• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلپائن میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد کم، مواقع زیادہ ہیں

پاکستانیوں کی بڑی تعدادفکر معاش کے لیے دنیا بھرمیںمقیم ہے اور یہی پاکستانی اپنی محنت کی کمائی سے پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔دنیا کے بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ماضی میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد مقیم تھی تاہم بہت سے معاشی اور سیاسی حالات کی بناء پر اب ان ممالک میں پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ،ایسے ہی ممالک میں فلپائن بھی شامل ہے، جہاں ستّراور اسّی کی دہائی میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی مقیم تھے ،جو فلپائن میں کاروبار اور تعلیم کے حصول کے لیے مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے تھے، لیکن پھر پاکستان اور فلپائن کے تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری اور حکومت پاکستان کی درخواست پر بھی فلپائن کی حکومت نے پاکستانیوں کے لیے ویزے کی شرائط میں سختی کی اور آہستہ آہستہ نہ صرف پاکستانی طالب علم بلکہ ملازمت اور کاروبار کے لیے مقیم پاکستانی بھی فلپائن سے نکلتے گئے ، اور اب حالات یہ ہیں کہ فلپائن میں مجموعی طور پر صرف ڈیڑھ سے دوہزار پاکستانی مستقل طور پر آباد ہیں، جن کی تعداد میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ 

اس حوالے سے گزشتہ دنوں فلپائن کے دورے کے دوران کئی معروف پاکستانی کاروباری شخصیات اور فلپائن میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر امان راشد سے طویل گفتگو کا موقع ملا اور ان سے اصل صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی ۔

فلپائن میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد کم، مواقع زیادہ ہیں
فلپائن میں پاکستان کے سفیر امان راشد, مہمانوں کے ہمراہ

فلپائن میں پاکستان کے سفیر امان راشد نے کہا کہ ان کی فلپائن میں تعیناتی کو بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے تاہم چندماہ میں اتنا ضرور جان سکا ہوں کہ فلپائن اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اضافے کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے ،یہاں کے لوگ پاکستانیوں کو پسند کرتے ہیں اور پاکستان کا امیج بھی بہت بہتر ہے جبکہ یہاں کاروبار کے بھی بہترین مواقع ہیں جس کے لیے پاکستانی سرمایہ کاریہاں آکر بہترین کاروبار کرسکتے ہیں ، جس کے لیے ہم پاکستان میں کاروباری شخصیات اور تنظیموں سے رابطے میں ہیں جبکہ کراچی میں فلپائن کے اعزازی قونصل جنرل ڈاکٹر عمران یوسف بھی بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو فلپائن میں سرمایہ کاری اور فلپائن کے ساتھ تجارت کے لیے بہترین طریقے سے رابطے میں ہیں ۔ سفیر پاکستان نے کہا کہ فلپائن آسیان تنظیم کا اہم رکن ہے لہذا فلپائن کے ساتھ تجارت پر آسیان کے ممالک کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں کافی چھوٹ ہے جس سے پاکستان کی اشیاء کافی مہنگی پڑتی ہیں کیونکہ پاکستان کو وہ سہولیات حاصل نہیں ہیں جو آسیان کے ممالک کو حاصل ہیں ،اسی وجہ سے پاکستان قیمت میں آسیان ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتااور اپنی اشیاء کی مارکیٹ حاصل کرنے سے قاصر ہے لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فلپائن میں انڈسٹری لگائی جائے تو پاکستانی آسیان ممالک میں بہت بڑی منڈی حاصل کرسکتا ہے ۔جہاں تک پاکستانی کمیونٹی کی تعداد کی بات ہے تو اس حوالے سے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کمیونٹی کی تعداد ڈیڑھ سے دو ہزار تک ہے جو تعلیم ، کاروبار اور ملازمت کے حوالے سے یہاں مقیم ہیں تاہم سفارتخانے سے رابطہ بہت کم رکھتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ تمام پاکستانی ہم سے رابطے میں رہیں تاکہ ہمیں بھی اپنی کمیونٹی کے حوالے سے معلومات رہیں ۔

