شمیم الدین غوری
یہ حقیقت ہے کہ پرندے کسی بھی شہر کا حُسن اور جنگلوں کی زینت ہوتے ہیں ۔تیس پینتیس سال پہلے کراچی میں پرندوں کے غول کے غول اڑتے نظر آتے تھے۔گرو مندربندر روڈ،گٹر باغیچہ، گاندھی گارڈن اور دیگر آبادیوں میں جگہ جگہ پیپل ، بڑ،گولر ،شریں،بیری، آم ،گوندنی اور دیگر دیسی درخت لگے ہوتے تھے ۔ان پر گلہریاں چڑھتی اترتی نظر آتی تھیں۔ چڑیاں،فاختائیں ،بلبلیں،مینائیں ،پدّی چڑیائیں،گھونسلے بنا کر رہتی تھیں۔طوطوں کی ٹیں ٹیں اور کوئل کی کوک سنائی دیتی تھی۔ درمیانے اور غریب طبقے کےچھوٹے گھر تھے ہر گھر ایک ، دو کمروں کے علاوہ صحن میں پھول دار پودے اور پھل داردرخت ہوتے تھے۔ آم، امرود،بیر،پپیتہ، وغیرہ کے درخت تقریباً ہر گھر میں ہوتے تھے۔ان پر پرندے اپنے گھونسلے بناتےاور ہر وقت چہچہاتے نظر آتے تھے۔ رنگ برنگی تتلیاں بھی پھولوں کے چکر لگاتی نظر آتی تھیں ۔پیپل ،پیپلی ،گولر اور گوندنی کے پھل کے سیزن میں ہزاروں تلیر وں کی ڈاریں کی ڈاریں ان کا پھل کھانے کے لئے اڑتی نظر آتی تھیں۔ باغیچہ انواع و اقسام کےپرندوں سے بھرا ہوتا تھا ۔یہاں پدّی چڑیا،لال منیا،تیتر،بٹیر،جنگلی مرغی،ہد ہد ،نیلٹاس،شکرے،مینا فاختہ،تلیر اور بہت سے پرندے پائے جاتے تھے، پھر ایسا کیا ہو اکہ پرندے ہم سے روٹھ گئے،ہمیں چھوڑگئے۔ آج کی نئی نسل صرف کبوتر اور چیل کوؤں کے علاوہ ،دوسرے پرندوںکو دیکھنے کے لیے ترستی ہے۔
ان پرندوں کے مسکن کی تباہی کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔کراچی کی تمام سڑکیں جو سنگل تھیں اور ان کے گرد پیڑ لگے تھے۔ ان کوڈبل کرنے کے خاطر وہ سارے درخت کاٹ دئیے گئے، جو ان کے کناروں پر لگے تھے۔ تمام کشادہ سڑکوں پر جو بنگلے تھے جن میں درخت لگے تھے ان کو کمرشل کر کے پلازے بنا دئیے اور درخت ختم کر دئیے۔درمیانی طبقے کے مکانات جن میں درخت تھے ان میں ضرورت کے تحت کمروں اور منزلوں کاا اضافہ کرکے درختوں کا صفایا کر دیا گیا۔تمام چورنگیاں جن میں کچھ پھول ،پودے ہوتے تھے، تالابوں میں مچھلیاں ہوتی تھیں سب ختم کر کے سگنل لگا دئیے ۔کتنے ہی ایسے پلاٹ جو خالی تھے یا رفاعی پلاٹ تھے ، ان میں بھی درخت ہوتے تھے۔ان پر قانونی یا غیر قانونی آبادیاں بن گئیں یوں پرندوں کے مسکن اجڑ گئے فلیٹ سسٹم ایجاد ہوا تو جنگلوں کی جگہ عمارتوں کے جنگل بن گئے۔ گٹر باغیچہ جس میں کاشت کاری بھی ہوتی تھی اور پھلوں کے باغات بھی تھے اس کی زرعی زمین سے پہلے کاشت کاری ختم ہوئی،پھر اس میں ایک پارک بنایا گیا، جس میںکونو کارپس کے در خت لگائے گئے ۔ جنہوں نے باقی تمام درختوں کا صفایا کر دیا۔ان درختوں پر صرف اور صرف کوے بسیرا کرتے ہیں۔ فیکٹریوں کا کیمیکل زدہ پانی اس پارک میں مستقل چھوڑا جاتا ہے، جس سے زمین کالی اور پودے برباد ہو گئے۔ گٹر با غیچہ کا جو حصہ باقی بچا اس میں پلاٹنگ کردی گئی ۔ایک وقت تھا جب اس باغیچے میں متعدد جڑی بوٹیاں پائی جاتی تھیں ۔اب اس کی ساری بہار اور ہریالی ختم ہوگئی ہے ۔ ملیر کے باغات کو بجری مافیا کھا گئی۔ملیر کے باغات ہزاروں ایکڑ پر تھے۔