• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولر جیو انجینئرنگ اور موسمیاتی تبدیلیاں

صادقہ خان

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے متعلق ماہرین نے کافی عر صے پہلے ہی نشان دہی کر دی تھی ۔گزشتہ سوسالوں میں زمین کے درجۂ حرارت میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ،اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئی بلکہ ایک طرف انٹار کٹیکا کے بر فانی گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث پورے برا عظم غرق ِآب ہونے کے در پر ہیں تو دوسری جانب افریقا ،ایشیا اور امریکا میں ریکارڈ خشک سالی کی وجہ سےپانی اور خوراک کا بحران روز بہ روز شدت اختیار کررہاہے۔

اسی صورت حال کو بھانپتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے ترقی یافتہ مما لک کو ' پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ ' کے ذریعے پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے ملک میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑ ھتی ہوئی شرح کو کنٹرول کریں، تاکہ عالمی درجۂ حرارت ایک خاص تناسب سے تجاویز نہ کر جائے، مگر بد قسمتی سے امریکا سمیت زیادہ تر ممالک اس کوشش میں ناکام ہو چکے ہیں اور فی الوقت دنیا کا درجۂ حرارت پیرس ایگریمنٹ کی مقرر کردہ حدسے 2 ڈگری سینٹی گریڈبڑھ چکاہے اور ا مکا ن ہے کہ 2018میں اس میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا۔

دنیا بھر میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبد یلیو ں کی زد میںسب سے زیادہ جزیرہ اور جزیرہ نماریاستیں آ ئی ہیں اور فی الوقت ان کو اپنی بقا کے حوالے سے شدید خطر ا ت کا سامنا ہے، کیوں کہ سمندروں کے پانی میں بڑھتی ہوئی کاربن کی شرح ان کو نگلتی جا رہی ہے ،ا س کی وجہ سے ان کا حجم مسلسل کم ہو رہاہے جن میں بنگلا دیش اور فلیپائن جیسے ممالک سر ِ فہرست ہیں۔یہاں یہ امر قا بل ِ ذکر ہے کہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں صرف پسماند ہ یا ترقی پزیر ممالک ہی نہیں آئے ہیں بلکہ امریکی ریاستوں اور یورپ کو بھی اس کے باعث مشکل حا لات کا سامناہےاور یہاں بھی گرمیوں میں سمندری طو فان ، ٹورناڈو، موسم ِسرما میں برفانی طوفان کئی کئی ہفتو ں تک نظام ِ زندگی مفلوج کرنے کا سبب بن رہے ہیں ، مگر گلوبل وارمنگ کے بد ترین اثرات چھوٹے اور پسما ندہ ممالک میں زیادہ نو ٹ کیے گئے ہیں، کیوں کہ ان کی حکومتوں کے پاس بڑے پیمانے پر ان مسائل سے نمٹنے کے وسائل نہیں ہیں۔

لہٰذا ان شدید حالات سے نمٹنے کے لیے ترقی پزیر ممالک کے چند سائنسدانوں نے کچھ عرصے قبل سورج کی حرارت و روشنی کو روکنے کا ایک منصوبہ بنایا جسے’’ ' سولر جیو ا نجینئرنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ایک مقالے کے مطابق اگر زمین کے ماحول میں ایک مناسب بلندی پر ایرو سول پارٹیکلز کا چھڑکاؤ کیا جائے تو اس سے سورج کی ر وشنی و حرارت کی شدت کو روکا جاسکتاہے ۔1991 میں ماؤنٹ پیناٹوبو میں شدید دھماکے سے آتش فشاں پھٹنےکے بعد کئی ماہ تک دھوئیں اور راکھ کے بادل ان علاقوں پر چھائے رہے تھے اور فضا میں سلفر ڈائی آ کسائیڈ کی کافی مقدار شامل ہو جانے کے باعث کئی سال تک یہاں کا درجۂ حرارت بڑھ نہیں پایا تھا،اس سے سا ئنس دانوں کو یہ آئیڈیا ملا کہ اگر عارضی طور پر ایک خاص بلندی پر 50 میگا ٹن سلفر کا چھڑکاؤ کیا جائے جو ماؤنٹ پینا ٹوبوسے خارج ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقد ا رسےچار گنازیادہ مقدارہے۔اس طرح تقریباًدوسال تک زمین پردرجۂ حرارت میں اضافہ نہیں ہوگا اور گلوبل وارمنگ کی بدولت ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو کچھ عرصے کے لیے لگام ڈالی جا سکے گی۔ لیکن کئی جانب سے اس پر مختلف سوالات اٹھائے گئے کہ کیا اتنی مقدار میں سلفر کئی اور بڑی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب تو نہیںبنے گی ؟

سولر جیو انجینئرنگ کی یہ تکنیک ابھی ابتدائی تحقیقاتی مرحلے میںہے اور مختلف ممالک کی جانب سے اس کے بارے میں ملا جلا رجحان سامنے آیا ہے۔ تقریبا ً ایک عشرے سے اس پر تحقیقات کی جارہی ہیں کہ کہیں اس تکنیک سے مون سون کا سسٹم تبدیل نہ ہوجائے، جس سے ایشیائی ممالک میں موسم ِ گرما میں بارشیں ہوتی ہیں ،مگر گزشتہ 4، 5 سال میں مون سون کی بارشیں ویسے ہی بے قاعدگی کا شکار ہیں ،کچھ علاقوں میں حد سے زیادہ تو کہیں نہ ہونے کے برابر دیکھنے میں آئی ہیں۔ 

