• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماحولیاتی انجینئرنگ

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت نے جہاں انسانیت کو ترقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے وہیں سیکولر اور آزاد طرزِ زندگی نے انسانیت کو وہ گہن لگا دیا ہے جس کی واضح مثال کائنات کے ماحول کی تباہی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ آئندہ صدیوں کا سب سے بڑا اورگمبھیر مسئلہ قواعد و ضوابط سے آزاد صنعتی ترقی ہے جس کے نتیجے میں کرئہ ارض پر نوع انسانی کی بقا اور زندگی دائو پر لگ چکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ صنعتی پیداوار کی دوڑ میں کارخانوں اور فیکٹریوں سے روزانہ بہت بڑی مقدار میں صنعتی فضلہ جات اور زہریلے مادے خشکی، پانی اور فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔ 

ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے پاس آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ زیادہ مہلت نہیں ہے۔ اگر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے اور آلودگی پر قابو نہ پایا جاسکا تو آئندہ دو صدیوں میں کرئہ ارض پر ہر قسم کی انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی نیست و نابود ہوسکتی ہے۔

ماحولیاتی انجینئرنگ

کیوںکہ آلودگی کے مسئلے کا سامناسب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک کو کرنا پڑا اس لیے انھوں نے ہی سب سے پہلے اس پر قابو پانے پر توجہ دی۔ لیکن تیسری دنیا کے ملکوں میں آلودگی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی اور ہنوز زبانی جمع خرچ ہے زیادہ کام ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان میں بھی صنعتی آلودگی کا مسئلہ زیرِ غور ہے۔ آلودگی کے مسائل پر توجہ، غور و خوض اور تحقیق کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیوں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ 

آلودگی پر کنٹرول کے لیے ایک آرڈیننس بھی جاری ہوچکا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آلودگی کی افزائش کو روکنے کے لیے مزید قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت تربیت یافتہ کارکنوں اور سائنس دانوں کی تیاری کو دی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں میں مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں کو تربیت اور تحقیق کی ذمہ داری تفویض کر دی گئی ہے۔ چناںچہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ماحولی تحفظات کو اب جو ترجیح اور اہمیت دی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں کیریئر پلاننگ کے نقطہ نظر سے ماحولیات کا شعبہ بے حد اہمیت اختیار کرجائے گا۔

کام کی نوعیت

ماحولیات کا مضمون ماحولی تبدیلیوں، ان کے انسانی صحت پر اثرات اور ماحولی تحفظات کے طریقوں سے بحث کرتا ہے۔ چناںچہ ماحولیات کے طالب علم کو آلودگی اور اس کے محرکات کا وسیع مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ ماحولیات کا طالب علم زمین، فضا اور پانی میں آلودگی کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی اسے اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات کا علم بھی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیوںکہ اس کا اصل کام آلودگی کا مشاہدہ، اس کی جانچ پڑتال اور آلودگی پر کنٹرول ہے۔ اس کا زیادہ تر کام آلات کی مدد سے آلودہ ذرّات کے نمونے جمع کرنا، ان کا تجزیہ کرنا، ان کے اثرات کا تعین کرنا اور آلودگی کے تدارک کے لیے اقدامات تجویز کرنا ہے۔ اس پورے عمل میں میدانی و فضائی تحقیق اورمشاہدے کے علاوہ وسیع تجربہ گاہی تحقیقات شامل ہیں۔

پاکستان میں ماحولیات کی تعلیم

پاکستان کی چار جامعات میں ماحولیات کی تعلیم ہوتی ہے۔ ان میں این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی، مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی، لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی شامل ہیں۔

این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی میں اگرچہ ماحولیات کا مضمون سول انجینئرنگ کے بیچلرز ڈگری پروگرام کا حصہ ہے لیکن پوسٹ گریجویٹ تعلیم این ای ڈی کے ’’انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمینٹل انجینئرنگ اینڈ ریسرچ‘‘ میں ہوتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ 1986میں قائم کیا گیا۔

ماحولیاتی انجینئرنگ

ایم ایس سی (ماحولیاتی انجینئرنگ) کی تدریس شام اور صبح دونوں اوقات میں ہوتی ہے۔ شام کا تعلیمی پروگرام تین سال اور دن کا تعلیمی پروگرام دو سال پر محیط ہے۔ ایک تعلیمی سال دو سمسٹرز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک سمسٹر کی فیس ڈیڑھ ہزار روپے ہے۔ امتحانات کی فیس اس کے علاوہ ہے۔

لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کی تعلیم انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں دی جاتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ1972ئمیں قائم ہوا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ماسٹرز ڈگری، پی ایچ ڈی اور شارٹ کورسز میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کے مضمون میں جو ڈگری دی جاتی ہے وہ ’’ایم ایس سی ان پبلک ہیلتھ انجینئرنگ‘‘ کہلاتی ہے۔

مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی، انوائر نمینٹل انجینئرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے، جب کہ کراچی یونی ورسٹی ماحولیاتی سائنس میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے۔

نصاب

مختلف یونیورسٹیوںکا نصاب درج ذیل شکل میں تدوین کیا گیا ہے۔

لازمی: اطلاقی شماریات اور کمپیوٹر ریاضی۔ اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات۔ آب، گنداب کی اصلاح اور انجینئرنگ۔ ماحولیاتی انجینئرنگ لیبارٹری۔ ماحولیاتی (حلقہ جاتی کارروائی و عملیہ)۔ موزوں ٹیکنالوجی (سیمینار)

اختیاری نصاب: ٹھوس فضلہ جات کی نظمیات (سالڈ ویسٹ مینجمنٹ) صنعتی گندے پانی کی آلودگی اور کنٹرول۔ اطلاقی آبیات۔ فضائی آلودگی اور شور پر تحدید (کنٹرول)۔ ماحولیاتی انجینئرنگ میں نمونہ کاری (ماڈلنگ)۔ اصلاحِ آب اور دوبارہ استعمال۔ ماحولیاتی اثرات اور معیاری نظمیات (کوالٹی مینجمنٹ)۔ تحقیقاتی مطالعہ (ریسرچ اسٹڈی)۔

اطلاقی شماریات اور کمپیوٹر ریاضی متعارف کرانے کا اصل مقصد مستقبل کے ماہرینِ ماحولیات میں نمونہ بندی، تخمینہ سازی، شماریاتی جانچ پڑتال اور نتائج کا تجزیہ کرنے میں کمپیوٹر کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح چوںکہ ماحولیاتی تحقیق کا دائرئہ عمل زمین، پانی اور فضا میں پائی جانے والی آلودگی ہے اس لیے طلبہ کو پانی، گندے پانی، ہوا، ٹھوس گنداب (ایسا گندہ پانی جس میں ٹھوس اجزا زیادہ ہوں) آکسیڈیشن، خورد نامیات کے کیمیائی اور حیاتیاتی عوامل کے تجربات کے لیے اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات میں مہارت حاصل ہونا ضروری ہے۔ 

گندے پانی کے دوبارہ استعمال کے لیے اس کی اصلاح کرنے والے آلات اور دیگر تنصیبات کی ضروری تربیت بھی اس میں شامل ہے۔ طلبہ کو ماحولیاتی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ میں کافی وقت گزارنا ہوتا ہے اور اس کے استعمالات کی تربیت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ طلبہ ماحولیاتی علوم کے موضوع پر پاکستان اور دوسرے ترقیاتی ملکوں کے تعلق سے سیمیناروں میں شریک ہوتے ہیں۔ 

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ یا گندے پانی کی نظمیات اس تربیت کا اہم ترین جزو ہے۔ تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں بلدیاتی گنداب کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ روز بہ روز شدت اختیار کر رہا ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ اس گنداب میں کارخانوں اور فیکٹریوں کے فضلہ جات کی شمولیت نے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔چناںچہ دنیا بھر میں ماہرین کے درمیان اس امر پر کلی اتفاق ہے کہ اس گنداب کو اگر اصلاح اور درستی کے بغیر دریائو?ں، سمندروں اور جھیلوں میں ڈالا جاتا رہا تو آئندہ صدیوں میں کرئہ ارض کا پانی اتنا آلودہ اور زہریلا ہوجائے گا کہ صاف پانی کا حصول ناممکن بن جائے گا۔ 

ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی اور شور و غل کے مسائل انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں مثلاً کراچی شہر کے وسط میں تبت سینٹر سے لے کر کیپری سینما تک کے علاقے میں اتنی فضائی آلودگی ہوتی ہے کہ چند گھنٹے اس فضا میں گزارنے والے انسان کی اوسط عمر طبعی پانچ سال کم ہوجاتی ہے۔ شور و غل بھی آلودگی کی ایک قسم ہے جس سے درجنوں اقسام کی ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

تازہ ترین