فلپائن میں مقیم سینئر پاکستانی محمد اسلم سے بھی طویل ملاقات ہوئی اور فلپائن میں پاکستانیوں کے لیے حوالے سے بھی اہم معلومات حاصل ہوئیں ، محمد اسلم تقریباََ تین دہائیوں سے فلپائن میں مقیم ہیں ،اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک مقامی خاتون سے شادی کی اور چار بچوں کے والد ہیں ۔محمد اسلم فلپائن میں ایک معروف صنعت کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ،ان کا فلپائن کی حکومت میں کافی اثروسوخ بھی ہے جبکہ پاکستانی سفارتخانے سے بھی قریبی رابطہ رہتا ہے ، محمد اسلم نے بتایا کہ ان کے فلپائن کی حکمراں جماعت سے قریبی رابطہ ہے جبکہ یہاں کے صدر سے بھی ان کے ذاتی مراسم ہیں ۔محمد اسلم کا تعلق ٹیکسٹائل کی صنعت سے ہے اور ان کے ادارے میںپانچ سو سے زائد ملازم کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے منیلا کے معروف علاقے میں اعلیٰ معیار کا ریستوران بھی چلاتے ہیں ،جس کے لیے سبزی سے لے کر گوشت تک ان کے اپنے فارم ہاؤس سے آتا ہے ۔محمد اسلم کے مطابق ان کے فارم ہاؤس پر سبزیاں اگائی جاتی ہیں جبکہ بکرے اور گائے تک وہیں ذبح ہوتے ہیں تاکہ ان کے ریستوران میں آنے والوں کو تازہ اور بہترین کھانا فراہم کیا جاسکے ۔ محمد اسلم کے مطابق اگر حکومت پاکستان چاہے تو نہ صرف فلپائن سے کاروباری شخصیات پاکستان جاسکتی ہیں بلکہ پاکستانی سرمایہ کاری کے لیے بھی فلپائن بہت بڑی مارکیٹ ہے ،لیکن دیکھا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے فلپائن پر توجہ کافی کم ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں ہے جو ماضی میں ہوتی تھی تاہم اگر حکومت پاکستان چاہے تو اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں ،جس میں اعلیٰ ترین حکومت شخصیات کا دورہ پاکستان بھی ممکن ہوسکتا ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر گرمجوشی پیدا ہوسکتی ہے ،جہاں تک دونوںممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بات ہے تو واقعی کافی کم ہے تاہم کراچی میں فلپائن کے تعینات ہونے والے نئے اعزازی قونصل جنرل ڈاکٹر عمران یوسف بہترین کوششیں کررہے ہیں جس سے امیدہے کہ دونوںممالک کے تجارتی اور کاروباری تعلقات میں جلد گرمجوشی پیدا ہوگی ۔ فلپائن کے اس دورے کے دوران ہی دوائو میں مقیم سینئر پاکستانی ملک ریاض جیلانی سے بھی ہوئی جو بنیادی طور پر جاپان میں مقیم ہیں او ر فلپائن میں کافی بڑی سرمایہ کاری کرکے جاپان سے فلپائن کے لیے گاڑیوں کی برآمد شروع کی ہے ، ملک ریاض جیلانی جن کا تعلق راولپنڈی سے ہےاور جاپان میں یاشیو سے ہے جو خود بھی مسلم لیگ ن جاپان کے سینئر نائب صدر بھی ہیں نے بتایا کہ فلپائن میں جاپان سے بہت بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے گاڑیوں کا کاروبار شروع کیا ہے جس میں بڑے ٹرک اور چھوٹی کمرشل گاڑیاں فلپائن لائی جاتی ہیں اور فلپائن میں انھیں رائٹ سے لیفٹ ہینڈ کیا جاتا ہے۔ ملک ریاض کے مطابق جاپانی گاڑیوں اور ٹرکوں کی فلپائن میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے اور بڑی تعداد میں پاکستانی یہاں کاروبار میں مصروف ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ جاپان میں مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں کی فلپائن میں سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ، ملک ریاض کے مطابق پاکستان یا جاپان سے فلپائن آنے والوں کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ فلپائن میں کرپشن اور فراڈ بہت زیادہ ہے لہذا سب لوگ انتہائی احتیاط سے یہاں کام کریں اور جعلسازوں اور فراڈیوں سے بچیں۔

تازہ ترین