگرام سے مقبولیت حاصل کرنے والی 25 سالہ مومنہ مستحسن کے پہلے گانے کی وڈیو کو یوٹیوب پر 9 کروڑ 70 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر آن لائن ڈرانے و دھمکانے کے خلاف، خواتین کے حقوق اور ذہنی صحت کے حوالے سے مہم چلائی۔ ذہنی صحت جیسے موضوع پر جہاں لوگ زیادہ بات نہیں کرتے، وہیں انہوں نے اس حوالے سے دو وڈیوز انسٹا گرام پر (depressionisreal)کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کیں، جس میں ذہنی صحت کے حوالے سے مختلف موضوعات پر کھل کر بات کی گئی۔ 

ان کا شمار پاکستان میں سوشل میڈیا کی نمایاں اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں ہوتا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کی پوسٹس کو ہر ماہ اوسطً 2 کروڑ افراد دیکھتے ہیں۔ مومنہ مستحسن جب خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہیں تو انہیں سنا جاتا ہے، کیونکہ وہ بہت سنجیدہ موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں، جن میں لڑکیوں کے لیے لڑکوں کے مساوی مواقع، اجرت اور عزت شامل ہیں۔ انہیں 2017ء میں بی بی سی کی جانب سے جاری ہونے والی ’’سو متاثرکن خواتین‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ ( طبی میدان کے مسیحا)

مشکلوں سے لڑنے والے

عالمی ادارے صحت کی جانب سے 2006ء میں جاری ہونے والی فہرست کے مطابق، پاکستان کا شمار ان 57 ممالک میں ہوتا تھا، جہاں طبی میدان میں عملے اور مہارت کی شدید قلت تھی۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر دو پاکستانی تخلیقی ذہن کے حامل شخصیات، 24 سالہ محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ نے طبی ادارہ قائم کیا۔ جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے مریضوں کے لیے کم خرچ میں اعلیٰ معیار کے طبی آلات اور مصنوعی اعضاء فراہم کرنا ہے۔ یہ پاکستان کے علاوہ افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضاء کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے، جہاں مریضوں کو مناسب سہولیات میسر نہیں یا ان تک ان کی رسائی ممکن نہیں۔ 

ابراہیم علی شاہ کے مطابق، ’’مارکیٹ میں دستیاب مصنوعی اعضاء، اصلی اعضاء کی جگہ تو لے لیتے ہیں، لیکن یہ کام نہیں کر سکتے۔ پہلے مصنوعی اعضاء کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اترنا، گاڑی چلانا، بھاگنا یا پتھریلے راستوں پر چلنا ممکن نہیں تھا، لیکن ہمارے تیار کردہ جدید مصنوعی اعضاء میں حقیقی اعضاء کی مانند گرفت ہے ۔‘‘ یہ اعضاء مکمل طور پر پاکستان، فیصل آباد میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اس ادارے کے سی ای او محمد اسد رضا کو ایشیا پیسفک آئی سی ٹی ایوارڈز میں کلائی تمغے سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ 2017ء میں بین الاقوامی سطح پر ہونے والے ’’گلوبل اسٹوڈنٹ انٹرپرئنیور ایوارڈ‘‘ میں تیسرے نمبر پر آئے۔

محمد شہیر نیازی (سائنسداں)

مشکلوں سے لڑنے والے

’’میں پاکستان کے لیے ایک اور نوبل پرائز لانا چاہوں گا‘‘ یہ الفاظ ہیں کم عمر پاکستانی طالب علم ’’محمد شہیر نیازی‘‘ کے، جنہوں نے اپنی تحقیق سے دور حاضر کے ماہر طبعیات کو حیران کردیا۔ لاہور کے رہائشی شہیر نے برقی چھتوں یعنی ’’الیکٹرک ہنی کوم‘‘ پر کی گئی تحقیق، میں ’’تیل کی سطح پر حرارت کے فرق‘‘ کا پہلو اُجاگر کیا گیا۔ شہیر نے اس عمل کی تصویر کشی بھی کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ 

ان کی تحقیق پر مبنی مقالہ، جو انہوں نے 16 برس کی عمر میں لکھا تھا، گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں رائل سوسائٹی اوپن سائنس جرنل نے شائع کیا ۔ یہ جریدہ دنیا بھر سے سائنس، ریاضی اور انجینئیرنگ کے میدان میں ہونے والی تحقیقات شائع کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نیوٹن کا پہلا تحقیقاتی مقالہ 17 برس کی عمر میں اسی رسالے میں شائع کیا گیا تھا۔ جب کہ شہیر نیازی کا تحقیقی مقالہ جب مذکورہ جرنل کو اشاعت کے لیے بھیجا گیا ،تو وہ سولہ برس کے تھے اور اسی وقت اشاعت کے لیے قبول کرلیا گیا تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ، پاکستان میں سائنسی علوم کی تحقیق کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ برقی چھتوں کے عمل سے حاصل ہونے والے علم کا استعمال بائیو میڈیسن، پرنٹنگ اور انجینیئرنگ میں ہوتا ہے۔ اس طریقے کار سے ہم برقی رو یا تیل کے ذریعے دوا کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں شہیر فزکس سمیت دیگر علوم میں ایجادات کرکے دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی سائنسدان دیگر ممالک سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ پُرعزم ہیں کہ مستقبل میں قوم کے لیے نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

حمزہ فرخ

مشکلوں سے لڑنے والے

پاکستان کے تقریباً 85 فیصد علاقوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جن میں بیشتر دیہی علاقہ جات شامل ہیں۔ یہاں رہنے والوں کو صاف پانی کے حصول کے لیے گھنٹوں پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صاف پانی میسر نہیں ۔ آلودہ پانی پینے کے باعث لوگ بیمار ہو جاتے ہیں۔ حمزہ فرخ بھی 1998ء میں چکوال کے ایک نواحی گاؤں میں کنویں کا آلودہ پانی پینے سے بیمار ہو گئے تھے۔ لیکن امریکا میں جب دورانِ تعلیم انہیں ایک سماجی منصوبے پر کام کرنے کا موقع ملا تو انہیں سب سے پہلے اپنے گاؤں کا خیال آیا اور اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حمزہ فرخ نے ’’بوندِ شمس‘‘ نامی منصوبہ قائم کیا۔ 

جس کا مقصد پاکستان کے دیہی علاقوں میں پینے کے لیے صاف پانی کی کمی کو پورا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والے دو کنوئیں بنائے گئے ہیں، جو ایک گاؤں کے 1500 افراد کو صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔ آٹھ ہزار ڈالرز کی لاگت سے تیار ہونے والا ایک کنواع، پچیس برس تک روزانہ 5000 لوگوں کے لیے صاف پانی نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب تک حمزہ ایسے تین منصوبے شروع کر چکے ہیں، جنہیں بعدازاں مقامی لوگوں کے حوالے کا کر دیا گیا ہے۔ 24 سالہ حمزہ فرخ ویلیئم کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔

فیضان حسین

مشکلوں سے لڑنے والے

23 سالہ فیضان حسین پیری ہیلین سسٹم نامی ادارے کے خالق ہیں۔ فطری طور پر کم گو فیضان میٹرک کے بعد فلاحی اداروں میں رضاکار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اپنی تعلیم کو بروے کار لاتے ہوئے، ایسے منصوبوں پر کام کیا جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد فراہم کرسکیں۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ایجو ۔ ایڈ‘‘ نامی سافٹ وئیر تخلیق کیا، جو قوتِ گویائی سے محروم افراد کی اشاروں کی زبان ایسے لوگوں کو سمجھانے میں مدد فراہم کرتا ہے، جنہیں اشاروں کی زبان نہیں آتی، بعدازاں انہوں نے ’’ون ہیلتھ‘‘ کے نام سے ایک ایسے منصوبے پر بھی کام کیا، جس میں ایک بڑے علاقے میں مقیم لوگوں کی صحت سے متعلق کوائف اور ہسٹری کو یکجا کیا گیا، جس کی مدد سے ڈاکٹرز کو مرض کی تشخیص اور علاج میں معاون ثابت ہو۔ 

ان کی ایک ایجاد ’’گلو گیج‘‘ بھی ہے، یہ ایک ایسا دستانہ ہے جسے صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کے لیے بنایا گیا۔ اس میں بیک وقت متعدد سہولیات ہونے کی وجہ سے کام کرنے والوں کو ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ آلات رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، تاہم اس دستانے کی قیمت کم سے کم سات سے دس ہزار روپے تھی، اس لیے ایک ایسا ملک جہاں ایک مزدور کی آمدن ہی زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے ماہانہ ہو، وہاں کوئی انہیں خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن فیضان حسین کا کہنا ہے کہ ’’ان کی مصنوعات کا مقصد پاکستانی عوام کو سہولت دینا ہے، اس لیے انہوں نے اس کی بیرونِ ملک فروخت کے بارے میں نہیں سوچا‘‘۔

تازہ ترین