25 مارچ 1969 کی شام تھی۔ اسلام آباد میں ٹیلی وژن اسٹیشن قائم ہوئے چار برس گزرے تھے۔ اس زمانے میں ٹیلی وژن کی نشریات شام ڈھلے شروع ہوتی تھیں اور رات کے پہلے پہر میں ختم ہو جاتی تھیں۔ نشریات ختم ہونے کے بعد ٹیلی وژن کے اہل کار حسب معمول بڑے دروازے کے پاس کھڑے گھروں کو روانہ ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اچانک قیمتی گاڑیوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ ٹیلی وژن اسٹیشن میں داخل ہوا۔ بڑے اسٹوڈیو کی روشنیاں جل اٹھیں۔ اس خلاف معمول سرگرمی پر ٹیلی وژن کا عملہ چونک اٹھا۔ معلوم ہوا کہ جنرل یحییٰ خان کے گھرانے کی خواتین، جن میں نئے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی بہنیں نمایاں تھیں، خوشی منانے کے لئے تشریف لائی ہیں۔ اس روز فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا تھا۔ اسلام آباد کے اسٹوڈیو میں ڈھولک پر گیت گایا جا رہا تھا، ویر میرا گھوڑی چڑھیا… ٹھیک دو برس اور نو ماہ بعد۔ پنجابی ہی کے ایک معروف محاورے کے مطابق، ’گھوڑی ختم ہو گئی‘ اور بہنوں کا ویر گھوڑی سے نیچے اترا تو ملک دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔
مغربی پاکستان کے لوگوں نے سات دسمبر 1970 کو ایک رہنما کا انتخاب کیا تھا۔ اس شخص میں وہ تمام خامیاں تھیں جو فانی انسانوں میں ہوتی ہیں۔ کچھ خوبیاں بھی ضرور ہوں گی۔ بوجوہ خوبیوں کے ذکر سے گریز مناسب ہے۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو… 20 دسمبر 1971 سے 5 جولائی 1977 تک ساڑھے پانچ برس یہ شخص ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ 4 اپریل 1979 کو یہ شخص سربلند ہو گیا۔ چار دہائیاں گزر چکیں۔ ہمارا شہسوار گھوڑے سے نیچے نہیں اترا۔ خلق خدا کی تائید سے روشن ہونے والے کاغذ کے ووٹوں سے جو مقام حاصل کیا جاتا ہے، اسے بندوق کی نالی اور جبر کے فرمان سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مسولینی نے دنیا بھر کے سوچنے سمجھنے والے دماغوں کو چندھیا کے رکھ دیا تھا، اب معلوم ہوا کہ اٹلی کا عطر مسولینی کی دھواں دھار خطابت میں نہیں، گرامچی کے افکار میں خوشبو دیتا ہے۔ جنرل فرانکو نے چالیس برس تک اسپین پر حکومت کی۔ آج اسپین فرانکو کے طویل اقتدار سے نہیں، لورکا کی شاعری سے پہچانا جاتا ہے۔ 1973 سے 1997 تک چلی میں پنوشے کا ڈنکا بجتا رہا، آج چلی میں وکٹر ہارا کا نغمہ گونجتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ اب سے کئی برس بعد جب آج کا لکھنے والا اور آج کے پڑھنے والے دنیا میں نہیں ہوں گے، بھارت کی عظمت راشٹریہ سیوک سنگھ اور نریندرا مودی سے خدوخال نہیں پائے گی، بھارت بسم اللہ خان کی شہنائی اور ولایت علی خان کے ستار سے پہچانا جائے گا۔
ہو سکتا ہے آپ کو خیال آئے کہ آج کے ہنگامہ پرور دنوں میں ماضی کی راکھ کیوں کرید رہا ہوں۔ اس لئے کہ انصاف کا سوال انسانیت کی اجتماعی میراث ہے۔ چار اپریل 1967ء کو شہید ہونے والے مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا، اگر دنیا میں کہیں ناانصافی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے ہر جگہ ناانصافی ہو رہی ہے۔ علم، آزادی، انصاف اور حقوق کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ انسانی شعور جب کرہ ارضی کے کسی ایک مقام پر سوال اٹھا دیتا ہے تو وہ سوال دنیا بھر کے لئے جائز سوال بن جاتا ہے۔ مذہبی پیشوا کی سیاسی اقتدار پر بالادستی 1648ء میں ویسٹ فیلیا معاہدے کے تحت ختم کی گئی تھی۔ آج عملی طور پر دنیا کی ہر ریاست افادی اقدار کے مطابق چلائی جاتی ہے۔ غلامی کے خلاف لڑائی انیسویں صدی کے امریکا میں لڑی گئی، آج دنیا بھر میں غلامی ممنوع ہے۔
ہتھیار باندھ کر دوسروں کی زمینوں پر چڑھ دوڑنا، سلطنتیں قائم کرنا، انسانوں کو محکوم بنانا اور اپنی رعایا قرار دینا ہزاروں برس پرانا دستور تھا۔ اس میں سلطنت عثمانیہ، ہیپس برگ ایمپائر، برطانوی ایمپائر، مغل سلطنت، پرتگالی آبادکاروں اور ہسپانوی قابض حکمرانوں کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ یورپ نے نشاۃ ثانیہ کی صورت میں انسانیت کو تحقیق، دریافت اور ایجاد کی نعمتیں ارزاں کیں۔ برصغیر پاک و ہند کے رہنے والوں نے بھی انسانیت پر ایک بڑا احسان کیا، محکوم قوموں کو ایک اصول سے روشناس کرایا جسے اپنی زمین پر حکمرانی کا حق کہتے ہیں۔ 1776ء میں امریکا نے اسی اصول پر برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی لیکن امریکا کی آزادی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کی نوآبادیوں کے لئے نئے سوشل کنٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کی شکل اختیار نہیں کر سکی۔ وجہ یہ کہ امریکی آزادی پر نسلی غلامی کا دھبہ موجود تھا۔ اٹھارہویں صدی میں جارج سوئم کو امریکا سے نکالنے والوں نے افریقی نژاد امریکیوں کی مساوات تسلیم نہیں کی۔ ہندوستان کی زمیں کو یہ فخر حاصل ہے کہ سریندر ناتھ بینرجی، گوکھلے، موتی لال نہرو، محمد علی جناح، موہن داس کرم چند گاندھی، اینی بیسنٹ اور ان گنت حریت پسندوں نے محکوم قوموں کے لئے آزادی کی سیاسی جدوجہد کے اصول وضع کئے۔ یہ آزادی محض غیرملکی حکمرانوں کو بیدخل کرنے کا نصب العین نہیں تھی۔ آزادی کی اس لڑائی کا حتمی نصب العین یہ تھا کہ اس زمین کے رہنے والے اپنی معاشی، سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ دنیا کے ابھرتے ہوئے امکانات میں اپنا پورا پورا حق حاصل کر سکیں گے۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم شمالی یورپ کے جزیرے برطانیہ سے آنے والوں کو رخصت کر کے مقامی طاقتور گروہوں کے غلام ہو جائیں گے جو نسل، عقیدے اور بندوق کے بل پر ہمارا استحصال کریں گے۔
جاننا چاہیے کہ جولائی 2018ء کی تصویر بدستور دھندلی ہے۔ اہل حکم کا تھوک ہمارے مقدس پرچم پر جم گیا ہے۔ ہماری زمیں پر زور آور کے قدموں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمیں علم سے محروم کر کے تعصب اور نفرت میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہمارے قابل صد احترام آبا ئو اجداد کی ستر برس پر محیط قربانیوں سے ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے۔ اب ہماری کشمکش کسی ایک فرد یا منصب دار سے منسوب نہیں ہے۔ ماضی میں ہم نے اپنے خوابوں کو فرد واحد کی ذات سے وابستہ کر رکھا تھا۔ اب یہ کشمکش زیادہ اصولی اور ادارہ جاتی شکل اختیار گئی ہے۔ ہمارے کچھ سیاسی رہنما آج کل اداروں کے احترام پر زور دے رہے ہیں۔ ان کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں ہو گی لیکن ان کی سوچ میں انقطاع یعنی داخلی تضاد کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں۔ ہمارے یہ مہربان عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن
ووٹ کی بالادستی کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں۔ اگر انہیں ووٹ مانگتے ہوئے ایسے خدشات اور وسوسے لاحق ہیں تو کل جب یہ رہنما ووٹ سے تشکیل پانے والے اداروں میں رونق افروز ہوں گے تو ان کے دست و بازو پہلے سے قطع ہو چکے ہوں گے۔ زمانے کا انقلاب دیکھیے، جو مہربان سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کو مک مکا قرار دیتے تھے، اب سقوط جمہوریت کے دستاویزی شواہد پر شاداں و مسرور ہیں۔ تاریخ کے یہ چیمبرلین اگر جولائی کے الٹرا ساؤنڈ سے خوف زدہ ہیں تو اگست کے بلیک باکس کا سامنا کیسے کریں گے؟