• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید مبارک

وہ شام کو تھکا ہارا کام سے واپس گھر آ رہا تھا، صبح عید تھی ،مگر اس کے پاس چند سو روپوں کےسواکچھ نہیں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ان روپوں سے کیا ہو گا، ان ہی سوچوں میں گم وہ مطلوبہ ویگن میں سوار ہو گیا، وہ سر جکھائے بیٹھا تھا کہ اچانک اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے اس نے بجلی کا ننگا تار پکڑ لیا ہو، اس کے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی اور کیوں نہ ہوتی کیونکہ سامنے والی سیٹ کے نیچے ایک ہزارروپے کا نوٹ پڑا تھا۔ وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ کبھی نوٹ کی طرف دیکھتا اور کبھی اردگرد بیٹھے لوگوں کو، اس نے جھک کر نوٹ اٹھانا چاہا تو برابر بیٹھے ہوئے نوجوان نے اسے گھور کر دیکھا، جس سے وہ بوکھلا گیا کہ شاید اس نوجوان کی نظر نوٹ پر پڑ گئی ہے لیکن یہ اس کا وہم تھا،کچھ دیر گزرنے کے بعد بھی جب نوجوان چپ بیٹھا رہا تو اس نے ایک مرتبہ پھر نوٹ اٹھانے کی کوشش کی ،جلدی اور کچھ بے دھیانی میں اس کا سر سامنے والی سیٹ سے جا ٹکرایا، اس سیٹ پر بیٹھے افراد اُسے گھور گھور کر دیکھنے لگے تو اُس نے کہا،’’معاف کرنا بھائی نیند کی وجہ سے سر ٹکرا گیا‘ ، پھر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا لیکن اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا، اس نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی ،اس مرتبہ قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور وہ نوٹ اٹھانے میں کامیاب ہو گیااور جلدی سے اس نےاسے جیب میں رکھ لیا، اب وہ تھا اور اس کے خیالات ، بیوی بچوں کی خواہشات اس ہزار کے نوٹ سے کسی حد تک پوری ہو سکتی تھیں۔

یہی سوچتے ہوئے اس کا اسٹاپ آ گیا۔ وہ فورا چھلانگ لگا کر ویگن سے اترا تو اسے خود پر حیرت ہوئی، خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے، وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا تیز تیز قدم اٹھاتا گھر پہنچ گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کر لیا، جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالا اور کھول کر اسے چومنے لگا لیکن فوراََ ٹھٹھک کر رہ گیا، اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور دماغ چکرانے لگا کیونکہ نوٹ اصلی نہیں جعلی تھا اور اس کے اوپر تحریر تھا ‘عید مبارک ہو‘‘۔

(مہک علی)

تازہ ترین