• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
فورینزک سائنس مجرموں کے تعاقب میں

مرزا شاہد برلاس

قانون کا نفاذ اور جرائم کی تفتیش محکمہ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن چوں کہ آج کل جرائم کی وارداتوں کے طریقے کار میں کافی تبدلی آگئی ہے چناں چہ اب ان کےتفتیش کے طریقے بھی بہت بدل گئے ہیںجن میں فورینسک سائنس کا عمل دخل کافی بڑھ گیا ہے۔

فورنیسک سائنس (Forensic sciences) سائنس کا وہ شعبہ ہے ،جس میں دوسرے بہت سے ذیلی سائنسی شعبے شامل ہیں۔ یہ وہ تمام علوم ہیں جو ہر قسم کے جرائم کی تفتیش میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں،کیوںکہ یہ مجرم کے جرم کے وہ سائنسی ثبوت عدالت میں پیش کرتے ہیں جو عدالت اور جیوری کی غیر جانبداری کے باوجود مجرم کی سزا کا فیصلہ صرف اس لیے کرتے ہیں،کیوں کہ ا ن کے پس پشت صرف سائنس ہوتی ہے۔ان تفتیش کاروں میں سے کچھ تفتیش کار جرائم کا معائنہ کرتے ہیں توکچھ جرائم کی تفتیش میں جرم کے واقعےکو دوہرا کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،جب کہ کچھ تفتیش کارلیباریٹریوں میں جرائم کے ثبوت حاصل کرتے ہیں۔ اگرایک طرف ان ماہرین کا مدعا صحیح ملزم کو سزا دلانا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ ناکردہ گناہ کو سزا سے بچانا بھی چاہتے ہیں۔

…عدالتی بشریات…

فرض کیجئے کہ کسی جگہ پر ایک انسانی ڈھانچہ ملتا ہے ،جس کا تمام گوشت گل کر یا جل کر ختم ہوگیا اور اس کی صرف جلی ہوئی ہڈیاں باقی ہیں۔اگرتمام جسم کی ہڈیاں ختم بھی ہوجائیں تو بھی کھوپڑی اور دانت بہت زیادہ لمبے عرصہ تک محفوظ رہتے ہیں ۔ اس ڈھانچہ سے اس شخص کی شناخت کے لئے ایک بشریاتی سائنس کے ماہر کی خدمات کی ضرورت ہوگی، جو اس کی ہڈیوں کے مطالعہ سے اس کی نسل، جنس، عمر اور موت کی بابت معلومات حاصل کرسکتا ہے، جس میں دانتوں کی بناوٹ کافی مددگار ہوتی ہے ۔ دانت یا داڑھ سے اس کاڈی این اے بھی لیا جاسکتا ہے ،جو اس کی ذاتی شناخت اور اس کے خاندان کی شناخت کی تصدیق میں بھی مدد کرے گا۔

اس کی کھوپڑی پرایک عدالتی مصور اس کی اصلی شکل تشکیل کرکے اس کی تصاویر لیتا ہے، جن کی تشہیر سے وہ لوگ سامنے آسکتے ہیںجو اس کو جانتے ہوں گے ۔ لاش کے پاس ملنے والی اشیاء کے مطالعے سے بھی بہت سے دوسرے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

عدالتی بشریات کا ماہر آثار قدیمہ((Archology کے شعبہ میں بھی تربیت یافتہ ہوتا ہے، جس سے اس کو کسی مدفون لاش اور اس کےساتھ کی چیز وں کوحفاظت سے کھود کر نکالنے کافن آتا ہوگا،تاکہ لاش کاکوئی حصہ یا اس کے ساتھ کی کوئی چیز ضائع نہ ہوجائے۔ وہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ تمام ملنے والی چیزوںکے باہمی فاصلو ں کی پیمائش کرکے ان کے نقشے بنالے جو بعد میں تفتیش میں مددگار ہوں گے،کیوں کہ کسی بم کے پھٹنے ، آگ لگنے یا ہوائی حادثے میں چیزیں اور انسانی اعضا کے ٹکڑے اور ہڈیاں اِدھر َادھر بکھر جاتی ہیں۔

…عدالتی حشریات…

اگر کوئی پرانی لاش ملتی ہے تو لاش پر ملنے والے کیڑوں یا حشرات کی اقسام سے اس کی موت کا دن معلوم کیا جاسکے گا، جن کی شناخت کے لیے عدالتی حشریات کے ماہر کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح اگر لاش پر درختوں کے پھولوں کا زیرہ ملتا ہے توان درختوںکی شناخت ہوسکتی ہے اور اگر وہ درخت لاش ملنے والے مقام پر نہ ہوں تو اس مقام تک رہنمائی ہوسکتی ہے جہاں وہ درخت موجود ہوں جہاں پہلے لاش رکھی گئی تھی۔اسی طرح اگر لاش کے ساتھ کی کسی چیز پر لگی ہوئی مٹی لاش ملنے والی جگہ سے مختلف ہو تو یہ مٹی اس جگہ کی نشاندہی کردے گی ۔جہاں جرم واقع ہوا تھا۔ کسی انسان کاایک بال یا دو تین مختلف بالوں سے ان سب لوگوں کا ڈی این اے حاصل کیا جاسکے گا ،جو جرم کے وقوعہ پر کسی وقت بھی موجود رہے ہوں گے۔ اسی طرح جانور وں کے بالوںیا رویں سے ان کی قسم اور نسل کی شناخت بھی ہو جائے گی۔ جو آگے چل کر تفتیش کی پیش رفت میں کارآمد ثابت ہوگی۔ یورپ اور امریکا میں ڈی این اے کے ذریعہ سے تفتیشی افسران نے ان مجرموں کو سزا دلائی ہے جنھوں نے ڈی این اے کی دریافت سے دو تین عشرے پہلے جرائم کئے تھے، کیوں کہ وقوعہ کی جگہ سے ملنے والی چیزیں محفوظ تھیںاور وہاں پر جو کیس حل نہیں ہوتے وہ کولڈ کیسس (cold cases) کہلاتے ہیں اور ان سے متعلق تمام سامان محفوظ رہتا ہے۔

… عدالتی جرائمیاتی ماہر…

اس کے ماہرین ان باتوں کا بآسانی پتا لگا سکتے ہیں کہ کوئی مجرم کہاں جرم کرتا ہے ،اس کے بعد وہ جہاں بھی جاتا ہے ۔ جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے اور جو چیز ان جانے میں چھوڑ جاتاہے۔ وہ اس کے جرم کے خلاف خاموش گواہ ہیں۔ چاہے وہ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان ہوں چاہے پیروں اور جوتوں کے نشان۔ جوسب اس کی شناخت میں معاون ہوتے ہیں ۔اسی طرح اس کے بال ،لعاب ، خون یا اورکوئی جسمانی رقیق اس کاڈی این اے لینے کے علاوہ اس کی شناخت کو ممکن بنادیں گے۔

کپڑوں کے دھاگے یا بٹن، قالین کا رواں، سگریٹ کا بجھا ٹکڑا،گلاس کا ٹکڑا ،اسٹور کی رسید یہ سب وہ ثبوت ہیں جو مجرم کے جرم کی گواہی دیتے ہیں۔ جو لوگوں کے اجتماع سے ضائع ہوسکتے ہیں یا تفتیشی افسر کی نالائقی سے نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ گو ان تمام چیزوں میں سے صرف دوچار چیزیں ہی تفتیش میں مددگار ہوں گی۔گاڑیوں کے ٹائر اور اجنبی جو توں کے نشان شناخت کرکے ان کو پلاسٹر آف پیرس پرمحفوظ کرکے عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گاڑیوں کے ایکسیڈینٹ سے اکھڑا ہوا پینٹ یا ٹوٹی ہوئی بتی کا پلاسٹک بھی مضبوط ثبوت ہوتا ہے۔عدالتی جرائمیاتی ماہرین ان چیزوں کو شناخت کرکے جمع کرنے کےذمہ دار ہوتے ہیں اور ان کو مختلف عدالتی سائنسوں کے ماہرین اور لیبا ر یٹریوں کو دیے کر ان کی رپورٹس حا صل کرتا ہےاور پھر ان کوعدالت میں پیش کرتا ہے ،تاکہ عدالت صحیح فیصلہ کر سکے ۔

