• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صادقہ خان

بالآخر 12 اگست 2018 ء کو وہ دن آہی گیا ،جس کا دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی کو ایک عر صے سے انتظار تھا ۔تقریباً 24 گھنٹے کی تاخیر کے بعد پار کر سولر پروب کو ناسا کےکیپ کیناورل لانچنگ پیڈ سے سورج کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے وائجر ون ،ٹو اور نیو ہوریزن پروبس کو خلا میں اسی طرح بھیجا جاچکا ہے جن کے نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں تک رسائی اور کیوپر بیلٹ سے آگے تک کے اہداف تھے،مگر یہ پہلا موقع ہے کہ سورج کی جانب کوئی خلائی گاڑی بھیجی گئی ہے جسے عموما ًماورائی داستانوں میں سورج دیوتا کا نام دیا جاتا رہا ہے ۔ یہ خلائی گاڑی سورج کے بیرونی جانب کے ماحول ' کرونا ' میں داخل ہونے سے پہلے اس ستارے کے گرد 24 چکر کاٹے گی۔ اس دوران جب یہ سورج کے قریب ترین مقام پر ہوگی تو فاصلہ گھٹ کر محض 60 لاکھ کلومیٹر رہ جائے گا جو اب تک خلا میں بھیجی جانے والی دیگر خلائی گاڑیوں کے مقابلے میں مرکری سے 8 گنا زیادہ قر یب ہوگی ۔اس کم فاصلے پر ہونے کے باوجود یہ خلائی گاڑی سورج کی شدید حدت سے پگھل نہیں سکے گی ،کیوں کہ ناساکایہ مشن چھ سال 31 دن پر مشتمل ہے اور میعاد پوری ہو جانے بعد پارکر سولر پروب کو بھی کیسینی خلائی گاڑی کی طرح سورج میں گرا کر تباہ کر دیا جا ئے گا۔ مشن کے آغاز میں جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان میں اول نمبر پر سورج کے انتہائی بیرونی ماحول کرونا کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے جہاں درجۂ حرارت سورج کی سطح کی نسبت کافی زیادہ ہے ۔ 

سائنس داںکرونا پر اس انتہائی درجۂ حرارت کی وجہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ یہ عمل بظاہر قوا نین ِ قدرت کے برعکس ہے ۔ اس امر کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی جنگل کے عین وسط میں آگ بھڑ ک رہی ہو تو اس آگ سے جتنا دور جایا جائے تو اس کی حدت کم ہونے لگتی ہے، مگر سورج کی صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے، کیوں کہ کرونا مرکز سے زیادہ گرم ہے۔ماہرین یہ معمہ ابھی تک حل نہیں کر سکے کہ وہ شمسی ہوائیں ،جس کا ماخذ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر یہ شدید گرم چار ج والے ذرات سے اٹی ہوئیں ہوائیں کس طر ح مسلسل پیدا ہوتی رہتی ہیں ؟ اور جب یہ ہوائیں سیارہ زمین کے قریب سے گزرتی ہیں تو ان کی رفتار ناقابل ِیقین حد تک زیادہ ہوتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیر مرعی شے ہے جوان کے اخراج اور مسلسل روانی کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا ٰ سائنس داںپارکر سولر پروب کے ذریعے اس معمے کو حل کرنے کے لیے بہت پر جوش ہیں ۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اس خلائی گاڑی میں جو مخصوص جدیدآلات نصب کیےگئے ہیں ان میں سب سے اہم سولر وائنڈ الفاز اینڈ پروٹان انویسٹی گیٹر ہے، جس کی مدد سے شمسی ہواؤں میں موجود چارج کے ذرات کے اعدادو شمار اکھٹے کیے جائیں گے۔علاوہ ازیں یہ ان ہواؤں میں موجود الیکٹران، پروٹان اور ہیلیم کے ذرات کی دیگر خصوصیات بھی معلوم کر ے گا۔اس کے ساتھ ہی سورج کے بیرونی ماحول کرونا اور اور اندرونی حصے 'ہیلیو سفیئر ' کی تھری ڈی تصا ویر بنا نے کے لیےپارکر خلائی گاڑی میں ایک وائڈ فیلڈ امیجر یا کیمرہ بھی نصب کیا گیا ہے ۔ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب خلائی گاڑی سورج کے نزدیک ترین مقام پر ہوگی تو یہ سورج میں آنے والے طوفانوں اور شاکس کی تصاویر بھی لے سکے گا۔ جب کہ سورج سے خارج ہونے والی طاقتور برقی مقناطیسی شاکس سے نکلنے والی موجوں کو پرکھنے اور ان کے لیےاعداد و شمار معلوم کرنے کے لیے پارکر سولر پروب میں ایک فیلڈ انویسٹی گیٹر بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس میں ایک ماس ا سپیکٹرو میٹر بھی موجود ہے جو کرونا میں ایسے ذرات دریافت کرے گا جن سے ہم اب تک واقف نہیں ہیں ۔ یعنی یہ نئے ذرات پر تحقیق کرنے کے کام آئے گا۔

پارکر خلائی گاڑی 4 ماہ سے زیادہ کا سفر کرتے ہوئے نومبر 2018 میں سورج کے نزدیک پہنچے گی اور تقریباً7برس تک سورج کے متعلق تحقیقات میں معاونت کرے گی۔جس وقت یہ سورج سے نزدیک ترین مقام پر ہوگی تو اس کے آگے کے حصوں کو تقریباََ 1377 سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت کا سامنا کرنا ہوگا ، جس کے لیےاس خلائی گاڑی میں ایک خود کار کولنگ کا نظام بنا یا گیا ہے جو اس کے اندرونی درجۂ حرارت کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اس مشن کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ بھی سائنس دانوں کو پریشان کرتا رہا ہے ، چوں کہ سورج تک پہنچنے سے پہلے اس خلائی گاڑی کو خلا کے شدید سرد منجمد کردینے والے ماحول سے گزرنا ہوگا ۔لہٰذا ماہرین کو اس کی ساخت کچھ اس طرح بنانی تھی کہ یہ خلائی گاڑی انتہائی سرد اور گر م ترین دونوں طرح کے درجۂ حرارت کو برداشت کر سکے۔ کئی برس کے تجربات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر پانی کو بہت زیادہ دباؤ کے ساتھ کسی آلے میں داخل کیا جائے تو وہ بہترین کولنٹ ( ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت کا حامل) ثابت ہوتا ہے۔ 

جو 10 سینٹی گریڈ ڈگری سے 125 ڈگری تک با ٓسانی کام سرانجام دے سکتا ہے۔ جب کہ پانی پر دباؤ بڑھانے سے اس کا نقطۂ کھولاؤ بڑھ جاتا ہے۔لہٰذا ہم نے اس خلائی گاڑی میں پانی کو کولنٹ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن خلا میں بھیجنے کے بعد درجۂ حرارت میں تبدیلی سے اس میں موجود پانی پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ماہرین کے مطابق سب سے پہلے اس کے کولنگ سسٹم کا درجۂ حرارت کم ہوکر نفی 140 سینٹی گریڈ ہو جائے گا،مگر جیسے ہی یہ گاڑی سورج کی طرف بڑھے گی ،درجۂ حرارت تیزی سے بڑھنے لگےگا اور اسی وقت اس کولنگ سسٹم کے اصل کام کا آغاز ہوگا ۔اس خلائی گاڑی کو سورج سے 60 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرنے کے لیے تقریباً 2 لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوگی جو اسے ایک خاص عمل گریوی ٹیشنل اسسٹ کی مدد سے ملے گی۔ اس تیکنیک میں ایندھن استعمال کیے بغیر سیاروں کی گریویٹی خلائی گاڑیوں کو آگے دھکیلتی ہیں اور وائجر ون ،ٹو اور نیو ہریزون پروب اسی کی مدد سے اب ہمارے نظام شمسی سے باہر جا چکی ہیں ۔ جب یہ خلائی گاڑی سورج کے قریب ترین مقام پر پہنچے گی تو اس کے اندرونی افعال میں از خود مزید تبدیلیاں رونما ہو ں گی اور زمین سے کسی مدد کے بغیر یہ روشنی حاصل کرےگی ، پھرڈیٹا ریڈیو سگنلز کی صورت میں زمین تک پہنچا یا جائے گا ۔واضح رہے کہ روشنی کو سورج سے زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ کا وقت لگتا ہے۔اس کے بعد اس کے اندر موجود سوفٹ ویئرز ازخود سورج کی شدید حدت سے اس کی حفاظت کا انتظام کریں گے۔

اگرچہ ماہرین نے کئی برس بھرپور تجربات اور تحقیقات کرکے اس کی ساخت اور کولنگ کا نظام تشکیل دیا تھا، مگر وہ اس امر سے ہر گز غافل نہیں ہیں کہ سورج کے ماحول کرونا میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی سے ان کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ سکتی ہے ، اس لیے اس خطرے کوکم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور امکان یہی ہے کہ شمسی ہواؤں کی بدولت اس کے کولنگ نظام میں بہت معمولی سی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔اس منصوبے پر برسوں سے کام کرنے والے ناسا کے سائنس دانوں کے مطابق پارکر سولر پروب ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک ایسی خلائی گاڑی ہے جو مستقبل میں کیسینی خلائی گاڑی سے بھی زیادہ اہم دریافتیں کرنے میں مدد دے گی۔ اور اس کے ذریعے شمسی ہواؤں، سورج کے بیرونی ماحول کرونا اور نظام شمسی کے دیگر سیاروں سے متعلق وہ تمام معمے حل ہوجائیں گے جنہوں نے کئی عشروں سے سائنس دانوں اور ماہرین ِ فلکیات کی دماغوں کو گھن چکر بنایا ہوا ہے۔ اس خلائی گاڑی میں ایک مائیکرو چپ بھی محفوظ کی گئی ہے ،جس میں دنیا بھر سے تقریباً 50 لاکھ افراد کے نام درج کیےگئے ہیں جو یہ خواہش رکھتے تھے کہ ان کے نام کسی عظیم مشن کا حصہ بن کر خلا میں بھیجے جائیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین