• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی تخلیقیت و جدت طرازی کے دور سے موسوم ہے، جہاں انٹرنیٹ نےعالمگیریت و بین الاقوامیت کو فروغ دیکر عالمی و بین الاقوامی تعلیم کی راہیں نکالی ہیں۔ اس وقت آن لائن ایجوکیشن کا دور دورہ ہے، انٹرنیٹ نے معیاری تعلیم کو پہلے سے کہیں آسان اور دسترس میں کر دیا ہے۔ پہلا تعلیمی انقلاب زرعی دور کی پیداوار تھا،جو مقامی ضروریات کو دیکھتے ہوئے برپا ہوا۔دوسرا تعلیمی انقلاب صنعتی انقلاب سے وابستہ ہے، جب ہنر اور تیکنیکی تعلیم کا انقلاب در آیا۔کارخانوں میں ہنر مند افرادی قوت کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کھلنے لگے اور اوزار و ہتھیار کی سائنس ترویج پائی۔اب ہم ملازمت و کاروبار پر مبنی بین الاقوامی تعلیم کے تیسرے انقلاب سے گزر رہے ر ہیں جبکہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چوتھا صنعتی انقلاب ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

پہلا تعلیمی انقلاب

تعلیم کی دنیا میں پہلے انقلاب کی بات کریں تو ہمیں بابل و نینوا کے باشندوں کا احسان مند ہونا چاہیے، جنہوں نے تحریری رسم الخط کی داغ بیل ڈال کر زبانی و کلامی تعلیم کی بنیاد رکھنے والے یونان میں افلاطون کی تعلیمی درس گاہ ’اکیڈمی‘ کی تعلیم کو تحریر کا روپ دیا،جس سے انسان کی علمی تاریخ کو مرتب کرنے کی راہ نکلی،حالانکہ سقراط تحریر کو یادداشت کے لیے موت قرار دیتے تھے۔یہ ابتدائی دور تعلیم و تربیت کے لیے سنہری دور تھا،جب ایک ہی وقت میںدنیا کی عظیم تہذیبوں کا عروج ہوا جس میں وادی سندھ،میسوپوٹیمیا، قدیم مصر،چین، مایا، یوکتان اور رومی تہذیب شامل ہے۔ قدیم بابلی تہذیب میں تیسری صدی قبل از مسیح میں صفر کا ہندسہ بنتا ہے تووہ مایا تہذیب والے بھی بناتے ہیں جبکہ وادی سندھ کےبرہم گپت بھی صفر ایجاد کرتے ہیں۔

قدیم عراقی پہیہ بناتے ہیں،چین کاغذ بناتا ہے۔ان عظیم تہذیبوں کے ایک دوسرے سے تاجرانہ و علمی مراسم بھی رہے۔یونان نے جہاں سقراط و افلاطون جیسے اساتذہ و دانش مند دئیے، وہیں چین کے کنفیوشس کے اثرات کو نہیں بھلایا جاسکتا۔ زراعت کے فن میں انسان خود کفیل ہوا تو زرعی سائنس سامنے آئی تاکہ پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔ حیاتیات میں ترقی نے بائیوٹیکنالوجی کو جنم دیا۔اسی کے اندر سے ہم جینیاتی فصلوں کے راز تک پہنچے۔یہ سفرتین مختصر صدیوں پر مشتمل ہے۔

دوسرا تعلیمی انقلاب

دوسرا تعلیمی انقلاب1650ء میں اس وقت آیا، جب مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی پڑھنے پڑھانے کے وسیع مواقع ملے۔ یہ وہ دور تھا جب تعلیم و تدریس کی کتابوں کی اشاعت تیز ہوئی، کلاسک ادب کو فروغ ملا اور لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا۔ پیپر بکس کی صورت میں1935ء میںایلن لین نےپنگوئن پیپر بیکس کی صورت میں سستی کتابوں کا انقلابی رجحان متعارف کروایا۔ اٹھارہویں صدی سائنسی انقلاب لیکر آئی ،جس نے بیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے اشتراک سے سائنس کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ایجادات کی راہ نکالی۔اس کا سہرا آئن اسٹائن کے سر جاتا ہے،جنہوں نے زمان و مکاںکے اضافی تصور کو جنم دیکر کوانٹم میکانیات کا راستہ کھولا،جس نے امکانات کی دنیا کو لامحدود کرکے ٹیلی کمیونیکشن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔سائنسی علوم کی تعلیم و تدریس کا شوق بڑھا۔ساتھ ہی آرٹس کہلائے جانے والے موضوعات بھی سائنسی اندازِ نظر سے پڑھائے جانے لگے۔ایسے میں نینو ٹیکنالوجی نے اشیا کی مختصر ترین جسامت کا نیا قالب اختیار کرکے اکیسویں صدی کو مصنوعی ذہانت کے انقلاب سے روشناس کرایا۔

تیسرا تعلیمی انقلاب

تیسرا تعلیمی انقلاب سرحدوں سے ماورا ایک ایسی بین الاقوامی تدریس کے روپ میں ڈھل چکا ہے جہاں دنیا میں کہیں پر بھی ملازمت کے مواقع موجود ہیں۔ اب سارا جہاں ہماری درس گاہ اور روزگار کی جگہ بن چکا ہے۔یہاں اپنی بقا کے لیے ہمیں تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ ایسا کر دکھانا ہوگا،جو حیرت انگیز ایجادات کے زمرے میں آئے۔اب صلاحیت و ہنر کی بجا آوری کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہی۔مشرق و مغرب،شمال و جنوب میں واقع ممالک کی سرحدیں برائے نام رہ گئی ہیں۔ دنیا بھر کے معروف تعلیمی ادارے اوربزنس اسکول اب مارکیٹ کی طلب و رسد کو دیکھتے ہوئے آن لائن کورسز کروارہے ہیں،جہاں طالب علموں کے مابین عجمی و عربی کی تفریق مٹ چکی ہے۔ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹیشن کی بڑھتی سہولتوں کے ساتھ اساتذہ و طالب علموں کے لیےکہیں پر بھی جانا کارِ دشوار نہیں رہا۔ثقافتی برتری کا احساس بھی مٹ رہا ہے۔گورے کالے کی تقسیم ختم ہوگئی ہے۔ مینو فیکچرنگ سے زیادہ ذاتی خدمات کے شعبے میں اسامیوں کی وسیع گنجائش نکلے گی۔یہی وجہ ہے کہ ہر ملک ذہین اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنے لگا ہے۔یہ وہ افرادی قوت ہے ،جس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہوسکتا ہے،جیسے ہمارے سائنس داں ناسا ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی معیار کا موازنہ کارکردگی سے کریں توہمارے ہاں طالب علموں کی جو شاندار تعلیمی کارکردگی ہے،اس کا ثبوت اس بات سے دیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ذہین طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

تازہ ترین