…ڈیجیٹل اینڈ ملٹی میڈیا سائنس…

اس زمانے میں ڈیجیٹل اورملٹی میڈیا سائنس کے ماہرین بھی تفتیش کے معاملات میںبہت اہمیت رکھتے ہیں ،کیوں کہ مقتول اور قاتل کے موبائل فون، ٹیبلیٹ،لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، تصاویر،آڈیو ٹیپ، خودکار کیمروںکی ویڈیواور ڈیجیٹل کیمروںکی ویڈیو کے علاوہ موبائل یا انٹرنیٹ پر پیغامات کا تبادلہ بھی جرائم کی بابت معلومات فراہم کرتے ہیں ،جن کو ڈیجیٹل گواہیاں کہا جاتا ہے۔ان کے لیے ماہرین اسپیشل ہارڈویئر یا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح آڈیو اور ویڈیو ٹیپ میں ریکارڈ آوازوں کی شناخت یا مدھم تصاویر کی ریزولیشن بڑھا نے میں اسپیشل ٹول استعمال کئے جاتے ہیں، جس کے بعد لوگوں اور چیزوں کی شناخت کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔

مقتول کے زخموں اور وقوعہ کے مقام کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی سے بھی بہت سی کار آمد باتیں معلوم ہوتی ہیں، جن کو عدالت یا جیوری کو مطمئن کرنے کے لئے ثبوت کے طورپر پیش کیا جاسکتا ہےاور یہ سارے ذرائع مجرم تک پہنچنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج کل مشکوک افراد کو جھوٹ پکڑنے کے آلہ سے منسلک کرنے کے بعد سوالات کے جوابات دینے کے لئے کہاجاتا ہے، جس میں کارڈیوگرام کی طرح گراف پیپر پر گراف بنتا ہے، جو سچ بولنے پریکساں اور ہموار ہوتا ہے لیکن جھوٹ بولنے پر گراف میں اتار چڑھائو آتا ہے۔ اس طرح یا تو مشکوک افراد سے شک دور ہوجاتا ہے یا ان میں سے کسی ایک شخص پر یقین پختہ ہوجاتا ہے اورپھر پوری توجہ جھوٹ بولنے والے پر مرکوز ہوجاتی ہے اور تفتیش کار کو آسانی ہوجاتی ہے لیکن اس آلے کے گراف کو عدالت حتمی ثبوت سمجھ کر فیصلہ نہیں کرتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق مصوروں کے بنائے ہوے خاکے سے بھی مجرم کا سراغ لگانے میں معاونت ہوتی ہے ۔ عدالتی جرنل سائنسٹسٹ کے ماہر ین کا کام شعبہ لیباریٹری کے نتائج موقع واردات پر تفتیش اور کلینیکل نتائج حاصل کرنا ہوتاہے ،جس کے لئے وہ دوسرے اسپیشلسٹ سائنسٹسٹ سے رابطے کرکے ان کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں آتشی ہتھیاروں کے تجزیہ کرنے والےجیولوجی کے ماہرین، گاڑیوں کے ایکسیڈینٹ ،ہینڈ رائٹنگ کی شناخت اور تجزیہ کے ماہر،ڈاکومینٹ کی شناخت کرنے والے آگ لگنے کی وجوہات کا تجزیہ کرنے والے بلڈنگ کے گرنے کی وجوہات کا سراغ لگانے والےچاقو یا گولی سے خون نکلنے والے چھینٹوںکی شکل کا تجزیہ کرنے والے شامل ہیں۔

