• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبرستان یا قبر کا احترام محض اس مٹی کا احترام نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ عقیدت صاحبِ قبر سے جڑی محبت کا سمبل ہوتی ہے۔ ہر کسی کو اپنا عقیدہ عزیز ہوتا ہے اور ہمیں اس حوالے سے کسی پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ مذہب بندے اور خدا کا باہمی معاملہ ہے ریاست یا کسی شہری کو اس میں خوامخواہ ٹانگ اڑانے سے گریز اور پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ کسی بھی فرد کا یہ بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنی محبتوں کے مراکز پر اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہوئے جس طرح چاہے گلہائے عقیدت پیش کرے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ عاشق اپنے تقدس و عشق کے اظہار میں کسی تیسرے فرد کا کریا کرم یا تیا پانچا نہ کر دے، کسی کی دل آزاری یا نفرت و بیزاری کا باعث نہ بن جائے۔ ان باتوں پر اگر آپ صحتمندانہ فکری و شعوری مباحثہ چاہتے ہیں تو باہمی احترام کی شرط پر وہ بھی کرلیں لیکن اگر نتیجہ ایک دوسرے کو برُا بھلا کہنے یا منافرت پھیلانے کی صورت میں نکلنا ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ کسی کوہرٹ کیے یا بُرا کہے بغیر آپ اپنی راہ پر چلیں اور دوسروں کے لیے بھی اُن کا یہی بنیادی انسانی حق تسلیم فرمائیں صرف اسی برداشت اور رواداری کے ماحول میں تمام مکاتب فکر یکجا رہ سکتے ہیں ورنہ بربادی کو آواز دینا کونسا مشکل امر ہے۔
اس وقت ہمارے پیشِ نظر حضرت بابا فرید شکر گنج ؒکی قبر مبارک نہیں بلکہ میانی صاحب کا قبرستان ہے، جس میں اس وقت کوئی چار لاکھ کے قریب قبور موجود ہیں۔ 1248کنال 14مرلے پر محیط یہ قبرستان پنجاب کا سب سے بڑا ہی نہیں قدیم ترین قبرستان بھی ہے جس کے شواہد عہد مغلیہ تک جاتے ہیں، جب لاہور 12دروازوں کے ساتھ بڑی فصیل یا چار دیواری تک محیط تھا اور موضع مزنگ اس کے مضافاتی ٹیلوں میں سے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے ایک سرے پر میانے یعنی مولوی حضرات رہتے تھے۔ ہمارے دیہات میں اب بھی مولوی حضرات کو ’’میانے‘‘ کہا جاتا ہے، اسی نسبت سے اس جگہ کا نام میانی صاحب پڑا اور اہل لاہور اپنے فوت شدگان کی زیادہ تر یہیں تدفین کرتے تھے۔چار صدی قبل کی قبور کے شواہد یہاں موجود ہیں۔ گردشِ ایام سے لاہور پھیلتے پھیلتے اتنا پھیل گیا کہ میانی صاحب زندہ دلانِ لاہور کا دل بن گیااور پھر وہ مقام جس پر لاکھوں انسانوں کے پیارے ابدی نیند سو رہے ہوں اس کی عظمت کے کیا کہنے۔ ۔۔۔ ان میں سے چند شخصیات کے اسمائے گرامی:حضرت طاہر بندگیؒ، حضرت بابا خواجہ فیروز، حضرت واصف علی واصف، بابا حامو شاہ، بابا احمد علی لاہوری،حضرت موسیٰ خاں، غازی علم الدین شہید، آغا شورش کاشمیری، زیڈ اے سلہری، حمید نظامی،مجید نظامی، ساغر صدیقی، صوفی تبسم، منوبھائی، میاں عبدالرشید، عبدالمالک شہید، دلابھٹی، وجاہت عطرے، زبیدہ خانم، وزیراعظم لیاقت علی کی والدہ، میجر شبیر شریف وغیرہ۔نیکی اور بدی کی طرح دل و جان نچھاور کرنے والوں کی ہمسائیگی میں لالچی اور غرض پرست لوگوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حادثے میں زخمی ہونے والوں کو بچانے کے لیے جہاں خون دینے والے پہنچ رہے ہوتے ہیں وہیں مرتے ہووں کی جیبیں کاٹنے والے بھی نظر یں بچائے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔
میانی صاحب کے لیے جہاں دردِ دل رکھنے والوں نے عطیات پیش کیے وہیں ایسے نا ہنجار بھی تھے جو اہل قبور کے لیے قبضہ گروپ ثابت ہوئے۔ کسی نے یہاں اپنے لیے رہائشی مکانات تعمیر کر لیے تو کسی نے دکانیں بنانے اور روزگار چمکانے میں بھی شرم محسوس نہ کی جس سے یہ نہ ہو سکا اُس نے مساجد، امام بارگاہوں اور درباروں کی آڑ میں مردوں کے لیے وقف زمین کو ہضم کرنے کی کوشش کی۔اس تجاوز کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔
یہاں اس امر کی وضاحت مناسب ہو گی کہ میانی صاحب کے امور و معاملات 1962ء کے Miani Sahib Graveyard Ordinance کے تحت تشکیل کردہ میانی صاحب قبرستان کمیٹی چلاتی ہے اس سے پہلے Act1958 West Pakistan Graveyard (Preservation & Maintenance) کے تحت لاہور قبرستان کمیٹی بنائی گئی۔ جس میں یہ درج تھا کہ The said order shall stand repeal with from the commencing day of constitution یوں اس آرڈیننس کو 62ء میں آئینی تحفظ حاصل ہوا! اس میں ایک بہتری یہ بھی کر دی گئی کہ موضع مزنگ میں قبرستان سے متعلقہ تمام ریونیو خسرہ جات درج کر دیے گئے۔ جس سے قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی ممکن ہو ئی مگر اس حوالے سے مزید علاقہ جات کی پڑتال کے لیے گنجائش موجود ہے کیونکہ 1248کنال 14مرلے میں سے 1206کنال تو موجود تھے واقعاتی طور پر جائزہ لیا جائے تو قبرستان کا پھیلاؤ کہیں زیادہ تھا۔ ۔اس کمیٹی کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ہوتا ہے پولیس،ہیلتھ اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے علاوہ اس میں پرائیویٹ ممبران کی شکل میں معروف سماجی شخصیات کی شمولیت کا اہتمام کیا گیا ہے جو خوش آئند امر ہے۔ اس کی منظوری پنجاب حکومت کابینہ سے حاصل کرنے کے بعد سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اس کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ کمیٹی سے نیچے بھی پچاس پچیس افراد پر مشتمل اس کا انتظامی ڈھانچہ موجود ہے جن میں آدھے سیکورٹی گارڈز ہوتے ہیں ایک سو بیس کے قریب گورکن ان کے علاوہ ہیں۔ عملاً تمام انتظام و اہتمام کا ذمہ دار سیکرٹری ہوتا ہے جو کمیٹی بشمول چیئرمین کی منظوری سے کام کرتا ہے۔ مالی امور کے لیے چیئرمین اور سیکرٹری کا جائنٹ اکاؤنٹ اسی لیے ہے کہ کوئی من مانی نہ کر سکے۔
میانی صاحب میں اس وقت تین بڑی جنازہ گاہیں ہیں جن میں سے ایک کی ازسر نو ترئین و آرائش کی گئی ہے جبکہ 7مساجد ہیں لاہور میں جب کسی کو کہیں جمعہ کی نماز کے لیے وقت نہیں ملتا تو میانی صاحب کی مسجد میں مل جاتا ہے۔ میانی صاحب کی 21 دکانیں اور 32 تختے ہیں 17واٹر ٹینک ہیں 7لنک روڈز ہیں انتظامی طور پر 8بڑے حصے یا علاقہ جات ہیں احاطہ جات کے ساتھ ان کی تفصیل اس طرح ہے۔ سر کی بنداں 95،حق سائیں 18،نظام شاہ 57، بڑا مکان 132،گھوٹو سائیں 68، تیتر سائیں10، کمہاماں 17، ڈھایا حاموں شاہ59۔ قبور کی گنجائش کو طویل عرصے تک رکھنے کے لیے بہتر ہے کہ پختہ قبور کی فیس بڑھا دی جائے نیز 7فٹ لمبائی 3 فٹ چوڑائی اور 2فٹ اونچائی پر بطور پالیسی عمل کروایا جائے حالیہ آپریشن سے جو قریباََ پچاس کنال رقبہ و اگزار ہو اہے اس کے متعلق واضح پالیسی کے ساتھ محدود قبور کی جگہ اُن لوگوں کو ضرور ملنی چاہیے جنہوں نے اس حوالے سے ادائیگیاں کر رکھی ہیں۔ درویش کی عدالت کے سامنے یہ تجویز ہے کہ میانی صاحب کے انتہائی اہم مقامات پر واقع دو بڑے احاطہ جات حضرت واصف اور احاطہ وحیدالدین کو آئندہ کے لیے ان نامور شخصیات کے لیے مخصوص کر دیا جائے جنہوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہوں اس کا فیصلہ کمیٹی اپنے اجلاس میں کرے نیز دو بڑے اہم کمرشل مقامات پر ایسے بڑے پلازے بنائے جا سکتے ہیں جن کی آمدن میانی صاحب کے رفاہی و اصلاحی انتظامات میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین