پاکستان سے دوسرے ممالک بہتر مستقبل کے لئے ہجرت کرنے والے پاکستانیوں نے اُن ممالک میں جا کر جہاں تلاش رزق کے لئے دن رات محنت کی وہیں اپنے کلچر کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیا۔ تارکین وطن پاکستانیوں نے جہاں اپنے قومی و مذہبی دنوں کو شایان انداز سے منایا وہیں انہوں نے اپنے ثقافتی کھیلوں کبڈی، رسہ کشی اور والی بال کو بھی اس قدر فروغ دیا کہ مقامی کمیونٹیز نے بھی ان کھیلوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ یورپی ممالک میں پاکستانیوں کی زیادہ تعداد مقیم ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقامی کلچرل مصروفیات میں بھر پور حصہ لیتی ہے تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ ہم اپنے وطن عزیز کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو بھی اپنا دیس سمجھتے ہیں اور یہ ملک ہمارے لئے دوسرا گھر ہے ۔
یورپی کمیونٹی بھی پاکستانیوں کے ساتھ رہنے اور ان کی رسومات میں شامل ہونے کو ترجیح دیتی ہے ۔ پاکستانیوں نے اردو ادب کو زندہ و جاوداں رکھنے کے لئے یورپی ممالک میں اردو کانفرنسوںاور مشاعروںکا اہتمام کا سلسلہ بھی شروع کیا تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کو اردو ادب سے روشناس کیا جائے ، پاکستانی کمیونٹی اس کام میں بہت حد تک کامیاب بھی رہی اور آج دیار غیر میں پروان چڑھنے والی ہماری نسلیں جہاں اپنے قومی و مذہبی دنوں سے مانوس ہیں وہیں وہ اپنی قومی زبان اردو سے بھی شناسائی رکھتی ہیں ۔یہ المیہ اپنی جگہ کہ تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا یا یہ کہہ لیں ان مسائل کے بارے میں کسی نے سوچا ہی نہیں کہ انہیں حل کیا جائے یا حل کرنے کے لئے کچھ پالیسیاں بنائی جائیں ، لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان سے آنے والے شعراء اور ادیبوں نے دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے کلام اور مضامین سے اس قدرمحظوظ کیا۔
اسپین میں مسلمانوں کے کئی صدیوں پر محیط اقتدار کی باقیات آج بھی موجود ہیں ، ہسپانوی صوبے کاتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا کے خوبصورت ترین مقم منجوئیک پر سالانہ بین الاقوامی ثقافتی میلہ ’’ گریک ‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسپین میں مقیم مختلف ممالک کے باشندے اپنے اپنے کلچر کو پرموٹ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارا رہن سہن اور تہذیب و تمدن کیا ہے اور ہم اپنے ممالک میں کس انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں ، اس حوالے سے اس سال پہلی بار گریک فیسٹیول میں پاکستان کو بھی نمائندگی کا موقع دیا گیا، جس میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا میں تعینات ویلفیئر قونصلر عمر عباس نے بھی شرکت کی ، پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے حافظ احمد خان پیش پیش رہے جنہوں نے اسپین میں مقیم مختلف شعراء اور گائیکوں کا اکھٹا کیا تاکہ پاکستان کا کلچر پیش کیا جا سکے ۔اسپین میں مقیم شعراء حضرات جن میں راجہ عرفان مجید ، ارم بتول ، سیدشیراز ، فیاض ملک نے اپنا اپنا کلام سنایا جس کا ساتھ ساتھ ا سپینش زبان مین ترجمہ بھی پیش کیا گیا جسے حاضرین نے بہت سراہا ۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی معروف آواز قدیر خان جو ایسی محافل کی جان سمجھے ہیں انہوں نے ہارمونیم اور طبلہ کی سنگت کے ساتھ صوفی کلام پیش کیا تو فضاء میں ایک سکوت طاری ہو گیا جوں جوں قدیر خان کے راگ اور گائیکی فضاوں میں پھیلتی گئی مقامی کمیونٹی کی دلچسپی مزید بڑھتی گئی اور وہ بے اختیار دھمال ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور قدیر خان سے مزید کلام بھی سنا گیا ، اس ماحول کو مقامی کمیونٹی کے افراد انتہائی لگن کے ساتھ دیکھ اور سن رہے تھے کیونکہ پاکستان کی اس میلے میں پہلی بار شرکت ہوئی تھی ۔اس موقع پر بشالی سرکار نے فریدہ خانم اور جگجیت سنگھ کی غزلیں سنا کر خوب داد سمیٹی ، گریک فیسٹیول میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفد کی میزبانی ڈاکٹر سندس نے خوبصورت انداز سے کی اور انہوں نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے ۔
پاکستان کی نمائندگی کے لئےاردو اکیڈیمی بارسلونا اور کاسہ ایشیا کی کاوشیں یقیناً بہت زیادہ تھیں ۔یہاں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ گریک فیسٹیول 40سال سے منعقد ہوتا ہے اور پہلی بار ایسا ہوا کہ اس میں پاکستان کو نمائندگی کرنے کا موقع ملا ۔اس موقع پر پاکستانی مندوبین نے کہا کہ ایسے کلچرل میلے میں پاکستان کو نمائندگی ملنا انتہائی خوش آئند اقدام ہے ۔روزنامہ جنگ سے بات کرتے ہوئے ویلفیئر قونصلر بارسلونا عمر عباس میلہ نے کہا کہ ایسے پروگرامز میں پاکستان کو نمائندگی ملنا انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ اس طرح دو اقوام کو ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور فاصلے کم ہوتے ہیں قربتیں بڑھتی ہیں ، انہوں نے کہا کہ ایسے میلوں اور پروگراموںمیں شامل ہونے والے پاکستانیوں کے کلچر کو سمجھنا آسان ہو جائے گا کیونکہ ہم ایک پر امن اور محبت کرنے والی قوم بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