عہدِ جدید چوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے لہذا ہر ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنے جوہر دکھانے کے لیے سر گر م ہے۔کبھی چین کوئی نئی شئے ایجا د کرکے دنیا کو حیران کر دیتا ہے تو کبھی امریکا ایسی انوکھی دریافت کرلیتا ہے کہ سب لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کبھی ناسا خلا ء میں سیٹلائٹ بھیج کر ایسی حیران کن معلومات فراہم کرتا ہے کہ اس پر یقین کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ترقی کی اس دوڑ میں پاکستان بھی اپنی سی کوشش کررہا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کا پہلا ’’ریموٹ سینسنگ سیٹلا ئٹ ‘ ‘ پی آرایس ایس -1 خلاءمیں روانہ کیا گیا ہے ۔یہ سیٹلائٹ مصنوعی سیاروں کی ایک خا ص قسم سے تعلق رکھتاہے۔اس میں طاقت ور کیمرے ،ریڈار اور دیگر اہم آلات نصب ہیں ،جن کے ذریعے یہ زمین کے اندر کے مناظر کی صاف وشفاف اورہائی ریزولیشن تصاویربآسانی لے سکے گا ۔یاد رہے کہ دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جو ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ رکھتے ہیں۔
پاکستان کاپہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ 2018 ء میں خلاء میں بھیجنے کا اعلان پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹما سفیر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے چیئر مین قیصر انیس خرم نے سپارکوکی جانب سے اسپیس ٹیکنالوجی سے متعلق اسلا م آباد میں منعقدہ ایک پرو گرام میں کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے افتخار کی بات ہے کہ پاکستان ان 86 ممالک میں سے ایک ہے جوعالمی خلا ئی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں اور ہر سال سائنس و ٹیکنالو جی کے شعبے کو مزید ترقی دینے کے لیے تعاون بھی کر رہے ہیں۔
مئی 2016ء میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کےبارے میں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ جدید ترین آلات سے مزین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کے لیے چین کے قومی ادارے ،چائنا اکیڈمی آف اسپیس ٹیکنالوجی نے ہامی بھری تھی ۔یہ سیٹلاٹ زمین کے اندر کے پورے نظا م کا بہ خوبی جائزہ لے سکے گا اور برقی مقناطیسی (ا لیکٹرومیگنیٹک )لہروںکی مدد سے 1سے 4 میٹر ز دور سے حاصل کی گئی ہائی ریزو لوشن تصاویر کا مشاہدہ کرسکے گا ۔علاوہ ازیں یہ سیٹلائٹ زمینی وسائل ،زمینی سروے ،قدرتی آفات ( زلزلہ ،سیلاب اور طوفان )کی جانچ پڑتال ،زراعی تحقیقات،گائوں میں بننے والی عمارتوں،پانی کے وسائل کے انتظا ما ت ،ماحولیات کی نگرانی اور سی پیک کے حوالے سے معلومات فراہم کرے گا ۔علاوہ ازیں یہ بھارت کی سر حد کی جاسوسی بھی کرے گا ۔واضح رہے کہ بھارت اب تک اپنے43 سیٹلائٹس جاسوسی کے لیے خلا ءمیں بھیج چکا ہے۔
پاکستانی خلائی ادارے سپارکوکے ماہرین نے پاک ٹیس -1اے (PakTES 1A) نامی ایک چھوٹا سیٹلائٹ تیار کیا تھا، جس کوپی آر ایس ایس-1کے ساتھ شمال مغربی چین میں واقع جیکوان (Jiuquan) سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ -2سی ( Long march 2C) نام کے راکٹ کی مدد سے خلاء میں بھیجا گیا تھا ۔ یہ سیٹلائٹ لانگ مارچ 2سی جیکوان سے بھیجنےکے 17گھنٹے بعد وقوع پذیر ہوا تھا ۔ اب یہ دونوںسیٹلائٹ اپنے مقررہ مدار میں گھوم رہے ہیں ۔پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئرز نے پہلے چینی ماہرین اور انجینئرز کے ساتھ کام کر کے اس حوالے سے تجر بہ حاصل کیا اور بعدازاں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کے قابل ہوئے۔ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ نا کام ہو سکتا تھا ۔اس سے قبل پا کستان ،چین کے تعاون سے اگست 2011ء میں اپنا کمیونی کیشن سیٹلائٹ خلا ء میں بھیج چکا ہے ۔
