• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں

’’سیاہ فام امریکیوں کے رہنما مالکم ایکس نے 13 اپریل 1964ء کو کلیولینڈ میں ’’دی بیلٹ اور دی بُلٹ‘‘ کے عنوان سے جو تقریر کی تھی اسے تاریخ کی چند بہترین اور طاقت ور تقریروں میں شمار کیا جاتا ہے

تبدیلی یاانقلاب محض طاقت کےاستعمال یاتشدد سے نہیں آتا۔ اس کے دیگر ذرایع بھی ہیں۔ جدید دور میں اس کا سب سے موثر ذریعہ بیلٹ یا ووٹ ہے

تاریخ عالم کی دو عظیم جنگوں میں لاکھوں جانوں کے زیاں کے بعد زیادہ تر تنازعات اور جنگوں کا خاتمہ یا تو مذ ا کرات کی میز پر ہوا یا انتخابات کے ذریعے‘‘

’’شمالی آ ئر لینڈ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لڑتے رہے اور انگلستان کی پالیسیز سے بھی نالاں رہے، لیکن ان کے مسائل بھی بیلٹ ہی نے حل کیے،یعنی انتخابات اور ریفرنڈم نے۔ کو لمبیا میں بھی تشدد کے بعد فریقین نے مسائل حل کرنے کے لیے بیلٹ ہی کا راستہ اختیار کیا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سے 2010ء تک دنیا بھر میں جنگیں اور تنا زعا ت ختم کرنے کے لیے جو مذاکرات یا معاہدے ہوئے ا ن میں سے 43 فی صد میں انتخابات کے انعقاد اور انتہا پسند گروہوں کو ان میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی شر ا ئط شامل تھیں‘‘

انتہا پسندی اوردہشت گردی نےہمارے معاشر ے کو طویل عرصے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس مرتبہ بھی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے بعض بہت الم ناک واقعات پیش آئے۔کل پاکستان کے عوام کو انتہا پسندی،دہشت گردی،بدعنوانی،اقربا پروری اور خراب طرزِ حکم رانی سمیت بہت سے مسائل ووٹ دینے سے قبل مدّ ِنظر رکھنے ہوں گے اوربالخصوص انتہا پسندی اوردہشت گردی کی فکر کو شکست دینا ہوگی۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شہری حقوق کے علم بر دار اور سیاہ فام امریکیوں کو سفید فام شہریوں کے مساوی حقوق دلانے کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنما مالکم ایکس نے 13 اپریل 1964ء کو ریاست اوہایو کے مقام کلیولینڈ میں منعقدہ ایک اجتماع میں ’’دی بیلٹ اور دی بُلٹ‘‘ کے عنوان سے ایک تقریر کی تھی۔مالکم ایکس کو ا یک متنازع رہنما قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس سے قطع نظر اس نے مذکورہ عنوان سے جو تقریر کی تھی اسے تاریخ کی چند بہترین اور طاقت ور تقریروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں امریکا میں شہری حقوق کے لیے جو جدوجہد جاری تھی اس میں ایک طرف مارٹن لوتھر کنگ جونیر تھا اور دوسری طرف مالکم ایکس۔ ان دونوں کے سیا سی فلسفے ایک دوسرے کی ضد تھے۔ مارٹن کو صلح جُو اور مالکم ایکس کو برا فروختہ اور تشدد پسند قرار دیا جاتاہے۔ تا ہم دو نوں کے مقاصد ایک تھے، یعنی افریقی نژاد امریکیوں کے لیے حقیقی آزادی کا حصول۔ مالکم کی مذکورہ تقریر دراصل ما رٹن کی مشہور زمانہ تقریر بہ عنوان: ’’آئی ہیو اے ڈریم‘‘ کا بہ راہ راست ردّ ِعمل تھا۔مالکم سفید فام امر یکیو ں کی جا نب سے سیاہ فام امریکیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنےکے ضمن میں اختیارکیے جانےوالے تاخیری حر بو ں سے عا جز آچکا تھا۔ اس وقت امریکا کی سیاست میں مکالمے پر جمود طاری ہوچکا تھا اور مالکم کا کہنا تھا کہ اگر پُر ا من طر یقے سے سیاہ فام لوگوں کو شہری آزادیاں اور حقوق نہیں دیے جاتے تو وہ اسے تشدد کے ذریعے حاصل کرلیں گے۔

اس تقریر میں مالکم ایکس نے امریکی کانگریس اور سینیٹ کے اراکین، ان کے سیاسی کردار اور سیاہ فام آ با د ی کی رائے کی ناقدری کا بہت موثر اندازمیں ذکر کیا تھا۔ اس طویل تقریر میں دراصل مالکم نے سیاہ فام لوگوں کو اس وقت کے امریکا میں ان کی کم حیثیت کا احساس دلایا اور انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد پر اکسایا تھا دوسری جانب حکم رانوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر انہوں نے اپنا طرز عمل درست نہیں کیا، تمام امریکیوں کو مساوی حقوق نہیں دیے اور اقتدار پر مخصوص نسل اور حیثیت ہی کے لو گو ںکا قبضہ رہا تو لوگ، بالخصوص سیاہ فام تشدد کا راستہ بھی اپنا سکتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ان دنوں ہر طرف انقلاب، تبدیلی، نظام بدلنے اور نیا پاکستان بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن تبدیلی یاانقلاب محض طاقت کےاستعمال یاتشدد سے نہیں آتا۔ اس کے دیگر ذرایع بھی ہیں۔ جدید دور میں اس کا سب سے موثر ذریعہ بیلٹ یا ووٹ ہے۔ اب سے ٹھیک ایک روز بعد، یعنی 25 جولائی کو ہمیں یہ موقع ملنے والاہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ذر یعے کیسی تبدیلی لاتے ہیں، یعنی صرف چہروں کی یا نظام کی۔ اقوامِ عالم نے متعدد مواقعےپربیلٹ کے ذریعے جنگو ں، تنازعات، خانہ جنگی اور بدامنی سے چھٹکارا پاکر امن ا و ر ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر ایسی بہت سی مثالیں بکھری ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک سے ہم ذیل میں خوشہ چینی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس اہم قومی موقعے پر ہمارے ذہنوں میں ووٹ کی اہمیت اور طاقت کے بارے میں تصور ایک بار پھر پوری طرح واضح ہوجائے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سیاہ فام نسل کے صر ف ساٹھ لاکھ افراد 1954ء تک گیارہ ریاستوں میں وو ٹ دینے کے اہل تھے۔ جنوبی ریاستوں میں ان کے خلا ف بہت زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہ سیاہ فام جنہیں عام طور سے نیگروز کہا جاتا تھا، کئی مسائل کا شکار تھے۔ مثلاً ان میں خواندگی کی شرح کم تھی، انہیں بہت سے شہری حقو ق حاصل نہیں تھے، ان کے مالی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے اور ووٹ کی رجسٹریشن کے وقت ان کے دادا، پردادا کے بارے میں سوالات کیے جاتے تھے۔ مگر انہوں نے متحد ہوکر پہلے تمام امریکی ریاستوں کی عدالتوں میں اور پھر وفاقی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑا اور کئی اہم کام یابیاں حاصل کیں۔ اس دوران ان کے کئی رہنمائوں کو سفید فام انتہا پسندوں نے ہلاک کردیا۔ 27 مئی 1952ء کو ڈیمو کر یٹک نیشنل کنونشن میں شرکت کرنے والے وفود کے انتخا ب کے لیے رائے دہندگان اپنی رائے دے رہے تھے کہ فلوریڈا میں جیکسن وِلی کے علاقے میں پولنگ کے مقا م پر بم کا دھماکا کردیا گیا تھا۔ اس علاقے میں سیاہ فام نسل کے لوگوں کے سیاسی طور پر آگے آنے کی قوی امید تھی۔ ا سی علاقے میں ایک نیگرو رہنما کے گھر سے بغیر پھٹا ہوا بم ملا تھا۔ لیکن اس کے ردّ ِعمل میں وہاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ جنو بی امریکا میں 1946ء میں سیاہ فام ووٹرز کی کل تعداد صر ف 35 ہزار تھی، لیکن 1952ء میں ان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار تک جا پہنچی تھی،اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ ا نہیں اس کے لیے پول ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ تاہم وہ رکے نہیں اورا ٓگے ہی بڑھتے چلے گئے اورپھر وہ وقت بھی آیا جب براک اوباما کی شکل میں ایک سیاہ فام اس ملک کا سب سے طاقت ور شخص بنا۔نہ صرف سیاست بلکہ عدالتوں میں بھی انہوں نے مسلسل کام یابیاں حاصل کیں ۔امریکا کی عدالتوں میں سیاہ فام لوگوں نے جو قانونی جنگ لڑی وہ اس ملک کی عدالتی تاریخ میں بہت سنجیدگی ا و ر ذہانت سے لڑے جانے والے مقدمات سے عبارت ہے۔

کئی ممالک کو تاریخ میں متعدد اقسام کے مسائل درپیش رہے۔ مثلاً جنوبی افریقا اور نمیبیا میں نسلی گروہوں کے درمیان ماضی میں بہت زیادہ چپقلشیں تھیں۔ شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے در میا ن پہلے زیادہ تنائو رہتا تھا۔ باسک اور بلقان کے خطوں، فلسطین، روانڈا، کشمیر اور مشرقی تی مور میں بھی کئی طرح کے مسائل تھے اور ہیں۔ ان میں سے بعض خطّوں میں بیلٹ کے ذریعے ہی مسائل حل ہوئے، مثلاً مشرقی تی مور میں۔ اسٹین فورڈ، یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی عالیہ ایم متانوک نے جنوری 2012ء میں ایک مقالہ تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا: ’’بُلٹ فار بیلٹس: ایگزامننگ دا افیکٹ آف الیکٹورل پارٹی سیپیشن آن کنفلکٹ ریکرنس‘‘۔ اس تحقیقی مقالے میں انہوں نے 1980ء سے 2010ء تک کے ادوار میں 97 ممالک میں ایسے 672 انتہا پسند گروہوں کا جائزہ لیا ہے جو ہتھیار اٹھانے سے قبل یا بعد میں کسی نہ کسی مرحلے پر انتخابی سیاست کا حصہ بنے یا انہو ں نے ووٹ کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے کی کام یا ب یا ناکام کوشش کی۔ اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ مذ کو رہ عرصے میں براعظم افریقا میں 149، امریکا میں 127، ایشیا میں 198، براعظم یورپ میں 88 اور مشرق وسطیٰ میں 110 گروہوں نے مختلف اوقات میں انتخابات میں حصہ لیا۔ان میں سے بہت سے خطّوں میں جہاں چھوٹے پیما نے پر خانہ جنگی جاری تھی، انتخابات کے نتیجے میں وہاں ان گروہوں نے امن کے معاہدے کرلیے تھے اور اس کے نتیجے میں وہاں ہلاکتوں کی تعداد کم ہوکرسالانہ محض 25 افراد تک رہ گئی تھی جو اس سے قبل کہیں زیادہ تھی۔ دوسری مثالوں میں حکومتوں نے بعض انتہا پسند گروہوں سے مذاکرات کیے بغیر حالات پر قابو پانے کی کوشش کی توبعد میں51 فی صد گروہ مذاکرات پر راضی ہوگئے اور بڑے پیمانے پر ہونے والی خانہ جنگی کی صورت حال میں اس حد تک بہتری آگئی کہ تصادم میں ہلاکتیں کم ہوکر ایک ہزار سالانہ تک رہ گئیں۔

