ارشادِ ربّانی ہے: ’’اورکام میں ان سے مشورہ لے لو، پھر جب پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسا رکھو، (توکل کرو) بے شک، اللہ (توکل کرنے والوں) بھروسا کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، اگر اللہ تمہارا مددگار ہو تو کوئی تم پر غالب نہ آسکے گا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے، جو اُس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور اللہ ہی پر چاہیے کہ ایمان والے بھروسا رکھیں۔‘‘ (سُورۂ آلِ عمران / 159، 160)
ان آیات سے توکل کی حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ ’’توکل‘‘ بے دست و پائی اور ترکِ عمل کا نام نہیں،بلکہ توکل یہ ہے کہ پورے عزم و ارادے اور مستعدی سے کام کو انجام دینے کے ساتھ اثر اور نتیجے کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اللہ مددگار ہے تو کوئی ہمیں ناکام نہیں کر سکتا اور وہی نہ چاہے تو کسی کی کوشش و مدد کار آمد نہیں ہوسکتی۔اس لیے ہر بندۂ مومن پر فرض ہے کہ وہ اپنے کام میں اللہ پر بھروسا رکھے۔
بہ ا لفاظِ دیگر اسلام میں توکل کا مفہوم اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان حصولِ رزق اورکسبِ حلال کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور مادّی اسباب و ذرائع کو اختیار کرے،تمام تدابیرکو اپنائے اور اللہ تعالیٰ سے حُسنِ عاقبت اور حُسنِ معاملہ کی اُمید رکھے۔ توکل کے یہ معنیٰ نہیں کہ انسان سُستی، کاہلی اور بے کاری پر کمر باندھ لے،ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔روزگار کی تلاش اور کسبِ معاش کے لیے محنت، جدّوجہد،اور سعی و عمل سے کنارہ کش ہو جائے۔بے دست و پا ہوکر بیٹھ جائے،یہ سمجھ بیٹھے کہ جو کچھ ہوگا، عالمِ غیب سے ہوگا، رزق کے حصول کے لیے تدابیر اور وسائل و ذرائع اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ عمل اور یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی اور اسلام کی حقیقی رُوح کے خلاف ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی غربت وافلاس،بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی دیگر وجوہ کے علاوہ ایک بڑی وجہ تعلیم یافتہ اور ہُنر مند نوجوان طبقے کی سُستی، کاہلی، محنت و مشقّت سے جی چُرانا اور معاشی جدّوجہد سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔ورنہ اسلام کا نظریۂ محنت تو ہمہ وقت یہ تعلیم دیتا ہے کہ ؎
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے