خالص منطقی ریاضی کو متعارف کرانے والے برٹرینڈ رسل تعلیم کو روشن خیالی کا ماخذ گردانتے تھے، جنہوں نے تاعمر تعلیم کی آزادی کے لیے کام کیا اور روایتی تعلیم کے بجائے طالب علموں کی اختراعی و ایجادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی سعی کی اور کہا کہ اگر تعلیم ہمیں سیکھنے کی آزادی مہیا نہیں کرتی کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں، ساتھ ہی ہمارے اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے تو ایسی تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں۔ ہمارے تدریسی و تعلیمی نظام کو بہرکیف مکمل آزادی دینی ہوگی کہ وہ جدت رکھنے والے ذہنوں کے تخیل میں حارج نہ ہو۔
برٹرینڈ رسل نے پوری عمر ریاضی کے عشق میں بسر کی، جسے وہ نہ صرف سچ بلکہ عظیم تر خوبصورتی قرار دیتے ہیں،جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتی۔ تعلیم اور طالب علموں سے والہانہ محبت کا اندازہ برٹرینڈ رسل کی ان تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے جن میں بچوں کے جھرمٹ میں وہ انتہائی مسرور دکھائی دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے بیکار معلومات پر مبنی کہلائی جانے والی کتابوں سے زیاد ہ لُطف اٹھایا۔
ابتدائی حالات
معروف محقق، مورّخ، سائنسدان، ماہر ریاضیات، ماہر طبیعیات، مدرّس، فلسفی، مفکّر اور افسانہ نگار برٹرینڈ رسل 18 مئی 1876ء بمقام ویلز میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیر اعظم بھی رہے۔ آپ کا تعلق طبقہ اشرافیہ اور کٹّر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس کی وجہ سے بچپن تنہائی اور استغراق میں گزرا۔ یہ استغراق انہیں کئی مرتبہ خودکشی کی جانب لے گیا لیکن اس سے باز رہے۔
اپنے والدین کی زندگی میں مذہبی اقدار کی کامل پاسداری کی، ان کے مرتے ہی مذہب سے بیزاری اور لادینیت کا اعلان کر دیا۔ وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ اپنے گھر پڑھانے آنے والے استاد کو ریاضی سمجھایا کرتے تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔
علمی، ادبی و فلسفیانہ خدمات
برٹرینڈ رسل کے علمی اور فلسفیانہ کاموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی ہمدردی پر برٹرینڈ رسل کی علمی و تحقیقی کتب اور کتابچوں کی تعداد سینکڑوں میں پہنچتی ہے۔ انہوں نے ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو مطعون کیا۔ انسان دوستی کے جرم میں پابندِ سلاسل بھی رہے۔
1950ء میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا، یہ واحد اعزاز تھا جو انہوں نے قبول کیا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ 1970ء میں پیرانہ سالی کے باوجود عرب اسرائیل جنگ میں علی الاعلان اسرائیل کو غاصب قرار دیا اور مغربی عوام میں انسانیت کا پرچار کیا۔
برٹرینڈ رسل نے ایٹمی سائنسدانوں کو انسانیت کا قاتل قرار دیا۔ درازئ عمر کے باوصف رسل نے دمِ آخر تک اپنا وقت کارِ قلم میں گزارا۔ ستم ظریفی ہے کہ رسل نے کہانی کم ہی لکھی لیکن جو بھی کہانی تخلیق کی و ہ اپنے خالق کی عظمت کا پتا خود دیتی ہے۔ عمر کے آخری برسوں میں رسل نے کہا،’’میں نے اپنی زندگی کے 80 سال فلسفے کی نذر کیے، باقی ماندہ کہانی کی نذر کرنا چاہتا ہوں‘‘لیکن کہانی کو زندگی کے محض چند برس ہی ملے۔ ان کے افسانوں کے بس دو ہی مجموعے شائع ہوئے۔2 فروری 1970ء کو یہ ادیب، دانشور، معلم، مؤرخ، فلسفی اور ماہرِ منطق برطانیہ میں وفات پا گیا۔
بحیثیت استاد 10فرمان واصول
فلسفی و استاد برٹرینڈ رسل مدرس کی حیثیت سے طالب علموں میں اپنے تدریسی انداز کے باعث ہردلعزیز تھے۔انہوں نے طالب علموں کی ذہنی آبیاری اور بلوغت کے لیے 10 فرمان دئیے جن کے بارے میں برٹرینڈ رسل کی خواہش رہی کہ انہیں اصولِ تدریس میں شامل کیا جائے۔اپنے تعلیمی انداز میں مندرجہ ذیل اصولوں پر عمل کرتے ہوئے آپ بھی خود کو منفرد طالب علم ثابت کرسکتے ہیں۔
(1)کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل طور پر یقینی رویہ مت اپنائیے۔
(2)کسی بھی تجرباتی مرحلے میں یہ نہ کہیے کہ بہت اہم انکشاف ہوا ہے،کیونکہ ثبوت تجرباتی حقائق کی روشنی میں خودبخود سامنے آجائے گا۔
(3)کامیابی کا یقین ہو تب بھی سوچنے اور تخیل کی حوصلہ شکنی نہ کیجیے۔
(4)کسی سے بھی اختلاف ہو تو اسےزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے ختم کیجیے، کیونکہ زور زبردستی سے حاصل کی گئی فتح غیر حقیقی اورفریبی ہوتی ہے۔
(5)دوسروں کی بالادستی قبول نہ کیجیے کیونکہ اس دنیا میں ان سے مساوی اور لوگ بھی بالادست ہوتے ہیں۔
(6)رائے کو طاقت سے نہ دبائیے ورنہ آپ کی رائے اور اظہار کو دبا دیا جائے گا۔اگر آپ اپنے اظہار کی عزت چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔
(7)اپنی رائے کے منفرد اور خارج المرکز ہونے سے نہ ڈرئیے کیونکہ آج قبول کردہ ہر اک رائے کبھی منفرد اور خارج ازامکان ہوا کرتی تھی۔
(8)اپنی ذہانت کا ادراک کیے بغیر لطف اندوز ہوئیے کیونکہ ذہانت کو عقل کےپیمانوں میںجانچنے سے ذہانت مدھم ہوجاتی ہے۔
(9)محتاط انداز میں صداقت کا ساتھ دیجیے۔اس لیے کہ اگر سچ پریشان کن بھی ہو تویہ اس سے کم ہوگا جسے آپ منکشف کرنا چاہتے ہیں۔
(10)ان لوگوں کی خوشیوں سے حسد نہ کریں جو بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیںکیونکہ صرف احمق ہی سوچ سکتا ہے کہ ہم اس میں رہ رہے ہیں۔