اس مقالے کے مطابق سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مختلف ممالک میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ سامنے آ ئے۔ ان میں سے تقریباً ڈیڑھ فی صد نے 1985ء میں، 5 فی صد نے 1990ء سے 1995ء کے دوران اور اتنے ہی فی صد نے 2000ء سے 2005ء کے درمیان انتخا با ت میں حصہ لیا۔ لیکن 2010ء میں یہ شرح پھرکم ہوگئی اور ا یک فی صد سے بھی کم پر آگئی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ان گروہوں نے حکومتوں سے مذاکرات کیے اور فیصلے میدان جنگ کے بجائے بیلٹ باکسز کے ذریعے ہونے لگے۔

تاریخ عالم کی دو عظیم جنگوں میں لاکھوں جانوں کے زیاں کے بعد زیادہ تر تنازعات اور جنگوں کا خاتمہ یا تو مذ ا کرات کی میز پر ہوا یا انتخابات کے ذریعے۔ تاریخ کے قدیم ادوار میں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ وقت کی بڑی بڑی طاقتوں نے پہلے بھرپور وسائل کے ساتھ بھرپو ر طریقے سے جنگیں لڑیں اور بعد میں وہ مذاکرات کی میز پر آگئیں۔ امریکا اور سابق سوویت یونین نے پہلے دنیا کے مہلک ترین ہتھیار ایک دوسرے کے لیے تیار کیے۔ جوہری اور بیلسٹک میزائل ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے نصب بھی کردیے، لیکن پھر مذاکرات کی میز پر آ گئے اور تخفیفِ اسلحہ کا معاہدہ کرکے دونوں نے اپنے مہلک ہتھیاروں کے ذخائرمیں قابل ذکر حد تک کمی کی۔

انتخابات کیا ہوتے ہیں؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ماہرین سیاسیات یہ دیتے ہیں کہ یہ معاشرے کے مختلف طبقات میں وسائل کی منصفانہ، شفاف اورآزادانہ تقسیم کا ایک سادہ طریقہ ہے۔ اس نظام کے تحت منصفانہ انداز میں یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ کسی ملک کے عوام کیا چاہتے ہیں، وہ کسے اقتدار میں لانے کے خواہش مند ہیں، وہ اپنا اور ملک کا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے ہیں اور کس معاملے پر ان کی کیا رائے ہے۔ جمہوریہ مقدونیہ میں 2001ء میں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد انتخابات ہوئے اور عالمی کرداروں نے وہاں امن کی ضمانت دی تو مسئلہ حل ہوگیا۔ وہاں ا قلیتو ں کی نمائندہ نیشنل لبریشن آرمی نے مقدونیہ کی فوج سے بہ راہ راست لڑائی شروع کردی تھی۔ وہ البانوی اقلیت کے لیے زیادہ حقوق کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ایسی صورت حال میں وہاں امریکا،یورپی یونین اور نیٹو نے بروقت مداخلت کی اور فریقین کو تشدد سے اجتناب کرنے اور سیاسی مسائل سیاسی طریقے سے حل کرنے پر رضا مند کیا۔ فریقین نے جون 2001ء میں جنگ بندی کے معاہدے پر دست خط کیے۔ وہاں دو بنیادی مسائل پولیس میں اصلاحات اور اکثریت کی ثقافت کے تحفظ کے تھے۔ فریقین کو یہ خطرہ تھا کہ ان میں سے کوئی بھی معاہدے سے پھر سکتا ہے۔ اس کا ازالہ وہاں انتخابی نظام نے کیا۔ پھر وہاں عالمی کر دا ر و ں کی نگرانی میں ستمبر 2002ء میں انتخابات ہوئے اور تنا زع ختم ہوگیا۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں

آج دنیا بھر میں بیلٹ کی طاقت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجے جانے والے امن مشنزکی تعداد پہلے کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مشنز ان ممالک یا خِطّو ں میں بھیجے جاتے ہیں جہاں خانہ جنگی یا ممالک کے در میا ن سرحدی یا دیگر تنازعات ہوں۔1980ء کی دہائی میں بھیجے جانے والے ایسے مشنز کی تعداد 6 تھی جو 1990ء کی دہائی میں بڑھ کر33 تک جا پہنچی تھی، لیکن اس کے بعدسے یہ تعداد پھر کم ہو رہی ہے۔ ہمارے خِطّے میں کچھ عرصہ قبل تک سری لنکا بھی خانہ جنگی اور بدامنی کی آگ میں بری طرح جل رہا تھا۔ یہ آگ لگانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اس ملک کے تامل باشندے تھے جو ریاست کی پا لیسی سے خوش نہیں تھے۔ سری لنکا طویل عرصے تک اس آگ میں جلتا رہا اور پھر تامل باغی مذاکرات کی میز پر آ ئے اور انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور ہوئے۔ شمالی آ ئر لینڈ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لڑتے رہے اور انگلستان کی پالیسیز سے بھی نالاں رہے، لیکن ان کے مسائل بھی بیلٹ ہی نے حل کیے،یعنی انتخابات اور ریفرنڈم نے۔ کو لمبیا میں بھی تشدد کے بعد فریقین نے مسائل حل کرنے کے لیے بیلٹ ہی کا راستہ اختیار کیا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سے 2010ء تک دنیا بھر میں جنگیں اور تنا زعا ت ختم کرنے کے لیے جو مذاکرات یا معاہدے ہوئے ا ن میں سے 43 فی صد میں انتخابات کے انعقاد اور انتہا پسند گروہوں کو ان میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی شر ا ئط شامل تھیں۔ ان میں سے 28 معاہدوں کے نتیجے میں، یعنی کل معاہدوں کے 68 فی صد کے مساوی معاملات میں، انتخابات ہوئے اور حکومتوں اور انتہا پسند گروہوں نے ان میں حصہ لیا۔

کمبوڈیا اور برونڈی میں بھی ایسے معاہدے ہوئے تھے، لیکن فریقین نے ان پر عمل نہیں کیا لہٰذا اس فرار کے نتائج ان ممالک کے عوام کو برسوں تک بھگتنے پڑے۔ کمبو ڈ یا میں انتہا پسند گروہ کھیمروج نے پیرس میں 1991ء میں ہونے والے معاہدے کی کچھ ہی عرصے بعد مخالفت شرو ع کردی تھی۔ برونڈی میں فرولینا اور پالی پیہوتو نامی گرو ہوں نے 2002ء میں ہونے والے معاہدے کے خلا ف عمل شروع کردیا تھا۔ لائبیریا میں موومنٹ فار ڈ یمو کر یسی نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور 2003ء میں ہونے والا معا ہدہ سبوتاژ کردیا گیا تھا۔ تاہم ان تینوں مثالوں میں معا ہد وں پر دست خط کرنے والے باقی گروہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انتہا پسندی ترک کردی تھی۔ کمبوڈیا کے کھیبروج گروہ کے علاوہ ان تینوں مثالوں میں کوئی بھی گروہ واپس خانہ جنگی کی طرف نہیں گیا تھا۔

جنوبی سوڈان میں طویل خانہ جنگی کے بعد پیپلز لبر یشن موومنٹ نے 2004ء میں اپنے مخالفین کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا تھا جس میں انتخابات کے انعقاد کی شرط بہت اہم تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں وہاں 2005ء میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی۔ بعض مسائل کی وجہ سے وہاں 2010ء تک عام انتخابات نہیں ہوسکے تھے لیکن بدامنی کی پہلے والی کیفیت نہیں لوٹی تھی۔ انگولا اور کا نگو میں انتہا پسندوں کو پہلے مذاکرات کی میز پر اور پھر ا نتخا بی میدان میں آنا پڑا تھا۔ انگولا میں UNITA نامی انتہا پسند گروہ نے 2002ء میں اور کانگو میں COCOYES اور NINJAS نامی گروہوں نے 1999ء میں امن معا ہدے کیے تھے۔ مجموعی طور پر 1989ء سے 2005ء کے دوران 42 ممالک میں مختلف تنازعات ختم کرنے کے لیے 106 امن معاہدے ہوئے تھے جن میں سے 32 فی صد 2010ء میں ناکام ہوگئے تھے اور اس کے نتیجے میں ان سے متعلق ممالک میں خانہ جنگی دوبارہ شروع ہوگئی تھی۔ تاہم باقی 72 فی صد تاحال کام یاب ہیں۔ یعنی اکثریت نے مذاکرات کی میز اور انتخابی میدان ہی کو مسائل کا حتمی حل تسلیم کیا۔

ایکواڈور اور پیرو کے درمیان 1998ء اور اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان 2000ء میں سرحدی تنازعات جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ لیکن پھر فریقین مذا کر ا ت کی میز پر آنے پر مجبور ہوئے۔ جبوتی، ایل سلواڈور، گو ئٹے مالا، نائیجر، موزمبیق اور لائبیریا میں 1990ء سے 2002ء کے درمیان مختلف مسائل پر فریقین کے درمیان کئی معاہدے ہوئے اور امن قائم ہوا۔

تنازعات ختم کرنے میں جمہوریت کے کردار کے تنا ظر میں ممتاز مغربی سیاسی مفکر اور دانش ور پال کولیئر نے 2009ء میں ’’وار، گنز اینڈ ووٹس: ڈیموکریسی اِن ڈینجرس پلیسیز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب کا محرّک عرب بہار تھی جس کے نتیجے میں کئی عرب ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوئیں اور کئی ممالک میں اب بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ مصنف نے اس کتا ب میں شہادتوں پر مبنی فکر اپنائی اور اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے اقتصادی اور سماجی اعدادو شمار بھی پیش کیے ہیں۔ اس فکر کے تحت اس نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ عرب دنیا میں یہ بھونچال آنے کی وجوہات کیا ہیں اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔پال کولیئرکے مطابق سابق سوویت کے زوال کے بعد دنیا میں جو بعض بہت اہم تبدیلیاں آ ئیں ان میں سے ایک مختلف ممالک میں انتخابات کا ا نعقا د اور امن کے پھیلتے سائے تھے۔ کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جمہوریت اور سیاسی تشدد کے درمیان کیا تعلق ہے۔ پھر اس نے یہ واضح کر نے کی کوشش کی ہے کہ امیر ہو یا غریب ملک، جمہوریت اس پر منفی اثرات مرتب نہیں کرتی۔ بلکہ جن ممالک میں لوگوں کی آمدن متوسط شرح کی ہوتی ہے وہاں جمہوریت ایک نظام کے تحت سیاسی تشدد کی راہ روکتی ہے۔ لیکن جن ممالک میں آمدن کم ہوتی ہے وہاں اس کے متضاد اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس ضمن میں جو سرحد کھینچی گئی ہے وہ فی کس سالانہ 2700 امریکی ڈالرز کے مساوی آمدن کی ہے۔ لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ یہ منفی اثرات طرزِ حکم رانی تبدیل کرکے ختم یا کم کیے جاسکتے ہیں۔ پال کو لیئر کے مطابق کسی خِطّے یا ملک میں کوئی تنازع ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے معاہدےکے بعدانتخابات کا ا نعقاد اس تنازع کے عود کرنے کا خطرہ ٹال دیتاہے۔ با ا لفا ظِ دیگر آزادانہ اور شفاف انتخابات نہ صرف تنازعات ختم کرتے یا ٹالتے ہیں بلکہ کسی ملک اور قوم کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نکاراگوا میں 1990ء کے انتخابات سے قبل سینڈی نسٹا کی حکومت برسوںاندرونی طورپر جنگ لڑتی رہی، پانچ برس تک اس نے اقتصادی محاذ پر شدید لڑائی لڑی اور اس کی اقتصادیات پرنجی اداروں اور شخصیات کا قبضہ رہا۔اس کے باوجود وہاں 1990ء میں انتخابات ہوئے۔ اسی طرح شمالی آئرلینڈ میں قوم پرست قوتیں بیس برس تک تشدد کے خلاف لڑتی رہیں، بے روز گا ری کی بلند ترین شرح سے مقابلہ کیا اور امتیازی سلوک کی آ گ سے گزریں، لیکن انہوں نے جمہوریت کی راہ نہیں چھوڑی۔