علاوہ ازیں دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کے باعث زمین پر آباد مختلف النوع جاندار وں کی نسل سر ِ سے معدوم ہوچکی ہے تو کئی میں ایسی جسمانی تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں جو لا محالہ کسی نئے المیے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ لہٰذا یہ وقت بڑے فیصلے مانگ ر ہا ہے اور ترقی پزیر ممالک نا صرف اپنی بلکہ یہا ں آباد نباتات ، حیوانات اور حشرات کی بقا کے لیے مل کر کوئی ایک حکمت ِ عملی طے کرنے کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں ۔ 

اگرچہ پیرس ایگریمنٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ میں اہم کردار بڑھتی ہوئی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسز نے ادا کیا ہے، جس کے زیادہ ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں ، لیکن اس کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ترقی پذیر ، پسماندہ اور چھوٹے جزیرہ نما ممالک زیادہ آئے ہیں اور اس وقت یہ موضوع سب سے زیادہ زیر ِ بحث ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوںسے ہونے والانقصان پورا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ چونکہ ہر ملک کی اپنی فضائی حدود ہیں اس لیے سولر جیوا نجینئرنگ پر تحقیقی کام کو آگے بڑھانے کے لیے پہلے دنیا بھر کے ممالک کو پیرس ایگریمنٹ کی طرح کا کوئی معائدہ کرنا ہوگا، تاکہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کسی بڑے جھگڑے یا عالمی جنگ کا سبب نہ بن جا ئیں ۔ 

اس کے علاوہ کون سے علاقوں میں سلفر کی کتنی مقدار کا اسپرے کرنا ہوگا ، اس کا فیصلہ کرنا بھی ایک مشکل امر ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا اس تکنیک سے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پر قابو پایا جا سکے گا یا پھر دیگر موسمیاتی تبدیلیاں جیسے زمینی و جنگلی حیات کو در پیش خطرات ، ساحلوں کا کٹاؤ اور بر اعظم انٹارکٹیکا کی تیزی سے پگھلتی برف اور اس کے باعث بڑے شہروں کے غرق ِ آب ہونے کے خطرے سے بھی نمٹا جا سکے گا یا نہیں ۔ لہٰذا پہلے پہل اس پر مکمل تحقیق اور چھوٹے پیمانے پر تجربات کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ تکنیک بڑے پیمانے پر دنیا کے مختلف خطوں میں مسلسل استعمال کی جائے تو لا محالہ بڑھتے ہوئے گلوبل درجۂ حرارت پر کچھ عرصے کے لیے قابو پایا جا سکتا ہے ، کیوں کہ گرین ہاؤس گیسوں کا مکمل خاتمہ اگلے کئی عشروں میں بھی ممکن نظر نہیں آرہا، جس کی وجہ انسان کی اپنی سرگرمیاں ہیں ۔ 

کچھ عرصے قبل اس منصوبے پر تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیےرائل سوسائٹی آف لندن نے سولر ریڈی ایشن مینجمنٹ کے نام سے ایک تنظیم اور نیویارک کی ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز نے اٹلی کے مالی تعاون سے ماحولیاتی دفاعی فنڈ بھی قائم کیا تھا ، جس کی مدد سے گذشتہ تین برسوں میںاس حوالے سے بنگلا دیش ، چین ، برازیل ، ایتھوپیا ، انڈیا ، جیمیکا ، کینیا ، تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں باقاعدگی سے ورک شاپس منعقد کی جاتی رہی ہیں، جب کہ پاکستان اور فلیپائن کے سائنسدانوں نےموسمیاتی تبدیلیوں اور سولر جیو انجینئرنگ کی تکنیک پر مشترکہ تحقیقات کا آغاز بھی کیا ہے ۔

اگرچہ سولر انجینئرنگ پر اب تک کی جانے والی تمام تحقیق کمپیوٹر سے بنائے گئے ماڈلز پرمشتمل ہے ، مگر زمین کا اپنا ایک نظام ہے، جس کے مطابق بعض اوقات غیر متوقع واقعات و تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں اور موسمیاتی تغیرات کے باعث کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے جسے کمپیوٹر ماڈل کے ذریعے قبل از وقت معلوم نہیں کیا جاسکتا ، مگر ایک مکمل پلاننگ ضرور کی جا سکتی ہے، تاکہ کسی بھی اچانک نا گہانی صورتحال سے بروقت نمٹا جا سکے ، جس طرح قدرتی آفات کے لیے دنیا بھر میں ارلی وارننگ سسٹم اور ریموٹ سینسنگ کی تکنیک استعمال کی جارہی ہے ، جس سے زلزلہ ، سیلاب ، طوفان میں گھرے افراد کی فوری مدد ممکن ہوئی ہے ۔ 

انسان نے اپنی سرگرمیوں سے کرۂ ارض کے قدرتی ماحول کو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور فی الوقت بنی نوع ِ انسان مزید کسی بڑی کوتاہی کا متحمل نہیں ہوسکتا ، اس لیے ضروری ہے کہ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی قدم مکمل تحقیق کے بعد اٹھایا جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین