ابنِ انشا
میں اس آگے والے آدمی کے ہاتھوں بہت تنگ ہوں، میں جس قطار میں بھی کھڑا ہوتا ہوں یہ صاحب مجھ سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ میں بھاگم بھاگ ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہوں، مجھے کوئٹہ کی گاڑی پکڑنی ہے، اس کے چلنے میں پانچ منٹ باقی ہیں، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مجھ سے پہلے کھڑا بکنگ کلرک سے ہم کلام ہے اور اس نے اپنی کہنیاں کھڑکی کے چھجے پر جما رکھی ہیں، اس شخص کو ہفتہ بھر بعد لاڑکانہ جانا ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ راستے میں کہاں گاڑی بدلی جائے گی، صبح سے آدھی رات تک کون کون سی ریلیں جاتی ہیں، ان میں کیا کیا درجے ہیں اور ہر درجے کا کرایہ کتنا ہے، آیا گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئی رعایت ملتی ہے ، پوری بارات جانی ہو تو کتنے کا ٹکٹ بنتا ہے۔ اس دوران دوسری کھڑکی کی قطار برابر کھسک رہی ہے، لوگ ٹکٹ لے رہے ہیں ، جا رہے ہیں، میں تنگ آ کر اس کھڑکی کا رخ کرتا ہوں۔ چھ آدمیوں کے بعد میری باری آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو صرف فارم ملتے ہیں، اتنے میں میری گاڑی نکل جاتی ہے۔
جب میں ڈاک خانے جاتا ہوں تو کاؤنٹر پر پہلے سے ایک شخص کئی لفافے اور پیکٹ لیے کھڑا ہوتا ہے اور سب کی منزلیں مختلف ہوتی ہیں، سب کے وزن الگ الگ کراناہے۔ ان میں ایک پیکٹ جزائر غرب الہند کے کسی جزیرےبھیجنا ہے، کلرک کو یہ دیکھنے کے لیے اٹھنا پڑتا ہے کہ غرب الہند کہاں واقع ہے، پھر وہ کتاب دیکھتا اور بڑے ڈاک خانے فون کرتا ہے، وہ لوگ اسے انتظار کرنے کا کہتے ہیں، میں دوسری کھڑکی پر جاتا ہوں تو وہاں ایک اور شخص ہے ،جس کے پاس پچاس روپے کا نوٹ ہے، لفافے وہ لے چکا ہے اور اتنے روپے یعنی پچاس کا کھلا کلرک کے پاس نہیں۔
سینما میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، اس شو کا آخری ٹکٹ لینے کے لیے ،اس کے بعد بکنگ کلرک ”ٹکٹ ختم“کی تختی لگا دیتا ہے۔ ابھی پرسوں میں بینک گیا، رقم نکلوانی تھی، وہاں کسی دفتر کا سپرنٹنڈنٹ مجھ سے پہلے موجود تھا، وہ سارے دفتر کے لوگوں کے چیک لے کر آیا تھا کہ ایک ساتھ کیش ہو جائیں اور ہر ایک کو وقت نہ ضائع کرنا پڑے، روپے لینے کے بعد اس نے سب کے پراویڈنٹ فنڈز میں ان کی رقمیں جمع کرائیں، سب کا حساب الگ الگ بنایا پھر دو تین نئے اکاونٹ کھولے، اتنے میں ایک بج گیا، کلرک نے مجھے کہا, ”صاحب! اب آپ کل نو بجے آئیے ۔“یہی ماجرا ہرجگہ پیش آتا ہے۔ سڑک پر گاڑی لے کر نکلے تو اپنے سے آگے والا مزے مزے سے سیٹی بجاتا پندرہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتا ہے اور سڑک خالی بھی نہیں کرتا۔
زیب النسا سٹریٹ پر مجھے گاڑی کھڑی کرنی ہوتی ہے، مگر سب جگہیں بھری پڑی ہیں، کوئی خالی نہیں۔ بس ایک جگہ خالی ہے، اس میں یہ شخص مجھ سے ایک منٹ پہلے اپنی گاڑی گھسا دیتا ہے اور مجھے پھر چکر کاٹ کر آنا پڑتا ہے۔ اس دوران اس کی بیوی سامنے کی دکان سے کچھ خرید کر آ رہی ہوتی ہے، میں اس کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کھڑی کرتا ہوں کہ یہ نکلے تو میں جگہ لوں، میرے روکنے سے راستہ رک جاتا ہے اور پیچھے کاروں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے۔ وہ شخص اپنی گاڑی چلاتا ہے، میری جان میں جان آتی ہے لیکن پھر انجن بند کر دیتا ہے کیونکہ اس کی بیوی خریدی گئی شے لوٹا کر دوسری چیز لینا چاہتی ہے، مجھے پھر دو گلیوں کا چکر کاٹ کر آنا پڑتا ہے اس دوران اس کی جگہ کوئی دوسری کار لے چکی ہوتی ہے۔
