• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صفدر رشید

۲۰۱۸ کا سال بھی ادب کے لیے بہت زرخیز رہا۔ اس سال ادب کے میدان میں نثری حوالے سے زیادہ کام ہوا۔ بہت سی کتابیں دوبارہ اشاعت سے گزریں۔فکشن اور تنقید میں نمایاں کتابیں شائع ہوئیں۔ادبی میلوں نے ادبی رونقوں کو خوب گرمائے رکھا۔اس سال شعری مجموعے کم شائع ہوئے مگر مشاعروں نے شعری ثقافتوں کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں مشاعروں کا انعقاد کیا گیا۔ ذیل میں نثر 2018ء کا مختصراً جائزہ نذرِ قارئین ہے۔

مستنصر حسین تارڈ کا ناول ’منطق الطیر جدید‘ شائع ہوا ۔ مستنصر حسین تارڈ کے دیگر نالوں کی نسبت یہ ناول مختصر اور مختلف موضوع کا حاطہ کیے ہوئے ہے۔تارڈ صاحب کے اس ناول نے ان کی فکشن میں زندہ اور زیرِ بحث رہنے کی روایت کو اس سال بھی جاری رکھا ہے۔

ممتاز خاکہ نگار اور کہانی کار عرفان جاوید کے خاکوں کا ایک اور مجموعہ ’سرخاب‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ان کے خاکوں میں خاکہ محض شخصی مرقع نہیں رہ جاتا بلکہ خاکہ لکھنے والا بھی اس میں پورا شریک رہتا ہے۔ عرفان جاوید کے یہ تمام خاکے ان کے اپنی جگ بیتی بھی ہے۔ان میں وہ خود ایک زندہ کردار بنے ہوئے ملتے ہیں۔’ سرخاب‘ کے خاکوں میں بھی’ دروازے‘ کے خاکوں کا تسلسل نظر آتا ہے۔

افسانوی مجموعوں میں سب سے پہلے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ’راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ ۔ یہ ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب میں ان کے چودہ افسانے شامل ہیں ۔ کتاب کے آغاز میں کسی مصنف کے نوٹ کے بجائے بورخیس سے ماخوذ ایک اقتباس ہے جس میں بورخیس نے کہا تھا کہ تخلیقی عمل،تخلیق کار کے تجربے اور تخیل کا حصہ ہونے والی اشیا اور نفسی صورت حال کے کایاپلٹ کا نام ہے اور یہ کہ لکھنے والا ایسا آہنگ تلاش کرتا ہے جو کائنات میں جاری آہنگ کو مس کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے بورخیس کی یہ بات اپنا تخلیقی منشور بنا کر ناصر عباس نیر نے اسی آہنگ کی تلاش میں افسانے لکھے ہیں ۔ ناصر عباس نیرکی کتاب ایک اہم کتاب’’ لسانیات اور تنقید‘‘ کی تازہ اشاعت چار نئے مضامین کے ساتھ اسی برس شائع ہوئی ہے۔

امین صدرالدین بھایانی کے افسانوں کے تازہ مجموعے کا نام ’’بے چین شہر کی پُر سکون لڑکی ‘ہے ، اس میں ان کے گیارہ افسانے اور چار افسانچے شامل ہیں ۔ ’’روشنی چاہیے ‘‘ شہناز پروین کے بیس افسانوں اور چھ افسانچوں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے ۔ قبل ازیں ان کے افسانوں کے دو مجموعے’’سناٹا بولتا ہے‘‘ اور ’’آنکھ سمندر‘‘ کے علاوہ ’’اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار‘‘ کے نام سے ایک مقالہ شائع ہو چکا ہے۔’’جھوٹے آدمی کے اعترافات‘‘ لیاقت علی کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے اس میں لیاقت علی کے انیس افسانے شامل ہیں ۔ لیاقت علی کتاب کے آغاز میں ، افسانے کو ایک پیغام یا نصیحت بنانے والوں کو لارڈ بیکن کا یہ کہا یاد دلاتے ہیں کہ ’’بُری کہانی میں نصیحت ہوتی ہے اور اچھی کہانی خود ایک نصیحت ہوتی ہے۔‘‘

آسٹریلیا میں مقیم اشرف شاد جہاں گرد صحافی ، شاعر اور ناول نگار ہیں۔وہ ایک مدت سے ملک سے باہر ہیں تاہم وہ اردو اور ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ قبل ازیں ان کے ناول،’’ جلاوطن‘‘، ’’وزیر اعظم‘‘، ’’صدر محترم‘‘ شائع ہوئے ہیں اور حال ہی میں ان کے دو ناول ’’جج صاحب‘‘ اور ’’بی اے رستم،ٹی وی اینکر‘‘کے نام سے سامنے آئے ہیں ۔ اپنے سیاسی سماجی موضوعات کو وہ خوب نبھاتے ہیں اور اس باب کے بہت اہمگوشوں کو بہت سلیقے اور ہمت سے اپنے قارئین پر کھولنے کا ہنر انہیں آتا ہے۔ یہی ہنر اُن تازہ ناولوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔

سید کاشف رضا کا ناول ’چار درویش اور ایک کچھوا‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ یہ ناول بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں ایک کہانی کے اندرایک سے زائد کہانیوں کو جمع، انہیں ایک کہانی میں منقلب کرنے کاایک نیا تجربہ کیا گیا ہے۔یہ ناول اپنی ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اُردو کے چند مختلف نالوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔

احمد جاوید کا ناول ’جینی‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ یہ ناول کارل مارکس کی شریکِ حیات جینی کی سوانح پہ مشتمل ہے۔اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف جینی کی جذباتی زندگی کو سامنے رکھا گیا ہے جو مکمل طور پر نجی زندگی پر مشتمل ہے۔ مارکس کا ایک بالکل نیا روپ سامنے آیا ہے جو محبت کی دیوی کے سامنے بے بس تھا۔احمد جاوید نے بہت اہم افسانوی مجموعے دیے ہیں مگر یہ ناول ان کو ناول نگاروں میں بھی اعتبار دے گا۔ احمد جاوید اس ناول کو اپنی زندگی میں شائع نہ کروا سکے۔یہ ناول ان کی وفات کے ایک سال بعد شائع ہوا۔

زیف سید، جنہیں ادبی حلقوں میں ظفر سید کے نام سے جانا جاتا ہے ان کا دوسرا ناول ’’گُل مینہ‘‘ اس برس کی خاص کتب میں سے ایک ہے ۔ اس ناول کا لوکیل قبائلی علاقہ جات اور موضوع نائن الیون کے اس علاقے میں عام آدمی پر مرتب ہونے والے ہیں جیسے زیف سید نے بہت عمدہ طریقے سے قلمبند کیا ہے ۔یہ ناول راولپنڈی سے شائع ہوا ہے۔’’آخری زمانہ‘‘ اور جرات رندانہ‘‘ جیسے اہم ناولوں کی مصنفہ اور ٹیلی ڈرامے کا اہم نام آمنہ مفتی کا ہے ۔ ’’پانی مر رہا ہے‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے ناول اپنے نام سے موضوع کی چغلی کھا رہا ہے ۔’’پانی مر رہا ہے‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ہماری مٹی کی باس بھی ہے اور ہمارے مرتے دریائوں کا عکس بھی۔‘‘

فکشن نگار محمد حمید شاہد کی اردو افسانے پر تنقیدی کتاب ’’اردو افسانہ:صورت و معنٰی‘‘ کا تازہ ایڈیشن شائع ہوا ہے ۔ قبل ازیں یہ کتاب ہندوستان سے بھی شائع ہو چکی ہے۔محمد حمید شاہد کا ایک اور اہم کام خالدہ حسین کے تازہ افسانوں کا انتخاب ہے جو ’’جینے کی پابندی‘‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا ہے ۔ خالدہ حسین کے اس مجموعے میںان کے اٹھارہ افسانے اور دوافسانوں کے تراجم شامل ہیں۔ کتاب کے مرتب کہتے ہیں:’’خالدہ حسین کا بنیادی قضیہ وجود ہے اور اس وجود سے چپکا ہوا نام بھی۔ وہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہیں کہ اصل کیا ہے ،نام یا وہ جس کا نام رکھا گیا ۔وہاں یہ مسئلہ وجودی بھی بنتا ہے اور ایک سطح پر مابعد الطبیعیاتی بھی۔ ہستی کیا ہے محض ایک لفظ جو ایک نام کی صورت موجود ہے یا اس نام کے خول میں بھرا ہوا وجود۔اور جب خول اتر جائے تو شناخت کے ساتھ کیا سانحہ ہوتا ہے۔‘‘محمد حمید شاہد نے جن دیگر افسانہ نگاروں پر تنقیدی مضامین کے ساتھ ان کے افسانوں کے انتخاب مرتب کئے ان میں غلام عباس اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں ۔ افسانوں کے یہ انتخاب، اس لحاظ سے اہم ہیں کہ انہیں ایک افسانہ نگار نے مرتب کیا ہے ۔

ڈاکٹر اقبال آفاقی ان دنوں ناول نگاری کے حوالے سے اہم مضامین لکھ رہے ہیں ، ان کی افسانے کی تقید پر کتاب بھی اہم اضافہ ہے ۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ان کی تازہ کتاب’’نظریات جمال وفن:افلاطون سے لیوتار تک‘‘شائع کی ہے جس میں جمالیات اور فلسفہ فن کوافلاطون، ارسطو،کانٹ، ہیگل،مارکس کے علاوہ کروچے، کولنگ ووڈاور لیوتار کے حوالے سے موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ’’سو سال وفا‘‘ فارس مغل کا ناول ہے۔ فارس مغل کوئٹہ کے رہنے والے ہیں ان کے افسانے اہم جرائد میں چھپتے رہتے ہیں کچھ سال ان کا نام’’ ہمجان‘‘ آیا تو ادبی حلقے ان کی طرف متوجہ ہوئے ’’سو سال وفا‘‘ اسی سلسلے کا اگلاقدم ہے جس میں محبت ،لہو اور بلوچستان کے درمیان ایک آہنگ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نفرت کی زبان کے مقابلے میں محبت کی زبان بہت شیریں ، دلنشیں اور کارگر ہوتی ہے۔

سیدسعید نقوی امریکہ میں مقیم ہیں،ان کے افسانوں کا مجموعہ’’ڈھائی خانے کی چال‘‘اسی سال شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اردو کے اہم افسانہ نگاروں کے سترہ افسانے انگریزی میں بھی ڈھالے جسے آکسفورڈ نے ’’In Search of Butterfliesـ‘‘کے نام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا نام زاہدہ حنا کے ایک افسانے سے لیا گیا ہے جبکہ جن دیگر افسانہ نگاروں کے افسانے اس کتاب کا حصہ ہوئے ہیں ان میں انتظار حسین، خالدہ حسین،رشید امجد،حسن منظر،محمد حمید شاہد،سید محمد اشرف،آصف فرخی اور ذکیہ مشہدی شامل ہیں جن کے مختصر تعارف نامے بھی کتاب میں شامل ہیں۔سعید نقوی نے جان ولیمز کا ناول’’اسٹونز‘‘ بھی اردو میں ڈھال دیا ۔ اس ناول کو ایمااسٹراب نے دنیا کی سب سے خوب صورت کتاب قرار دیا تھا۔ سعید نقوی کا ایک اور کارنامہ نیو یارک میں مقیم ماہر امراض سرطان اور محقق سدھارتا مکر جی کی’’جینیات کی ان کہی تاریخ‘‘ جیسی اہم کتاب کا اردو میں ترجمہ ہے ۔ حسنہ عباسی شیخ کی کہانیوں کا مجموعہ ’’نصیبہ ساتھ جائے گا‘‘ ۔

’’مشتاق احمد یوسفی : کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘ امر شاہد کی طرف سے یوسفی صاحب کو خراج تحسین ہے ۔ یہ یوسفی صاحب کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے اہم مضامین کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب میں یوسفی صاحب کی تصاویر کا خوب صورت البم بھی شامل کیا گیا ہے اور ان کی تحریروں سے اقتباسات بھی کتاب کا حصہ ہیں ۔

فاخرہ نورین شاعرہ ہیں تاہم ان کے فکاہیہ مضامین پر مشتمل کتاب ’’خندہ ہائے زن‘‘ کی اشاعت نے بھی ادبی حلقوں کو چونکایا ہے ۔ اس کتاب میں ان کے پندرہ مضامین تین عنوانات کی ذیل میں جمع کئے گئے ہیں ۔فاخرہ نورین، فکاہیہ مضامین پر مشتمل اپنی کتاب کے جواز کے باب میں لکھتی ہیں:’’جس طرح تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے جواز تحقیق فراہم کرنا ضروری ہے اسی طرح خواتین کے لیے مزاح لکھنے کا مضبوط جواز موجود ہے یعنی خواتین بھی اسکالرز کی طرح یہ کہہ کر اپنا کام شروع کر سکتی ہیں کہ جناب والا، اس موضوع پر اردو میں یہ پہلا کام ہے ۔‘‘

سجاول خان رانجھا کی ذہن سازی اور کردار سازی کے موضوع پر کتاب’’کبھی ہمت نہ ہاریے‘‘ شائع ہوئی ہے ۔ سندھی ماڈرن کلاسیک کے دعوے سے اردو میں منتقل ہو کر شائع ہونے والا طارق عالم ابڑو کا نام ’’منظر جو رہ گیا‘‘ کا ترجمہ سدرۃ المنتہیٰ جیلانی نے کیا ہے۔ یہ سندھی کے مقبول ناول ’’رھجی ویل منظر‘‘ کا اردو روپ ہے جس کی بابت عبد القادر جونیجو نے کہا تھا کہ’’مجھے تو توقع نہیں تھی کہ طارق عالم سندھی زبان کا پہلا شاہکار ناول لکھے گا۔‘‘

’’لمحہ بے لوث‘‘ ایک نئی افسانہ نگار طیبہ خان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے گیارہ افسانے ہندوستان کے معروف افسانہ نگار شموئل احمد کے اس رائے کے ساتھ شائع ہوا ہے کہ’’موضوع کا تنوع ان کے افسانے کی خصوصیت ہے۔‘‘محمد حفیظ خان کا سرائیکی سے ترجمہ کیاگیا ناول ’ادھ ادھورے لوگ‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ ادھ ادھورے لوگ فیاض نامی کردار کی کہانی ہے جو ریاست بہاول پور میں جنم لیتا ہے مگر صوبہ بہاول پور کی بحالی کی امید میں اپنی شناخت کی گم شدہ حیثیت کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور ہے۔اسے سرائیکی میں بہت سراہا گیا اب اس کا ترجمہ اُردو میں پیش کیا گیا ہے۔

نسیم سید بیرون ملک مقیم ہیںلیکن شاعری ، فکشن اور تراجم کے ذریعے اردو منظر نامے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ اپنے افسانوں کے مجموعے ’’جس تن لاگے‘‘ کے بعد ان کا تازہ ترین اضافہ’’یورپین نوآبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات‘‘ کے نام سے ایک غیر معمولی کتاب ہے جس میں امریکہ اور کینیڈا کے حقیقی باشندوں کے گیتوں اور خواتین کی شاعری کے تراجم مہیا کر دیے گئے ہیں ۔ یہ تراجم خود نسیم سید نے کیے ہیں اور کتاب کے آغاز میں اس موضوع پر بھرپور مقدمہ لکھا ہے۔ ایک مقام پر وہ لکھتی ہیں:’’شمالی امریکہ کے مقامی باشندوں کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے افسانے ہوں یا مضامین ، شاعری ہو یا تقاریر،یہ سب وہ دہکتے ہوئے وہ انگارے ہیں جن کی لپٹوں پر سالہا سال ان کے اجداد کو بھونا گیا۔ ‘‘ اسی کتاب سے Dianne Bearnsکی نظم’’قلم کی برچھی‘‘ سے ایک ٹکڑا:

’’اورمیں بینچ پر بیٹھی

سورج کے نکلنے کا انتظار کر رہی ہوں

مجھے اپنا گھر یاد آرہا ہے

میں اپنے کھیتوں کی ہوا سونگھ رہی ہوں

میری کلائی قیدبا مشقت جھیل رہی ہے

مگر میری انگلیاں برچھی تراش رہی ہیں

قلم کی برچھی

مجھے اس برچھی سے

اپنے لوگوں کی جنگ لڑنی ہے‘‘

آصف فرخی کی کتاب ’’ناول کا فن‘‘ تین نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے ناول کے فن اور اہمیت پر مضامین کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔یہ کتاب نہ صرف ان اہم ناول نگاروں کے فکر ونظر کا تعارف فراہم کرتی ہے ، ان مضامین سے موجودہ دنیا کی حالت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں پرتگال کے حوزے ساراماگو، مصر کے نجیب محفوظ،اور ترکی کے اورحان پامک کی تحریریں اور تعارف موضوع ہوا ہے ۔ نجیب محفوظ کی تحریروں پر الگ سے ایک کتاب’’یادیں،خواب، کہانیاں‘‘ بھی آصف فرخی کی مرتب کردہ ہے جو اسی برس شائع ہوئی۔ اسی سال ’خاموشی کی آواز‘ جو آصف فرخی نے فاطمہ حسن کے ساتھ مرتب کی ، کا دوسرا ایڈیشن انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع ہوا ہے۔یہ کتاب فیمنزم مطالعات میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔

اکادمی بازیافت سے مبین مرزا نے جمال پانی پتی کا ’مجموعہ مضامین‘ شائع کیا ہے۔اس مجموعے میں جمال پانی پتی کی چار کتابیں اور غیر مطبوعہ مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ جمال پانی پتی روایت کی فکر کے اہم نظریہ ساز نقاد تھے۔ ان کے اس مجموعے نے تنقیدی فکریات میں ایک اہم اضافہ کیا ہے۔

حنا جمشید صاحبہ کا اہم تدوینی کام ’کلامِ غالب کی دو مستند شرحیں: وثوقِ صراحت اور مشکلاتِ غالب‘ اسی سال شائع ہوا۔ تدوین کے حوالے سے اس کتاب کی بہت اہمیت ہے۔ غالب پہ لکھی جانے والی ان دونوں شرحوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان میں غالب کے کلام کے نئے گوشوں کو وا کرنے کی روایت ابھی تک نایاب ہے۔حناجمشید نے جگہ جگہ حواشی اور تعارفیے پیش کرکے اس کام کو قارئین کے لیے مزید آسان کر دیا ہے۔

گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کراچی کے موقع پر آرٹس کو نسل پاکستان کراچی نے دوضخیم کتب کا اجرا کیا یہ کتب ان مضامین کے مجموعے ہیں جو کانفرنس کے شرکاء کی طرف سے پیش کیے جاتے رہے۔ شاعری، فکشن، تنقید، شخصیات ، زبان و بیان، نئے سماجی ذرائع ابلاغ جیسے اہم موضوعات پر مضامین کے علاوہ اہم کتب پر تبصروں کی صورت میں شامل کئے گئے ہیں۔

’’نکات‘‘ تحسین فراقی صاحب کی مختلف موضوعات پر تنقیدی تحریروں پر مشتمل اہم کتاب ہے جسے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ ان تحریروں میں فراقی صاحب کا تنقیدی نقطہ نظر بھی سامنے آتا ہے اور ساتھ اُردو کا معاصر منظر نامہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

احمد شہر یار غزل کے بہت عمدہ شاعر ہیں ایران میں مقیم ہے اور اردو شاعری کو ایران میں متعارف کرواتے رہتے ۔وہ پاکستانی شاعروں کا کلام فارسی میں اور فارسی کلام اردو میں منتقل کرتے رہتے ہیں ۔فکشن کے باب میں انہوں نے اس برس ایک بہت اہم کام یہ کیا یہ ایرانی خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے فارسی سے اردو میں ڈھالے ۔ ان افسانوں کا انتخاب راضیہ تجار نے کیا ہے اور احمد شہریار نے اردو میں ترجمہ کرکے ’’بنفشہ کے پھول‘‘ کے نام سے کتاب کی صورت میں فراہم کر دیا ہے ۔

’’اہم شعرا کی آپ بیتیاں‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں ثمرین اختر نے اسلوبی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ اس کتاب میں ان اہل قلم کی آپ بیتیوں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کی ایک بڑی پہچان شاعر کی ہے۔ مصنفہ نے احسان دانش کی ’جہانِ دانش‘ ، وزیر آغا کی ’شام کی منڈیر سے‘ اور حمید نسیم کی ’ناممکن کی جستجو‘کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے ۔

اس سال شائع ہونے والی کتاب’’زندگی کا انوکھا سفر‘‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اسے محمد تاج لالہ نے لکھا ہے جن کا شمار پاکستان کے اہم مزدور رہنماوں اور پاکستان میں فلاحی کام کو اعتبار بخشنے والوں میں ہوتا ہے۔ اپنی اس غیر روایتی سوانح عمری میں انھوں نے اپنی جدو جہد کی کہانی اس انداز میں بیان کی ہے کہ ہمارے معاشرے کے بہت سے رخ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کے لیے یہ سوانح مشعل راہ بن سکتی ہے۔

’’اردو افسانے میں جنس کی روایت‘‘ سدرہ اختر کی تنقیدی کتاب ہے ، اس کتاب میں منٹو ، بیدی اور عصمت چغتائی کے جنسی افسانوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر اب کافی کچھ سامنے آ چکا ہے، پھر بھی مصنفہ گذشتہ بحثوں کو سمیٹ کر بات آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئیں ہیں۔

فرخ ندیم کی پہلی تنقیدی کتاب ’فکشن ، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت‘ اسی سال شائع ہوئی ہے۔

’’ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو‘‘ سنتے ہی یاد آجانے والے مرحوم شاعراحمد شمیم کے محبت ناموں پر مشتمل کتاب ’’ہوا نامہ بر ہے‘‘ بھی اسی سال کا تحفہ ہے۔ یہ خطوط شمیم احمد نے اپنی شریک حیات منیر ہ احمد شمیم کو لکھے ، جنہیں انہوں نے مرتب کیا ہے ۔ میاں بیوی کی یہ باہمی مراسلت ، ایک شاعر کے طرز احساس کی سچی تصویر بھی ہوگئی ہے۔ احمد شمیم اس کتاب میں شامل اپنے آخری خط میں لکھتے ہیں:

’’ نظم نہیں ہو رہی اور راتوں سے مسلسل جاگ رہا ہوں ۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔لگتا ہے نظم بڑی دیر پریشان رکھے گی۔ میں واقعی بڑی نظم لکھنا چاہتا ہوں ۔۔اتنی ہی بڑی جتنی تم ہو۔۔۔ورنہ نظم لکھنا بے کار ہے ۔ بڑی نظم بڑی سزا ہوتی ہے۔زبر دستی لکھنا نہیں چاہتا۔آپ ہی آپ ہو جائے گی کسی وقت۔‘‘

رسائل کی دنیا بھی اس سال آباد رہی۔ ہندوستان سے’ اثبات‘ (مدیر: اشعر نجمی)کا ’سرقہ نمبر ‘پاکستان سے بھی شائع ہوا۔ اس ضخیم نمبر کی اشاعت سے ایک اہم علمی کام سامنے آیا ہے۔ جس کو بہت پسند کیا گیا۔’’لوح‘‘ کے افسانہ نمبر کے بعد اس برس شائع ہونے والا خاص شمارہ بھی ممتاز احمد شیخ کی محنت سے اہم دستاویز بن گیا ہے ۔ دنیا زاد کی اشاعت عدم تسلسل کا شکار تھی مگراس سال دنیا زاد کا بھرپور شمارہ سامنے آیا جس میں معاصرتخلیقی ادب کوبھی نمایاں انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اس سال ہم سے بچھڑنے والی سواہم شخصیات مشتاق احمد یوسفی اور محمد عمر میمن پر مضامین بھی شامل ہیں ۔

اکادمی ادبیات کا سہ ماہی جریدہ ، جسے اختر رضا سلیمی مجلس مشاورت کے ممبران ڈاکٹر توصیف تبسم،ڈاکٹر اقبال آفاقی، محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر وحید احمد کے تعاون سے مرتب کرتے ہیں کئی اہم شمارے شائع کر چکا ہے جن میں انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمی پر ضخیم شمارے شامل ہیں ۔ تازہ شمارہ عبد اللہ حسین نمبر بھی اہتمام سے شائع ہوا ہے جو ساڑھے سات سو صفحات پر بہت اہم مواد کو سمیٹے ہوئے ہے۔ جدید تر ادب کا اشاریہ کے دعویٰ کے ساتھ شائع ہونے والا ماہنامہ’’بیاض‘‘ لاہور بھی توجہ کا مرکز رہا ہے ۔ یہ شمارہ باقاعدگی سے شائع ہو کر قارئین تک پہنچتا رہا ہے۔ اہم ادبی ماہناموں میں مبین مرزا کا ’’مکالمہ‘‘، گلزارجاوید کا’’چہار سو‘‘،اور خالد تاج کا’’ادب دوست‘‘ اور محمد شکور طفیل کا ’’فانوس‘‘ اور قاری ساجد نعیم کا’’ندائے گل ‘‘ شامل ہیں ۔ دیگر اہم جریدوں میں ’’قلم کی روشنی‘‘از محمود ظفر اقبال ہاشمی، ’’فن زاد‘‘از یوسف چوہان، ’’انہماک‘‘ از تحسین گیلانی،’’ الزبیر‘‘ از ڈاکٹر شاہد حسن رضوی ،’’ بجنگ آمد ‘‘از اختر شمار،’’تخلیق ‘‘از سونان اظہر،’’کہکشاں‘‘ ازفرزانہ جاناں،’’صبح بہاراں‘‘از ذکااللہ شیخ ، کارواں از نوید صادق ،شامل ہیں جو اس سال تازہ ترین ادب چھاپ کر قارئین تک پہنچاتے رہے۔

اس کے علاوہ جہلم میں کولاج ادبی میلہ، فیصل آباد لٹریچر فیسٹول، لاہور میں فیض ادبی میلہ، کراچی میں کراچی آرٹس کونسل ادبی میلہ، ساہیوال میں عالمگیریت اور ادب کے موضوع پہ عالمی اُردو کانفرنس بھی منعقد ہوئیں۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادبی میلے اور کانفرنسیں عام آدمی تک ادبی پیغام پہنچا رہی ہیں ۔ ادیب مرکز میں آرہا ہے۔ ٹی وی پراگراموں اور ٹاک شوز میں اہم قومی دنوں میں ادیبوں کو بلانے کا رجحان بڑھا ہے۔عام آدمی نے ادیب کو بھی کارپوریٹ کلچر میں اہم تصور کرنا شروع کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ زندگی کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ادب کی افادیت سے قومی سنجیدہ فکری رجحان کو فروغ ملا ہے۔

تازہ ترین