سوال: میں پہلے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر کرائے کے مکان میں رہتاتھا ،میں نے اپنی سالی سے چار لاکھ روپے ادھار لیے ،جس میں ایک لاکھ روپے ملا کر زمین کا کام شروع کیا ،آج اللہ کے فضل سے اپنا مکان ہے ،میری سالی نے مجھے چار لاکھ روپے ادھار دیئے تھے ،اب میں چاہتاہوں کہ ماہانہ کچھ رقم اسے دے دیاکروں تاکہ اس کی مدد ہوجائے ،یہ سود تونہیں ہوگا ؟(راشد یعقوب)
جواب: جو رقم آپ کو ادھار دی گئی ہے ،اُ س رقم کی اتنی ہی مقدار میں واپسی آپ پر لازم ہے ،البتہ اگر پیشگی طے کیے بغیر اپنی خوشی سے کچھ اضافی رقم دیتے ہیں تو شرعاً اُس میں کوئی حرج نہیں اور نہ وہ سود میں شمار ہوگا ۔قرض اداکرتے وقت اصل سے زیادہ دینا مستحب ہے بشرطیکہ اس زیادتی کونہ عقد میں طے کیاجائے اورنہ قرض دینے والے کی طرف سے مطالبہ ہو ،اس کو حُسنِ قضاء کہتے ہیں۔حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کی واپسی کا)تقاضا کیا اور( مطالبے میں) سختی کی ،آپ ﷺ کے اصحاب نے(اسے ڈانٹنے یامارنے کا) ارادہ کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ حق دار کو مطالبہ کرنے کا حق ہے ، ایک اونٹ خرید کر اسے دے دو،صحابہؓ نے عرض کی:ہمیںاس کے اونٹ سے زیادہ عمر کا اونٹ مل رہاہے (یعنی اس کے اونٹ سے بہتر ہے) ،آپ ﷺ نے فرمایا: وہی خرید کر اسےدے دو ،کیونکہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح اداکرے،(صحیح بخاری:2390)‘‘۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ’’اس باب کی احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ قرض اداکرتے وقت اصل سے زیادہ دینا مستحب ہے، بشرطیکہ اس زیادتی کونہ عقد میں طے کیاجائے اورنہ قرض دینے والے کی طرف سے مطالبہ ہو ،اسی کو حُسنِ قضاء کہتے ہیں،جس کا حدیث میں ذکر ہے،(شرح صحیح مسلم، جلد4،ص:429)‘‘۔
لیکن ماہانہ نفع کی بنیاد پر آپ اسے اضافی رقم دیں گے تو یہ سود شمار ہوگا کیونکہ فقہی اصول ہے :’’جس قرض کی وجہ سے کوئی نفع اٹھایا جائے ، وہ سود ہے ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ یعنی ہروہ قرض جو حصولِ منفعت کا باعث بنے ، وہ سود ہے ،(اس کی تخریج حارث نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ) ،(کنزالعمال:15516)‘‘۔