ملیر ندی پر چالیس سال سے لگی بجری نکالنے پر پابندی کے باوجود یہ مجرمانہ کاروائی جاری رہی۔اس سے باغات سوکھ گئے اور زمینوں کو بلڈرز کے حوالے کر دیا گیا ۔گاندھی گارڈن میں اب بھی بے شمار پرانے درخت ہیںلیکن جو درخت مرگیا اس کا نعم البدل نہ لگ سکا۔درخت اب بڑھاپے کی جانب رواں دواں ہیں۔اس کا تالاب کم کر دیا گیا۔ورنہ یہ قدرت کے شاہ کارپرندوں کا بہت بڑا مسکن تھا۔اس میں ہمارے عام پرندوں کے علاوہ آبی پرندے بھی آکر رہتے تھے۔کشمیر رو ڈ کے سامنے جھیل تھی جسے جھیل پارک بنایا، بعدازاں اس میں سے جھیل ختم کر دی گئی یوں کراچی سے بیا پرندے کا واحد مسکن بھی چلا گیا۔بیا جو پانی میں لٹکتے گھونسلے انتہائی صنّاعی سے بناتا ہے۔
شہر میں درخت لگانے کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کی ہے ۔پہلے انہوں نے کھجور کے لمبے لمبےدرخت لگائے جو اپنی عمر پوری کرنے کے قریب تھے۔ان میں سے آدھے تو لگاتے ہی مر گئے اور جو باقی بچے وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد سن 2003 ءکی لوکل گورنمنٹ کی وزارت نے سڑکوں، پارکوں، ا سکولوں اور دفاتر میں سفیدے کے درخت لگانے پر ساری توانائیاں اور بجٹ لگا دیا۔جواز اس کا ماحول کی بہتری تھی۔ نہ سوچا نہ سمجھا کہ اس کی افادیت کیا ہے اور اس کے مضر اثرات کیا ہیں ۔یہ درخت تیزی سے بڑھتا ہے اور زمین کا پانی انتہائی تیزی سے بخارات بنا کر اُڑا دیتا ہے۔اس نے زیر زمیں پانی کو بری طرح خرچ کرنا شروع کیا۔ اس کو پرندوں اور دیگر جانوروں نے مسترد کر دیا۔ اس پر کوّے تک بسیرا نہیں کرتے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں نمی کا تناسب سمندری ہواؤں کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے۔یہاں پر دمہ، کھانسی اور الرجی جیسی بیماریوں میں اضافہ ہوا۔ ماہرین ماحولیات نے اس کی وجہ یوکلپٹس کا پولن بتائی۔ اس کے لگانے سے پہلے اسلام آباد میں اس کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا ۔اب یہ درخت راندہء درگاہ ہوا اور اس کے کاٹنے کا حکم جاری ہوا۔ساری محنت اکارت گئی۔ کئی بلین کا دھڑن تختہ ہوا ۔ دھڑا دھڑ ان درختوں کا صفایا شروع کیا اور اب یہ درخت کراچی میں اُگانا منع ہے۔
2009 ءمیں کراچی کمپری ہنسو پلان کے تحت شہر کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لئے درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا۔اس میں طے ہوا کہ کراچی شہر میں ہر قسم کے پودے لگائے جائیں گے۔2٫2 ملین درخت لگائے گئے تمام کے تمام کونوکارپس تھے۔ یہ درخت پردیسی تھے۔یہ افریقااورجنوبی امریکا میں پائے جاتے ہیں۔ماہرین ماحولیات نے اس قسم کے درخت لگانے کے نقصانات سے آگاہ کیا تھا۔ اس درخت سے ہونے والے نقصانات بھی بتائے تھے۔ یہ درخت یوکلپٹس کی طرح زمینی پانی کا بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔اس طرح کراچی، جس میں پہلے ہی پانی کی کمی ہے وہ زمینی پانی سے بھی محروم ہو رہا ہے۔اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے ارد گرد کے تمام درختوں اور پودوں کو بڑھنے سے روکتا ہے اور ان کا صفایا کر دیتا ہے۔پولن کی مقدار بہت زیادہ خارج کرتا ہے ،جس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ کراچی میں دو سال پہلے جو گرمی کی جان لیوا لہر آئی تھی اس پر تحقیق کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ یہ درخت بھی ان اموات میں معاون ہے۔اس کی بو پرندوں کو بیزار کرتی ہے۔ پرندے ان دونوں پودوں کی وجہ سے شہر چھوڑ گئے ۔ پرندوں کو جب کھانے کے لئے پھل نہیں ملیں گے ،گھونسلے بنانے کے لئے درخت نہیں ہوں گےتو وہ کہیں دوسرے ٹھکانے کا بندوبست کریں گے ۔ اب پھر کمشنر کراچی کی جانب سے ایک حکم جاری ہوا ہے کہ کو نو کار پس درخت خریدنا ،بیچنا اور لگانا جرم ہے ۔ علاوہ ازیںجنگلی حیات کو پکڑنا اور فروخت کرنا منع ہے۔ اس میں طوطے ،چڑیاں ،بلبل،مینا سمیت تمام وہ پرندے شامل ہیں جو قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ اس شہر میں ویسے ہی پرندوں کی کال ہے ۔اس پر طرّہ یہ کہ کراچی کے گرد ونواح میں جہاں کہیں کچھ پرندے باقی رہ گئے ہیں ان کا آزادانہ جال سے شکارجاری ہے۔ بیا جو ایک آبی پرندہ ہے، جس کے مسکن تالابوں پر جھکی شاخیں ہوتی ہیں۔ان کو کراچی کے سگنلز پر پیسے لے کر آزاد کیا جاتا ہے ۔وہ تمام پرندے جو ان سگنلز سے آزاد کئے جاتے ہیں ایک دو کلو میٹر پرواز کے بعد بھوک ، پیاس سے بے حال ہو کر مر جاتے ہیں۔کراچی میں پر ندوں کو بیچنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ،ہمیں ان روٹھے ہوئے پنچھیوں کو واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ۔اس میں سب سےپہلاقدم تو یہ ہے کہ شجر کاری زمین پر کرنی ہوگی کاغذات پر نہیں۔ جو درخت لگائے جائیں ان میں ہمارے ماحول میں رچنے بسنے کی صلاحیت ہوں ۔ جن درختوں کے پھل پرندے کھاتے ہیں ان کو ترجیح دی جائے۔ان درختوں میں نیم،بکائن،پیپل پیپلی،گولر، املتاس ،گوندنی اور بڑ شامل ہیں۔بیری، آم اور امرود کے درخت بھی پرندوں کو پسند ہوتے ہیں۔ سایہ دار دختوں میں شیشم اور نیم بہترین درخت ہیں ۔ابھی تک جن دو ناکام درختوں پر کروڑوں روپےضائع ہوئے اس کا محرک صرف یہ تھا کہ یہ بلدیاتی پانچ سال کی مدت میں ہی بڑے ہو کر لوگوں سے واہ واہ وصول کرا دیں گے۔ہوا بھی ایسالیکن اس شارٹ کٹ سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔یوکلپٹس کو کٹوا دیا گیا اور کونو کارپس کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجود کٹوانے کی ہمت نہیں کی گئی۔دیسی درخت دیر سے جوان ہوتے ہیں لیکن ماحول دوست اورپائیدار ثابت ہوتے ہیں۔دوسرا بڑا اہم قدم پرندوں کی اعلانیہ غیر قانونی تجارت پر عملی پابندی لگانا ہے۔اخبارات میں کتنے ہی کالم اس غیر قانونی تجارت پر لکھے گئے ہیں۔مختلف چینلز نے بارہا ایسے پروگرام پیش کئے ہیں جن میں پرندوں کی اس غیر قانونی تجارت کے تمام پہلو دکھائے گئے ہیں لیکن کوئی سدباب نہیں ہوا۔جب تک یہ پابندی عملی طور پر نہیں لگے گی پرندے کراچی میں رہنے کے لئے آزاد نہیں ہوں گے۔تیسرا قدم لوگوں کی سوشل میڈیا سے اس جانب توجہ مبذول کرانا ہے کہ وہ آزاد پرندوں کی خرید میں قطعی حصہ نہ لیں۔نہ انہیں خرید کر گھر میں رکھیں ۔