قیصر مسعود جعفری
سید اسد جہاں 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ آُن کے والد سیّد ناصر جہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں ’’پروڈیوسر‘‘ اور بہت عمدہ آواز کے مالک تھے ،اسد جہاں نے ٹی وی سے نشر ہونے والی ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کے بعد جب نوحہ اور سلامِ آخر پڑھا تو ایک سماں بندھ گیا
10؍ محرم کی رات ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کا سب کو شدت سے انتظار رہتا ہے، خواہ ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ ریڈیو پاکستان سے نشر ہو یا ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہو، سامعین اور ناظرین کو مجلس کے اختتام پر نوحہ ’’گھبرائے کی زینب‘‘ اور سلامِ آخر ’’سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا‘‘ بھی انتظار ہوتا ہے، یہ نوحہ اور سلامِ آخر مرحوم سیّد ناصر جہاں، جس طرز اور جس عقیدت کے ساتھ پڑھتے تھے، اس نے اُس کلام کے ساتھ ساتھ خود سیّد ناصر جہاں کو بھی امر کردیا ہے۔ ناصر جہاں کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے سیّد اسد جہاں اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے گھرانے کی اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سیّد اسد جہاں نے بتایا کہ وہ اپنے والد اور والدہ دونوں سے بے حد متاثر ہیں، کیوں کہ ان کے والدین کو بھی خدا نے بہت ہی عمدہ اور خوب صورت آوازوں سے نوازا ہے۔ یہی نہیں، مدحتِ محمدؐ اور آلِ محمدؐ کو اپنا مقصدِ حیات بنایا ہوا ہے۔ اسد جہاں نے نوحے اور سلامِ آخر پڑھنے کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نوحہ ’’گھبرائے گی زینب‘‘ ہندوستان کے ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر نے کئی سال پہلے لکھا تھا اور اس نوحے کو بھارت میں بھی پڑھا جاتا تھا، لیکن 1952ء میں جب ریڈیو پاکستان کراچی سے مجلسِ شامِ غریباں نشر کی جانے والی تھی تو ان کے والد سے ’’نوحے‘‘ اور ’’سلام‘‘ کے لیے کہا گیا، ان کے والد نے صرف دو منٹ میں اس نوحے ’’گھبرائے گی زینب‘‘ اور ’’سلامِ آخر‘‘ کی طرز بنا کر اسے مجلس کے اختتام پر پہلی بار پڑھا تو ہر آنکھ سے آنسو جاری تھے اور پھر یہ ہوا کہ یہ نوحہ اور سلامِ آخر ہر سال ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی مجلسِ شامِ غریباں کے بعد نشر ہونا شروع ہوگیا۔ چوں کہ ملک میں اس وقت ٹیلی ویژن تو تھا نہیں، اس لیے ہر شخص ریڈیو ہی سُنتا تھا اور یہ مجلس دنیا بھر میں لوگ سُنتے تھے، اس طرح جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو مرحوم سیّد ناصر جہاں نے یہ نوحہ اور سلامِ آخر ٹی وی پر پڑھنا شروع کیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس سلسلے کو سیّد اسد جہاں نے جاری رکھا ہے۔ سید اسد جہاں 1964ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سیّد ناصر جہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں ’’پروڈیوسر‘‘ اور بہت عمدہ آواز کے مالک تھے اور اس وقت چند مشہور ’’نعت خوانوں‘‘ میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔ کراچی سے راولپنڈی ٹرانسفر ہو جانے کی وجہ سے پوری فیملی کو راولپنڈی منتقل ہونا پڑا، اس طرح اسد جہاں کی پوری تعلیم راولپنڈی میں ہوئی۔ گریجویشن گورڈن کالج راولپنڈی سے اور ’’ایم اے‘‘ پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ اسد جہاں کو بھی بچپن سےنعت اور سلام پڑھنے کا شوق تھا ،اس کے علاوہ وہ دوسروں کی آواز کی نقل بھی بڑی عمدگی سے کر لیا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے اپنے والد کے پڑھنے کی طرز کو اپنا لیا۔ ان کی عمر جب 14 سال تھی اور وہ محرم میں واجد علی شاہ کے ہاں مجالس پڑھنے لاہورگئے ہوئے تھے تو ان کے والد ناصر جہاں نے مجلس کے آغاز سے پہلے اسد جہاں سےکہا کہ وہ ’’سلام‘‘ پڑھیں، تقریباً 5 ہزار کا مجمع تھا اور پہلی بار میز پر بیٹھ کر اسد جہاں نے اپنے والد کے انداز میں سلام پڑھا تو پورا مجمع دم بخود رہ گیا۔
سیّد اسد جہاں نے بتایا کہ والد کے انتقال کے ایک سال بعد تک ٹی وی نے ان کی پرانی ریکارڈنگ دکھائی، لیکن 1992ء میں اسلام آباد ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر عارف رانا نے ان سے رابطہ کیا اور اس نوحے اور سلامِ آخر کی ریکارڈنگ کے لیے کہا تو ٹیلی ویژن پر ان کا کلام پہلی ہی ٹیک میں محض 15 منٹ میں ریکارڈ ہوگیا، لیکن ریکارڈنگ کے بعد وہاں ہر شخص زار و قطار رو رہا تھا اور مجھے شاباش دی کہ تم نے اپنے والد کے نام کو زندہ کردیا ہے۔ میں آج بھی اپنے والد کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے جہدِ مسلسل میں مصروف ہوں۔ اسد جہاں نے ٹی وی سے نشر ہونے والی ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کے بعد جب یہ نوحہ اور سلامِ آخر پڑھا تو عجب ہی سماں تھا، کیوں کہ ’’جیو‘‘ کے باصلاحیت پروڈیوسر عباس سعید نے اس نوحے کو بہت ہی منفرد انداز میں سپرہائی وے پر ریت کے ٹیلوں کے درمیان خیمے لگا کر اور آگ کے شعلوں کی موجودگی میں اس ماحول میں ریکارڈ کیا تھا اور بقول سیّد اسد جہاں،میں نے کئی سال ٹی وی سے پڑھا ہے۔ ’’جیو‘‘ کی اسکرین پر نوحے اور ’’سلامِ آخر‘‘ سے مجھے زیادہ رسپانس ملا۔ اسد جہاں نے ہادی عسکری کی بنائی ہوئی ٹی وی ڈاکومنٹریز ’’سفرِ کربلا‘‘، ’’سفرِ شام‘‘، ’’سفرِ نجف‘‘ اور ’’سفرِ مشہد‘‘ میں پس پردہ ترنم کے ساتھ کلام پڑھا ہے۔ ان کے والد سیّد ناصر جہاں کے کلام کو بھی ہادی عسکری نے خوب صورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اسد جہاں کے سولہ کیسٹس نوحوں، سلام کے اور دو کیسٹ ’’نعتوں‘‘ کے ساتھ ساتھ چار وڈیو کیسٹس بھی ریلیز ہو چکے ہیں۔ اسد جہاں نے اپنے مرحوم والد کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے ’’سیّد ناصر جہاں فائونڈیشن‘‘ قائم کی ہوئی ہے، جس کے تحت یہ کیسٹس اور البم ریلیز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’فائونڈیشن‘‘ نئے پڑھنے والوں کی تربیت اور رہنمائی بھی کرتی ہے۔ سیّد اسد جہاں نے مشہور روحانی شخصیت بابا ذہین شاہ تاجی کے کلام کو بھی دو کیسٹس میں ریکارڈ کیا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ گدی نشین بابا عاطف شاہ تاجی نے ان کو تلاش کیا اور کہا کہ مرحوم بابا ذہین شاہ تاجی، آپ کے مرحوم والد سیّد ناصر جہاں کو بے حد پسند کرتے تھے اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ بابا ذہین شاہ تاجی کے کلام کو اپنے والد کے لہجے میں ریکارڈ کروائیں، اس طرح یہ دو کیسٹس تیار ہوئے، جو کہ ان کے مزار پر بھی سُنے جاتے ہیں۔ سیّد اسد جہاں نے کہا کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ نوحہ ’’گھبرائے گی زینب‘‘ ، ’’سلامِ آخر‘‘ اور ’’سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا‘‘ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کے علاوہ پوری دنیا میں چپے چپے پر جا کر پڑھ چکے ہیں اور یہ نوحہ اور سلامِ آخر ایک طرح سے عزاداری کا جزو بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری شناخت میرے والد کا پڑھا ہوا کلام ہے اور میں آج بھی ان کے پڑھے ہوئے کلام کو اُن کے لہجے میں پڑھ کر ان کو زندہ رکھے ہوئے ہوں اور ان کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔ اسد جہاں نے بتایا کہ ’’ایامِ عزاء‘‘ پُوری دنیا میں منائے جاتے ہیں اور میں نے بھی پُوری دنیا ہی دیکھ رکھی ہے، لیکن جو لُطف اور مزہ ’’لاہور‘‘ میں پڑھنے کا ہے، وہ مجھے کہیں اور نہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ چوں کہ میں نے بچپن میں آغاز بھی لاہور میں امام بارگاہ مبارک بیگم سے کیا تھا، اس لیے مجھے لاہور میں روحانی سکون ملتا ہے۔ اسد جہاں نے بتایا کہ وہ ایک کیسٹ پر کام کر رہے ہیں، جس میں اساتذہ کے کلام کے ساتھ ساتھ جدید شعراء کے کلام کو بھی شامل کیا ہے۔ ان شعراء میں سیّد آل رضا، نجم آفندی، جوش ملیح آبادی، میر انیس، آرزو لکھنوی، علامہ جمیل مظہری، شاہد نقوی اور محشر لکھنوی کا کلام شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ ’’نعتوں‘‘ کے بھی کیسٹ پر کام مکمل کرچکے ہیں۔ سید اسد جہاں نے کہا کہ مدحتِ رسولؐ اور آلِ رسولؐ میں سکون ملتا ہے اور یہی مشن ہے کہ ذکرِ محمدؐ اور آلِ محمدؐ کو آگے بڑھایا جائے…!!