نوید عصمت کاہلوں
کپاس دنیا کی ایک اہم ترین ریشہ دار فصل ہے۔ اس سے لباس اور کپڑے کی دوسری مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بنولے کا تیل بناسپتی گھی کی تیاری کے لئے بطور خام مال استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پنجاب کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ مجموعی پیداوار کاقریباً 70 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ کپاس کی کاشت کے مرکزی علاقوں میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، ساہیوال اور رحیم یار خان کے اضلاع شامل ہیں۔ جبکہ ثانوی علاقوں میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، بھکر، میانوالی، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع شامل ہیں۔
کپاس کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے ایسی زرخیز میرا زمین بہتر رہتی ہے جو تیاری کے بعد بھربھری اور دانے دار ہو جائے۔ اس میں نامیاتی مادہ کی مقدار بہتر ہو، پانی زیادہ جذب کرنے اور دیر تک وتر قائم رکھنے کی صلاحیت بھی موجود ہو۔ زمین کی نچلی سطح سخت نہ ہو تا کہ پودے کی جڑوں کو نیچے اور اطراف میں پھیلنے میں دشواری نہ آئے۔ اس لیے زمین کی تیاری کے لئے گہر ا ہل چلائیں اور زمین کی ہمواری بذریعہ لیزر لیولر کریں تاکہ پودے کی جڑیں آسانی سے گہرائی تک جاسکیں اور وتر دیر تک قائم رہے۔ پچھلی فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے انہیں اچھی طرح زمین میں ملانا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے روٹا ویٹر، ڈسک ہیرو یا مٹی پلٹنے والا ہل استعمال کریں تاکہ بوائی میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ سبز کھاد کے طور پر استعمال ہونے والی فصلوں کو 30 دن پہلے وتر زمین میں دبا دیا جائے اور کھیت میں دبانے کے 10 دن کے اندر اندر پانی لگا دیا جائے تاکہ سبز کھاد اچھی طرح گل سڑجائے۔ گلنے کے عمل کو تیز کرنے کے لئے فصل کو زمین میں دباتے وقت آدھی بوری یوریا فی ایکڑ ڈالیں۔ کپاس کا پودا گرمی کو پسند اور سردی کو نا پسند کرتا ہے۔ کچھ کاشتکار سبزیوں کے بعد یا دوسری فصلوں سے خالی ہونے والی زمین یا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کی حکمت عملی کے تحت کپاس کی فصل کو جلدی کاشت کر رہے ہیں۔ اگیتی کاشت کی وجہ سے کیڑوں خاص طور پر گلابی سنڈی اور رس چوسنے والے کیڑوں کے کپاس کی فصل پر حملہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ٰلہٰذا کپاس کی فصل کو سفارش کرد ہ وقت پر کاشت کیا جائے۔ گندم کی کٹائی کے بعد بی ٹی اقسا م کا انتخاب موزوں علاقے، دستیاب وسائل مقامی معلومات اور گزشتہ سالوں کے تجربات کی روشنی میں کریں۔
ضلع ملتان کیلئے ایف ایچ 142، آئی یو بی 2013، ایم این ایچ 988، سی آئی ایم 600، سی آئی ایم 598، سا ئیٹو178، سائیٹو179، اے جی سی999، اے جی سی 777، ضلع خانیوال کیلئے ایم این ایچ 886، وی ایچ 305، ایف ایچ 142، آئی یو بی 2013، ایم این ایچ 9 88، سی آئی ایم 600، سی آئی ایم 598، سائیٹو 178، سائیٹو 179، اے جی سی 999، اے جی سی 777، ضلع وہاڑی کیلئے ایف ایچ 142، وی ایچ 259، نیاب 878، وی ایچ 305، کیمب 33، سی آئی ایم 598، ستارہ 11، آئی یو بی 2013، ضلع لودھراں کیلئے سا ئیٹو178، سائیٹو 179، ایف ایچ 142، بی ایچ 178، سی آئی ایم 602، اے جی سی 999، ضلع ڈی جی خان کیلئے ایم این ایچ 886، ایف ایچ 142، ٹارزن 3، اے جی سی 999، نیاب 878، سی آئی ایم 602، ضلع مظفر گڑھ کیلئے آئی یو بی 2013، ستارہ 11، ایف ایچ 142، سائیٹو 179، ضلع لیہ کیلئے ایم این ایچ 886، سائیٹو 179، آئی یو بی 2013، ایف ایچ 142، وی ایچ 305، اے جی سی 999، ستارہ 11، ضلع راجن پور کیلئے ایم این ایچ 886، ایف ایچ 142، ٹارزن 3، اے جی سی 999، نیاب 878، سی آئی ایم 602، ضلع بہاولپور کیلئے ایف ایچ 142، ایم این ایچ 886، بی ایچ 178، آئی یو بی 2013، سی آئی ایم 600، سی آئی ایم 602، ایف ایچ لالہ زار، وی ایچ 305، سائیٹو 178، ضلع رحیم یار خان کیلئے ایم این ایچ 886، ایف ایچ 142، ایف ایچ 114، اے جی سی 999، سی ٓائی ایم 598، یو جی سی 09، بی ایچ 178، ضلع بہاولنگر کیلئے ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ 142، ایم این ایچ 886، اے جی سی999، بی ایچ سائیٹو 179، ضلع ساہیوال کیلئے آئی یو بی 2013، ایف ایچ 142، سائیٹو 179، ایم این ایچ 886، نیاب 878، ٹارذن 3، ضلع فیصل آباد کیلئے ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ 142، نیاب 878، نبجی3، ضلع جھنگ کیلئے ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ 142، نیاب 878، نبجی 3 اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کیلئے ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ 142، نیاب 878، نبجی 3 اقسام کا وقت کاشت یکم اپریل تا 31 مئی ہے۔
بی ٹی اقسام کی کاشت کے ساتھ کھیت میں روایتی (غیر بی ٹی) اقسام کی موجودگی بھی ضروری ہے تاکہ حملہ آور سنڈیوں میں بی ٹی اقسام کے خلاف قوت مدافعت پیدا نہ ہوسکے اس لئے کاشتکاروں کو چاہئے کہ ان کے کل کاشتہ رقبہ کپاس کا 10 سے 20 فیصد لازمی طور پر روائتی اقسام پر مشتمل ہو۔ مزید یہ کہ اگر بی ٹی اقسام کے ساتھ 20 فیصد رقبہ پر روایتی اقسام کاشت کی ہوئی ہیں تو ان پر کیڑے کا حملہ معاشی حد سے بڑھنے کی صورت میں کیڑے مار زہر سپرے کیا جائے۔ کپاس کی کاشت کے لئے سفارش کردہ اقسام کا معیاری، تندرست، خالص اور بیماریوں سے پاک بیج استعمال کرنا چاہئے۔۔
10 کلوگرام بیج کی بُراُتارنے کے لئے ایک لٹر گندھک کا تجارتی تیزاب کافی ہوتا ہے۔ بیج سے بر اتارنے کے لئے اب مارکیٹ میں مخصوص مشینیں بھی دستیاب ہیں۔ بر اتارنے کے لئے ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ جب بیج سیاہی مائل چمکدار ہو جائے تواس کو بہتے ہوئے پانی کے اُوپر رکھے ہوئے چھاننے میں ڈال دیں اور بالٹی میں پانی بھر کر چھاننے میں بیج پر گرائیں اور بیج کو اچھی طرح سے دھوئیں تاکہ بیج تیزاب سے پاک ہو جا ئے۔ دھوتے وقت نا پختہ، ناقص بیج پانی کی سطح پر تیر آتا ہے جبکہ پختہ اور توانا بیج پانی میں نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ نیچے بیٹھنے والے بیج کو دھوپ میں اچھی طرح خشک کرکے پٹ سن کی بوریوںیا کپڑے کے تھیلوں میں بھر کر خشک اور ہو ا دار گودام میں اس طرح رکھیں کہ ہوا کا گزر نچلی بوریوں کے نیچے بھی باآسانی ہو۔ بیج کو کھلے فرش (چاہے پختہ ہو یا کچا) پر ہر گز سٹور نہ کریں۔ اس سے بیج کا اگائو متاثر ہوتا ہے۔ بیج کو سٹور کرنے کے لئے نائلون اور پلاسٹک کے تھیلے ہرگز استعمال نہ کریں۔ گلابی سنڈی سے متاثرہ جڑے ہوئے بیج چن کر ضائع کر دیں۔ بوائی سے پہلے بیج کو مناسب کیڑے مار زہر لگانا بہت ضروری ہے جس سے فصل ابتداء میں تقریباً ایک ماہ تک رس چوسنے والے کیڑوں خاص طور پر سفید مکھی سے محفوظ رہتی ہے جو کہ پتہ مروڑ وائرس کی بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔ بیج کو زہر آلود کرنے سے فصل کی بڑھوتری بہتر ہوتی ہے اور بیماری سے کم متاثر ہوتی ہے۔
اس سال پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس تقریباً60272من بیج موجود ہے۔ جو کہ کارپوریشن کے علاقائی سیل ڈپوئوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مستند پرائیویٹ سیڈکمپنیوں سے بھی بیج حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کپاس کی کاشت خریف ڈرل کے ساتھ قطاروں میں اڑھائی فٹ کے فاصلہ پر کرنی چاہیے اور بیج دو سے اڑھائی انچ (پانچ سے سات سینٹی میٹر) کی گہرائی تک بوئیں۔ اس طرح کاشت کی گئی فصل میں جب اس کا قد ڈیڑھ سے دو فٹ ہو جائے تواس کے بعد پودوں کی ایک لائن چھوڑ کر دوسری لائن پر مٹی چڑھا کر پٹڑیاں بنا دیں۔ پانی کی کمی کے پیش نظر ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ پانی کی 20 تا 30 فیصد تک بچت ہوتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کا کنٹرول آسان ہوتا ہے۔ فصل کا قد مناسب رہتا ہے۔ ہاتھ سے بیج لگانے کی صورت میں پہلے نالیوں میں 6 تا 7 انچ (15تا 7.5 سینٹی میٹر) کی گہرائی تک پانی لگائیں۔ پانی لگانے کے فوراً بعد پانی کی سطح سے ایک انچ(2.5سینٹی میٹر) اوپر ہاتھ سے بیج لگائیں۔ اگر ناغے رہ جائیں تو دوسرے پانی کے وتر میں پورے کریں۔ بیج کا اگائو اچھا اور پودوں کی پوری تعداد حا صل ہوتی ہے۔ تھوڑے وقت میں زیادہ رقبے پر کاشت ہو سکتی ہے۔ روائتی کاشت کی نسبت پانی کی بچت ہوتی ہے۔ بارش کے نقصانات سے بچت ہوتی ہے۔ ہاتھ سے بیج لگانے کی صورت میں بیج کی بچت ہوتی ہے۔ بارش اور آبپاشی کی صورت میں بھی سپرے کرنا آسان ہوتا ہے۔ فصل کی بڑھوتری مناسب ہوتی ہے۔ کلراٹھی زمینوں میں اگائو بہتر ہوتا ہے۔ کلراٹھی باڑہ زمینوں میں کاشت کھیلیوں (Ridges) یا پٹڑیوں (Bed & Furrow) پر کی جائے۔ اگر بوائی کے دوسرے یاتیسرے دن بارش ہو جائے جس سے زمین کے سخت ہونے کااندیشہ ہو تو وتر کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ کاشت کرنا بہتر ہے۔ نشیبی کھیتوں میں کپاس کی فصل کاشت نہ کریں اگر کاشت کرنی مقصود ہو تو کھیلیوں یا پٹڑیوں پر کاشت کریں۔