پاکستان کے علاوہ عالمی طاقتوں، مثلاًامریکا،روس اورچین نے بے شمار ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلاءمیں چھوڑے ہوئے ہیں۔ بھارت نے بھی 13 سیٹلائٹ خلاء میں بھیجے ہوئے ہیں ۔بھارت کے علاوہ دیگرممالک نے بھی ایسے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کیے ہیں جن میں کیمرے نہیں بلکہ صرف ریڈار نصب ہیں ۔یہ ریڈار زمین سے آنے والی مختلف برقی مقناطیسی شعاعوں کی مدد سے تصویری ہیت بناتے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق یہ مصنوعی سیارے بھارت کے عسکری اور غیر عسکری دونوں طر ح سے کام آرہے ہیں ۔اس کا ،کار ٹو سیٹ 2 ای (Cartosat-2E) نامی سیٹلائٹ گزشتہ سال جون کے مہینے میں خلاء میں بھیجا گیا تھا اور یہ بھارت کاخلا ءمیں بھیجا جانے والا اب تک کا آخری سیٹلائٹ تھا۔انہیں تیار کرنے کا اصل مقاصد یہ ہو تا ہے کہ فوج اپنی سر حدوں کا جائزہ بہ خوبی لے سکے ۔ بیلاروس، لاوس ،وینزویلا ،بولیویا او ر نائجیریا کاشمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے ملک کے مفاد کے لیے کمیونیکیشن اور مختلف طرح کے سیٹلائٹ متعارف کراچکےہیں ۔
پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (پی آر ایس ایس -1) تین آلات پر مشتمل ہے۔ پینکرومیٹک کیمرا panchromatic))، ملٹی اسپیکٹرل کیمرا( multispectral) اورسنتھیٹک اپر چرریڈار ( synthetic aperture) ۔ماہرین کے مطابق اس میں نصب دونوں کیمرے ہائی ریزولوشن تصاویر لینے کے کا م آتے ہیں اور ریڈار ان تصاویر کو دو یا تین جہتی صورت دیتا ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے جو آلہ زمینی مرکز میںنصب ہے ۔وہ مذکورہ تین آلات کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی صاف وشفاف تصاویر لے سکتا ہے ۔اس مصنو عی سیارے پی آر ایس ایس -1کا وزن 1200کلو گرام ہے ،یہ زمین سے 640 کلو میٹر زکی بلندی پر مدار میں بآسانی پرواز کر سکتا ہے ۔اس کی تیاری پرچوبیس ارب چھبیس کروڑ روپے لاگت آئی ہے ،اس رقم کا 70 فی صد حصہ چین نے دیا ہے ۔
ماہرین کے مطابق 640کلو میڑ کی بلندی سے جو تصاویر حاصل ہوں گی،انہیںڈرون ٹیکنا لوجی میں بھی استعمال کیا جاسکے گا ۔ فی الحال پی آر ایس ایس -1 کی قیمت 14 کروڑ ڈالر مقرر کی گئی ہے۔پی آر ایس ایس -1سے قبل سپارکو کے ماہرین نے پاک ٹیس -1اے تجرباتی سیارہ تیار کیا تھا ،جسےپی آر ایس ایس -1 کے ساتھ خلاء میں روانہ کیا تھا ،اس کا وزن 285 کلو گرام ہے اور یہ زمین سے 610کلو میٹر کی بلندی پر حرکت کرے گا۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اپنا کوئی لا نچنگ سینٹر نہیں ہے ،اسی لیے اسے اس کام کے لیے چین کی مدد لینا پڑی ،مگر مستقبل میں پاکستان کو اپنا لانچنگ سینٹر قائم کرنے کی ضرورت پڑے گی ۔
معاہدے کے مطابق اس سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی پا کستان کو منتقل ہونی تھی ۔اسی لیے پاکستان کے قومی خلا ئی ادارے ،سپارکو کے سائنس دانوں نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی تیاری میں حصہ لیا ۔پی آر ایس ایس -1 کی خاص بات یہ ہے کہ یہ 7 سال تک پاکستان کی عسکری اور غیر عسکری ضروریات کو بآسانی پورا کرے گا ۔اس کی تکمیل ہمارے ملک کی سائنسی اور تیکنیکی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ماہرین کو اُمیدہےکہ یہ سیٹلائٹ ہمارےدشمنوں کی جاسوسی کا کام بھر پور طریقے سے کرے گا ۔