مجھے ٹیلیفون کرنا ہے، میں ٹیلیفون بوتھ کے باہر ادھر ادھر چکر کاٹتا ہوں، کوئی صاحبہ فون کر رہی ہیں، سنا تو کسی کو خدا حافظ کہہ رہی ہیں۔
”اچھا تو اور کیا حال ہے بھئ اس بار کوئی فلم دیکھی؟ کون کون ہے اس میں؟ کہانی کیا ہے؟ تمہاری پھوپی کے بیٹے کا کیا احوال ہیں؟ وہ ولایت گیا کہ نہیں؟ پڑوس سے شمیم کو بلا دو اس سے بھی بات کر لوں...... “
خدا خدا کر کے وہ نکلتی ہے اور میں اندر داخل ہوتا ہوں، سکہ ڈالتا ہوں لیکن اب نمبر یاد نہیں آ رہا، ڈائری دیکھنے پل بھر کے لیے باہر نکلتا ہوں کہ ایک اور خاصی تندرست صاحبہ اندر چلی جاتی ہیں۔ ان کے پاس ٹیلیفون نمبروں کی ایک لمبی فہرست اور سکوں کا انبار ہے ،جسے وہ تختے پررکھ دیتی ہیں۔ کل پکنک ہے، انہوں نے سب سہیلیوں کو یاد دہانی کروانی ہے نا!
یہی ریستوران میں ہوتا ہے، مجھے بھوک لگی ہے اور دو بجے دفتر واپس پہنچنا ہے ، کوئی میز خالی نہیں ، ایک صاحب کھانا کھا چکے ہیں لیکن انہوں نے آئس کریم منگوائی ہے۔ میری آنکھیں ان کے چمچے کے ساتھ ساتھ پیالی پر آتی اور پھر منہ تک جاتی ہیں، سوچتا ہوں اب ختم ہوئی کہ ہوئی ، چار چمچ اور ہوں گے۔ میں گھڑی دیکھتا ہوں آخر وہ اپنا چمچ خالی پلیٹ میں رکھتا اور ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہے، پھر بیرے کو بلاتا اور اس کے کان میں کچھ کہتا ہے، میں اپنے ایک پائوں کا بوجھ دوسرے پائوں پر منتقل کرتا ہوں، اتنے میں بیرا نمودار ہوتا اور ایک پیالی اس کی میز پر رکھ دیتا ہے، یہ صاحب شام کا اخبار نکالتے اور معمے پر نشان لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ جب تک چائے ٹھنڈی ہوجائے۔
ڈاکٹر کے ہاں وہ مجھ سے پہلے موجود ہوتا ہے اور مجھے پورا گھنٹہ اس کی خاطر وہاں بیٹھنا اور چھ ماہ پرانے رسالے پڑھنے پڑتے ہیں۔ ہوائی جہاز کے اندر رات بھر سفر کے بعد ادھر صبح ہوئی اور اس شخص نے شیونگ والا بیگ سنبھالا اور جہاز کے واحد غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ میں اس وقت تک باہر کھڑا رہتا ہوں جب تک یہ شخص اپنی تازہ شیو پر ہاتھ پھیرتا برآمد نہیں ہوتا، اتنے میں جہاز زمین پر اترنے کو ہوتا ہے۔ فضائی میزبان کہتی ہے۔
"صاحب! اپنی نشست پر جائیے اور پیٹی باندھیے ۔"
میں دانت کچکچا کر رہ جاتا ہوں۔ میرے پیٹ میں غضب کی کلبلاہٹ ہےاور تو اور جب یہ شخص مجھ سے پیچھے ہو، تب بھی میں اس سے آگے نہیں نکل سکتا۔
لفٹ میں بھی وہ چھپاک سے مجھ سے پہلے داخل ہو جاتا ہے...... اور لفٹ والا مجھے روک کر کہتا ہے۔
"صاحب ! گنتی پوری ہو گئی۔"میں ناچار سیڑھیوں سے بھاگم بھاگ اترتا اور آخری ٹیکسی کو آواز دیتا ہوں، میں اس سے پانچ قدم پر ہوتا ہوں کہ وہ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر اندربیٹھ جاتا ہے۔
میری سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ کبھی ایسی قطار میں کھڑا ہوں، جس میں مجھ سے آگے کوئی نہ ہو۔ ڈاک خانے اور ریلوے کے ٹکٹ گھر پر سب سے آگے میں ہوں اور ریستوران میں بھی جب کوئی اور شخص آئے جس کو جلدی ہو اور جسے دو بجے واپس جانا ہو تو اسے کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے آئس کریم منگائوں، پھر کافی کا آرڈر دوں اور شام کا اخبار کھول کر بیٹھ جائوں۔ اے کاش!