نیپال میں اپریل 2008ء میں طویل انتظار کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ وہاں اس سے قبل دس برس تک بغاوت کی سی کیفیت رہی تھی۔ ان انتخابات میں دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کی توقع کے برعکس 60 فی صد رائے دہندگان نے اپنی آراء کا اظہار کیا تھا۔ وہاں مائو باغی دس برس تک ریاست کے ساتھ لڑتے رہے تھے،لیکن 2010 ء کے انتخابات میں انہوں نے حصہ لیا اور اکثریت حاصل کی۔ یہ نتائج بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھے۔ کمیونسٹ پارٹی (مائوسٹ) نے ان انتخابات میں ملک بھر میں قانون ساز اسمبلی کی 118 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کے مقابلے میں وہاں کی دو بڑی سیاسی جما عتو ں نیپالی کانگریس اور یونیفائیڈ مارکسسٹ۔ لیننسٹ پار ٹی نے بالترتیب 35 اور 32 نشستیں حاصل کی تھیں۔ مائو با غی دراصل ملک میں بادشاہت کے خلاف تھے۔ ان کی کا م یابی نے نیپال کو عوامی جمہوریہ بنا کر امن اور ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں

براعظم یورپ میں تقریباً ڈیڑھ صدی قبل 1848ء میں ایک ملک (فرانس) میں اندر سے انقلاب آیا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے براعظم یورپ میں پھیل گیا تھا۔ فرانس سے اٹھنے والی انقلابی لہر نے جرمنی، پولینڈ، آسٹریا ، ہنگری اور اٹلی کے باشندوں کو بے دار کرکے اپنے ظالم حکم رانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی تھی۔ پھر پورے براعظم یورپ میں نہ صرف حکومتیں بلکہ نظام بھی تبدیل ہوگئے تھے اوریہ براعظم تب سے آج تک بیلٹ کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرتا چلا آرہا ہے۔

ہمارے سامنے الجزائر کی بھی مثال ہے۔ 1930ء تک یہ ملک فرانس کی ایسی نو آبادی تھا جس کے بارے میںبہت سے سیاسی دانش وروں کا خیال تھا کہ اب یہ تقر یباً فرانس میں ضم ہوچکا ہے۔ پھر اس نے آزادی حاصل کی اور وہاں طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد مخلوط حکومتیں بناتے رہے۔ 1960ء کے عشرے سے 1978 ء تک وہاں حواری بومدین مطلق العنان حکم راں رہے۔ ان کے انتقال کے بعد 1988ء تک وہاں ان کی سیاسی فکر اور فلسفے کا راج رہا۔ لیکن اکتوبر 1988ء میں وہاں بڑ ے پیمانے پر عوام سڑکوں پر آگئے اور اس روز سے اس ملک کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی۔ جنوری 1992ء میں و ہاں فوج نے پارلیمانی انتخابات کادوسرامرحلہ رو کنےکے لیے مداخلت کی اور اسلامی انتہاپسندی نے سر اٹھایا۔ لیکن وہاں کی سول سوسائٹی اور جمہوریت پسند طاقتوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور یہ ملک پاکستان کی طرح انتہا پسند و ں کے چنگل میں جانے سے بچ گیا۔ اگرچہ وہاں سیاسی مسائل آج بھی ہیں، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہاں جمہوریت اور بیلٹ کی طاقت کو اثر دکھاتے رہنے کا موقع دیا گیا تو یہ ملک اپنے مسائل پر جلد قابو پالے گا۔

ایسی بہت سی مثالیں ہیں، لیکن قصداً یہاں ان میں سے وہ چند پیش کی گئی ہیں جو کسی حد تک ہمارے مسائل سے مماثل ہوں۔ یہ مثالیں ہمیں سمجھاتی ہیں کہ اگر ہم نے بھی ان کی طرح جمہوری سفرجاری رکھا تو بیلٹ کی طاقت سے ہم بھی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔

تازہ ترین