• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے قراری سی بے قراری ہے، کیسا ہو گا نیا پاکستان، کونسی رنگت کے ہوں گے اُس کے زمین و آسمان، اُس کی آب و ہوا کیسی ہو گی اور اُس میں سانس لینا کتنا انوکھا تجربہ ہو گا، تبدیلی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ شاید نئے پاکستان کے لئے ہی جون بھائی نے کہا تھا:

اُس سے کہیو کہ دِل کی گلیوں میں

رات دن تیری انتظاری ہے

ایک زمین کا ٹکڑا تو ہم نے اِکہتّر سال پہلے حاصل کر لیا تھا مگر ہم اُس پہ گھر تعمیر نہیں کر سکے، بس ایک شامیانہ ہے جس کے تلے اُکڑوں بیٹھے ہوئے آس پاس تعمیر ہوتے نئے گھر دیکھتے ہیں اور ایک دُوسرے کو طفل تسلی دیتے ہیں کہ ’’ہمارے ہمسائیوں نے ہمارے گھر کا نقشہ چُرا لیا ہےـ‘‘ ایسا نہیں کہ ہم نے کبھی گھر بنانے کی کوشش نہیں کی، کی ہے، بارہا کی ہے مگر یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ ہم ہر بار ناکام رہے ہیں، اور ناکامی کی وجہ ناقابل یقین حد تک سادہ ہے، یعنی ہم اس بات پہ متفق نہیں ہو پاتے کہ دیوار کہاں اُٹھانی ہے، در کہاں چھوڑنا ہے، دریچہ کہاں بنانا ہے لہٰذا ہم دیوار بناتے ہیں، توڑ دیتے ہیں، پھر بناتے ہیں، پھر توڑ دیتے ہیں، در بناتے ہیں، پاٹ دیتے ہیں، روشن دان نکالتے ہیں، چُن دیتے ہیں۔ آسان زبان میں یہ کہیے کہ ہم گھر کے نقشہ پہ متفق نہیں ہیں اس لئے ہم شامیانے میں رہتے ہیں۔

کسی ملک کا نقشہ اُس کا آئین ہوتا ہے، ہم نے ایک نقشہ 1956میں بنایا، دو سال بعد وہ نقشہ پھاڑ دیا، پھر ایک صاحب نے 1962میں کسی اہلِ خانہ سے مشورہ کئے بغیر ہمارے مشترکہ گھر کا ایک نقشہ بنایا جس کو اپنے ہی دستِ مبارک سے 1969میں پرزہ پرزہ کر دیا۔ ہم نے پھر خوب صلاح مشورے سے 1973میں اپنے گھر کا نقشہ بنایا لیکن ابھی دیواریں اُٹھ ہی رہی تھیں کہ 1977میں ہم نے اُن پر بل ڈوزر چڑھا دیئے۔ یہ کہانی آگے نہیں بڑھتی، کسی Soap Opera کی طرح دائروں میں گھومتی رہتی ہے، 1985، 1988 ، 1999، 2007دیواریں اُٹھانے اور گرانے کی یادگاریں ہیں۔ Odysseyکی Penelope یاد آتی ہے، ہم بھی بُنتے ہیں، اُدھیڑتے ہیں، پھر بُنتے ہیں، پھر اُدھیڑتے ہیں، اور آج تک یہ عمل جاری ہے۔ اسی لئے ہم شامیانے میں رہتے ہیں۔

تازہ خبر آئی ہے کہ یہ سب بدلنے جا رہا ہے، نیا پاکستان بننے جا رہا ہے، وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا ہے جس کی چاہت میں ہم نے تین نسلیں کھپا دیں۔ یہ درست ہے کہ ہم نقشہ نویسوں کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں اور پہلے بھی کئی بازی گر ہمیں نئے پاکستان کے نام پہ جعلی مال بیچ گئے ہیں، لیکن قنوطیت گناہ ہے، امید سے ہی دل دھڑکتے ہیں، پذیرائی کیجئے، کسے خبر یہ وہی دن ہو جو لوحِ ازل میں لکھا ہے لہٰذا اپنی جماعتی وابستگیوں سے قطع نظر آگے بڑھیے اور نئے پاکستان کی تعمیر میں اپنے حصے کی اینٹ نصب کیجئے۔

آئیے ایسا پاکستان بنائیں جس کا ایک متفقہ نقشہ ہو، سب اُس کا احترام کریں، سب اُس پہ عمل کریں۔ یہ نئے پاکستان کی پہلی شرط ہے، اس سے ہٹ کر ہم کئی کوششیں کر چکے ہیں اور خجل ہو چکے ہیں۔ پُرانے پاکستان کی سب سے بڑی نشانی ایک سے زیادہ نقشے ہی تو تھے، اسی لئے تو ہم اکہتّر سال سے توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں۔ کس کمرے میں کون سے رنگ کے پردے ہونے چاہئیں، پنکھے کس کمپنی کے ہوں، دُھلے ہوئے کپڑے سکھانے کے لئے تار کہاں باندھی جائے، اور ایسے کئی فیصلے بعد میں بھی کئے جا سکتے ہیں، پہلے یہ فیصلہ تو کر لیجئے کہ مکان مشرق رُویہ ہو گا یا مغرب رُویہ، یعنی نقشے پر تو متفق ہو جایئے۔ آئین کا احترام نئے پاکستان کی پہلی شرط ہے، اس گھر کی پہلی اینٹ ہے۔

آئین ہی ہم سب کو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے، ہمارے فرائض اور حقوق کے گرد دائرے کھینچتا ہے اور پھر انہی ضوابط کے تحت ہم سے جواب پُرسی کرتا ہے۔ جب آپ کو سب افراد و اِدارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرتے نظر آئیں تو سمجھ جایئے کہ نئے نقشے اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ نئے پاکستان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہو گی کہ کوئی ماہر ترین ترکھان بھی کسی کے دل کا آپریشن کرتا نظر نہیں آئے گا، سب اپنا اپنا کام کرینگے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نقشے پہ متفق ہیں یا ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری طرح اس شامیانے تلے اُکڑوں بیٹھی رہیں گی؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین