میاں محمد شہزاد مقبول مڑل
پاکستان ایک زرعی ملک ‘جس کی آبادی کا غالب حصہ شعبہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ قیام پاکستان سے آج تک ہمارا کاشتکار معاشی بدحالی کا شکار رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہماری حکومتیں زراعت کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتیں تاکہ ملک زرعی شعبہ میں خود کفالت کی منزلیں طے کرتا ۔ آج ہمارا ملک تیلدار اجناس جیسی بنیادی غذائی فصلیں درآمد کے بجائے دوسرے ممالک کو برآمد کر رہا ہوتا افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ حکومتی پالیسیوں اور دیگر عوامل کے باعث کسان بطور خاص چھوٹے کاشتکار زراعت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کے منفی اثرات ابھی سے ہمارے سامنے آ رہے ہیں ۔ اور مستقبل میں اگر یہ رجحان برقراررہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس سے بھی زیادہ خوفناک غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تیلدار اجناس کی کاشت کیلئے افسر شاہی نے گزشتہ سال پلان تیار کیا کہ کسانوں کو کینولا اور سورج مکھی کی کاشت کرنے پر 5 ہزار روپے سبسڈی دی جائے گی ۔ صوبائی سیکرٹری زراعت پنجاب کیپٹن (ر) محمد محمود نے تیلدار اجناس کاشت کرنے والوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ کینولا اور سورج مکھی 25 سو روپے فی من تک خرید کی جائے گی مگر آج سورج مکھی اور کینولا 15 سو روپے فی من سے اوپر کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ سیکرٹری زراعت پنجاب کو تیلدار اجناس کے نرخوں کے بحران پر کوئی وعدہ یاد نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت نے گندم کی کاشت کیلئے کسانوں کو 13 سو روپے فی من فروخت کرنے کا اعلان کیا مگر آج گندم کے نرخوں کا بھی بحران ہے ‘ حکمران آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔ کاشتکار بھی کماد ، گندم اور تیلدار اجناس کے نرخوں کے بحران کا بدلہ مسلم لیگ ن کے حکمرانوں سے آئندہ الیکشن میں ووٹ کی شکل میں لیں گے جس طرح پیپلزپارٹی سے 2013ء کے الیکشن میں عوام اور کسانوں نے بدلہ لیا تھا۔ اب مسلم لیگ ن کا حشر اس سے بھی برا ہونے والا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کسان آئندہ فصلوں کی کاشت کیلئے مہنگے ڈیزل اور بجلی کے زرعی ٹیوب ویلوں پر غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باوجود انحصار کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے جنوبی پنجاب کا نہری نظام بند ہے۔ جب سے وفاقی وزیر برائے قدرتی پانی سید جاوید علی شاہ بنے ہیں‘ جنوبی پنجاب کی ششمائی نہروں کے ساتھ سالانہ نہریں بھی بند پڑی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں کھیتی باڑی کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت نے عام لوگوں کی فلاح اور بہبود کیلئے کبھی کوئی مثبت قدم نہیںاٹھایا ہے۔ کسان ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ اسے کسی حال میں اس کی فصل کا جائز معاوضہ نہیں ملتا۔ ہمیشہ مڈل مین سارا منافع لے جاتا ہے جبکہ کاشتکار سارا سال محنت کرنے اور اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود مقروض ہی رہتا ہے ۔ اس کے گھر میں فاقوں کا راج رہتا ہے۔ ملک کی نقد آور فصل کپاس کی بیجائی کا سیزن شروع ہونے سے قبل محکمہ زراعت توسیع پنجاب کے فیلڈ اسسٹنٹ ایسوسی ایشن 26 مارچ 2018ء سے دفاتر میں دھرنے دے کر ہڑتال پر ہیں جن کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کو اقساط پر نئی موٹرسائیکل دی گئیں ہیں جن سے نقد 4 ہزار روپے قسط ‘3 لیٹر پٹرول اور سمارٹ موبائل فون پر ایک ہزار روپے کا بیلنس بھی لگتا ہے۔ اس طرح 20 ہزار روپے تنخواہ لینے والا 15 ہزار کے اخراجات کرکے کس طرح بال بچوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ فیلڈ اسسٹنٹ ایسوسی ایشن ملتان کے صدر غلام مصطفی نے بتایا کہ محکمہ زراعت کے افسروں کو 26 سے 27 لاکھ روپے مالیت کے نئے ڈبل کیبن ڈالے دیئے ہیںجن کا فیلڈ میں کوئی کام نہیں۔ ان سے نہ اقساط لی جا رہی ہیں بلکہ ایک ہزار لیٹر پٹرول بھی ماہانہ دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ 50 ہزار روپے ماہانہ ٹی اے ڈی اے بھی وصول کر رہے ہیں۔ موبائل فون کے علاوہ ان کو لیپ ٹاپ بھی فراہم کردیئے ہیں۔فیلڈ اسسٹنٹ ایسوسی ایشن والے کہتے ہیں، جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں کئے جاتے وہ ہڑتال پر رہیں گے۔ ہڑتال سے کاٹن زون میں فصل کپاس کی بیجائی کے تربیتی پروگرام بند ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی پانی کے نمونوں کا کام بھی گزشتہ ایک ماہ سے بند ہے۔ کاٹن زون ‘ پنجاب بھر میں کیمیائی اور زہریلی زرعی ادویات کے نمونے لینے کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے جس کا افسروں کو احساس تک نہیں بلکہ افسراپنے دفاتر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ کہ کسانوں کا استحصال کرنے والے طبقے انتہائی منظم اور مضبوط ہیں۔ اس کے مقابلے میں کاشتکاروں کو کسی بھی زرعی قومی ایشو پر منظم نہیں دیکھا گیا ہے۔ ان کی فصلیں کھیتوں میں پڑی گل سڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ اگر کماد کپاس کی پیداوار اچھی ہو تو اس کی قیمت اتنی کم کردی جاتی ہے کہ اس کی لاگت بھی بمشکل پوری نہیں ہوتی۔ گندم کی فصل اچھی ہو جائے تو مراکز خریداری پر انہیں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ان فصلوں کی پیداوار کم ہو تو سارا فائدہ پھر بھی مڈل مین ہی اٹھا ہے۔ بجلی ، کھاد ، زرعی ادویات اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوںمیں آئے روز اضافے نے کسانوں کو اذیت ناک صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے۔
کاشتکاروں کیلئے پانی کی کمی ایک اور سنگین مسئلہ کے طور پر سامنے ہے جس پر موجودہ حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ تین چار موٹر ویز بنا ڈالے ہیں۔ صحت اور تعلیم پر تھوڑی بہت توجہ دی ہے مگر پانی زندگی ہے۔ اس پر کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی فصلوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی پیداواری میں کمی کا رجحان جاری ہے۔ وزارت زراعت پنجاب کی عارضی اور فرضی پالیسیوں سے نہ صرف کسان تنگ آچکے ہیں بلکہ ماہرین زراعت اور زرعی سائنسدان بھی پریشان ہیں۔ موجودہ سیکرٹری زراعت نے 5 برس قبل ریٹائرڈ ہونے والے افسروں کو بھاری تنخواہوں اور مراعات پر اہم ذمہ داریاں دی ہوئی ہیں‘ جو کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ ان کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ ، 28 بڑی بڑی نئی گاڑیاں عالیشان دفتر اور دیگر مراعات دے دہی ہیں جس سے حاضر سروس افسرکافی پریشان ہیں۔ جس کی وجہ سے شعبہ زراعت کی ترقی کے بجائے تنزلی ہو رہی ہے۔ عارضی پراجیکٹس بنائے جا رہے ہیں جس میں کمیشن مافیا کافی متحرک ہے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے ایگری کلچر ڈویلپمنٹ یونٹ بنایا گیا جس کی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس طرح ایگری کلچر ریسرچ بورڈ سمیت دیگر فصلوں کے بورڈز بھی آج تک کوئی اہم پیش رفت نہیں کر پائے ہیں بلکہ پہلے سے موجود اداروں کی کارکردگی بھی صفر ہوتی جا رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں سفارش اور سیاسی بھرتیوں سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ نئے ادارے بنانے کی بجائے پرانے اداروں کو بااختیار، جدید اور فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ارباب اختیار کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اگر ملک کا کاشتکار خوشحال ہوگا تو ملک بھی ترقی کرے گا۔ ملک کو زرعی اجناس ‘ سبزیوں ‘ پھلوں میں خودکفیل بنانا ہوگا تو عارضی پراجیکٹس بنانے کی بجائے حاضر سروس ماہرین سے کام لیا جائے۔ صوبائی سیکرٹری زراعت پنجاب کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ پنجاب زرعی حوالے سے ملک کی جان ہے۔ پنجاب میں تمام فصلوں کی کاشت سے لے کر برداشت تک ماہر اور تجربہ کار زراعت افسروں کو آگے لانا ہوگا۔ نوجوان زرعی گریجویٹس کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ ریٹائرڈ ماہرین زراعت کا علم پرانا ہوچکا ہے۔ اب ان سے فیلڈ میں کام کروانا ناممکن ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے والے ماہرین زراعت اور زرعی سائنسدانوں کو آگے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ان پڑھ سادہ کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروانے کیلئے پہلے عملی تربیت دینی ہوگی۔ سمارٹ فون سمیت دیگر مراعات دینے سے قبل ان کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ آج تک کسانوں کو فاسفورس کھاد کے کوپن پر سبسڈی نہیں مل سکی۔ کروڑوں روپے کی سبسڈی ‘کمپنیاں اور افسر ہڑپ کر گئے ہیں۔ کسانوں کو براہ راست مراعات دی جائیں۔ ان کو بھکاری نہ بنایا جائے۔ فی ایکڑ 5 ہزار روپے ، سمارٹ فون اور زرعی آلات دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ان کو وافر پانی معیاری اور سستی کھاد ، اصل بیج ، سستی بجلی کی سہولت دی جائے‘ پٹواری کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ زرعی قرضوں پر شرح سود ختم کی جائے۔ ان کی فصلوں کا معقول معاوضہ دیا جائے۔ کسان خوشحال ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