…امراضیات اور حیاتیات…

ان شعبہ جات کے ماہرین کا کام جرم کی تفتیش میں بہت اہم ہوتا ہے ،کیوں کہ یہ پوسٹ مارٹم کرکے موت کا وقت اور اس کی وجوہا ت بتاتے ہیں، جس میں زخموں کی نوعیت اور استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی شناخت ہو جاتی ہے۔ ان ماہرین کو وقوعوں کا جائزہ لے کر وہاں سے مختلف شہادتیں جمع کرنی ہوتی ہیں، جن میںگولیاں، بال، خون یا خون زدہ اشیاء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ واقع میںشامل افراد کاڈی این اے حاصل کرنا بھی ان ماہرین کی ذمہ داری ہے۔کسی اجنبی کی شخصیت کی شناخت کے لئے اس کے دانتوں کے ریکاڑد کے لیے عدالتی دندانیات کی مدد بھی حا صل کی جاسکتی ہے ۔حیاتیاتی ماہر غیر جانبداری سے تمام تفصیلات تحریر کرکے تصاویر کے ساتھ عدالت میں داخل کرتا ہے، جس کے نتیجے میں یا تو کوئی ملزم عدالت سے بری ہوسکتا ہے یا اس کو اس کے جرم کی سزا ہوجاتی ہے ۔

تفتیش کے درمیان یہی شخص چوں کہ تمام تفتیشی ٹیم سے واقف ہونے کے علاوہ تفتیش کی پروگریس سے واقف ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق مقتولین کے علاوہ ایکسیڈینٹ ، تندرست افرادکی اچانک اموات ، پولیس کی کسٹڈی میں ملزمان اورہسپتال کے عملے کی غفلت سے ہونے والی یاکسی عوامی بلڈنگ یا مقام پر ہونے والی تمام اموات کا قانونی طور پر لازمی پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے۔

…عدالتی نفسیاتی تجزیہ کاری…

سو ل کریمینل اور خاندانی کیسوں میں ان کی رائے کی بہت اہمیت ہوتی ہے ،کیوں کہ بچوں کی کسٹڈی، والدین کی ذہنی صلاحیت ،گھریلو جھگڑے اور بچوں کو گودلینے جیسے مسائل میں عدالت میں ان کی گواہی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کیس میں شامل افراد کے وکیلوں سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ یہ ملزموں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ بلکہ امریکا میں اگر ایک علاقے میں یکساں نوعیت کے دو جرائم واقع ہوجائیں۔ تو یہ مجرم کی پروفائل ((Profile ترتیب دیتے ہیں جن میں سابقہ مجرمین کے کوائف اور اپنے تجربے کی رو سے مجرم کی عمر،نسل اس کا قد اور پیشے کی بابت معلومات فراہم کرتے ہیں جو عموماًصحیح ہوتا ہےاورتفتیش کاروں کو مجرموں کی گرفتاری میں کافی معاون ہوتا ہے۔

…عدالتی سمیات…

اس شعبہ کے ماہرین کا کام دوائوں(ڈرگ) اور کیمیکل کے انسانوں اور جانوروں پر پڑنے والے مضر اثرات کا جائزہ لینا ہوتاہے، جس کو ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ کیا تجویز کردہ دواکی مقدار انسان کی موت کا باعث ہوئی ہے؟ کیا یہ شخص دوا یا شراب کے مضر اثرات کی زد میں تونہیں تھا؟ کیا جرم کروانے کے لئے اسے کوئی نشہ آور چیز دی گئی تھی؟ان تمام سوالات کے جوابات کے حصول کے لیے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے اور پھر ان کو لیباریٹری میں ٹیسٹ کرکے ان کے جوابات حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی اور نے اس کو جرم پر آمادہ کیا ہو تو وہ شریک جرم سمجھا جائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین