• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کارل مارکس‘‘

’’کارل مارکس کی پیدائش کو دو صدیاں بیت چکی ہیں اور ان کی مشہور زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی مارکس کی شہرت اور اہمیت دنیا بھر میں کم ہونے کی بجائے تیزی سے بڑھ رہی ہے‘‘، جب اینگلز نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے اس وقت کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کارل مارکس کے نظریات تر و تازہ رہیں گے اور دنیا بھر میں ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے۔

کارل مارکس 5 مئی 1818ء کو پروشیا (موجودہ جرمنی) کے صوبہ رھائن کے شہر ٹرئیر (Trier) میں پیدا ہوئے۔ مارکس کے والد ایک یہودی وکیل تھے جنہوں نے 1824ء میں مسیحی فرقے پروٹسٹنٹ کا مذہب قبول کر لیا تھا۔ پورا گھرانہ خوش حال اور مہذب تھا لیکن انقلابی نہیں تھا۔مارکس کا مقام پیدائش صوبہ رھائن صنعتی طور پر بہت ترقی یافتہ تھا۔اٹھارویں صدی میں فرانس کے بورژوای انقلاب کی وجہ سے یہاں جاگیر داری واجبات اور ٹیکس منسوخ ہو چکے تھے۔ کوئلے کے ذخائر سے حاصل شدہ بڑی بڑی رقوم نے صنعتی ترقی کے لیے حالات سازگار کر دیئے تھے۔ اس طرح صوبہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ داری صنعت لگ چکی تھی اور ایک نیا طبقہ یعنی پرولتاریہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔

’’کارل مارکس‘‘

1830ء سے 1835ء تک مارکس نے ٹرئیر کے جمناسٹکااسکول میں تعلیم حاصل کی۔ جس مضمون پر اُن کو بی اے کی ڈ گری دی گئی اُس کا عنوان تھا ’’پیشہ اختیار کرنے کے متعلق ایک نوجوان کے تصورات‘‘۔ اِس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ17سالہ مارکس نے ابتدا ہی سے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو ٹھہرایا۔ 

جمناسٹکااسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پہلے تو بون اور پھر برلن یونیورسٹی میں قانون پڑھا۔ علم قانون اُس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن انھوں نے فلسفہ اور تاریخ میں بھی گہری دلچسپی لی۔ 1841ء میں انھوں نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لئے پیش کیا۔

کارل نے1842 ءمیں کولون شہر کا رخ کیا اور وہاں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد ہی اس کی ذہانت اور علمیت کے بل بوتے پر اسے اخبار کا مدیر مقرر کر دیا گیا۔ کارل نے آزادیٔ صحافت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی جس پر اس کے کام کو اس دور کے درمیانے طبقے نے سراہا۔ اس نے بادشاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور درمیانے طبقے کی خواہشات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔ اس دور کی آمریت کو کولون کے درمیانے اور کاروباری طبقے کی آواز میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی اور کچھ ہی مہینوں بعد روس کے زار کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کے جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔

1843 ءمیں پیرس شہر ہر طرح کے انقلابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کارل نے کولون کے ناکام تجربے کے بعد پیرس سے ایک ماہنامہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد میں البتہ وہ ناکام رہا اور اس ماہنامے کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں بھی دو مضامین تو کارل کے ہی تھے۔ ان مضامین میں کارل نے جرمن وفاق (جس کے 39 صوبے تھے) کے مستقبل پر بحث کی تھی۔

’’کارل مارکس‘‘

آج یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی فلسفی، معیشت دان ، سائنسدان اور انقلابی رہنما کو اتنی مقبولیت اور پذیرائی نہیں ملی جتنی کارل مارکس کے حصے میں آئی۔اس تمام عرصے میں مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں، اتنی تاریخ میں کسی نظرئیے کے ساتھ نہیں کی گئیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے پوری قوت سے اس کے نظریات کو رد کرنے کی کوشش کی ۔ مارکس کے نظریات کے خلاف ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور لاکھوں مضامین شائع کیے گئے تا کہ انہیں غلط ثابت کیا جا سکے اور تاریخ سے ان کا نام مٹا دیا جائے لیکن ان تمام تر حملوں کے باوجود مارکس کا نام اور نظریہ پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھر کر سامنے آیا اور نہ صر ف سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق ان کی پیش گوئیاں متعدد دفعہ سچ ثابت ہوئیں اور واقعات کی کسوٹی پر پوری اتریں بلکہ ان کا تجزیہ اور اس بحران کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حل بھی آج پہلے کی نسبت زیادہ درست ہے۔

حکمران طبقات کے دشمن اور مزدور دوست نظریات کو عوام کی وسیع اکثریت سے دور رکھنے کے لیے دنیا بھر کے حکمرانوں نے جھوٹے اور بے بنیاد نظریات کا پوری قوت کے ساتھ پرچار کیا اور طرح طرح کی لفاظی کرتے ہوئے ماضی کے بوسیدہ نظریات کو نئے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن ایسی ہر کاوش نہ تو سماج کا درست تجزیہ کر سکی اور نہ ہی کسی اہم واقعے کی پیش گوئی کرتے ہوئے اس کا حل بتانے کے قابل رہی۔

آخری دنوں میں مارکس نے سیاسی معاشیات کو ا نتہائی مہارت کے ساتھ ٹھیک شکل دینے کیلئے اپنی تصنیف ’’سرمایہ‘‘ کو پورا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بہت زیادہ کام کرنے کی وجہ سے تندرستی ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اورصحت کی خرابی نے انہیں اپنی تصنیف ’’سرمایہ‘‘ کو مکمل نہ کرنے دیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین