• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صابر حسین جلیسری

لسانی آہنگ الفاظ کی شکل میں ترتیب پاکر زبان کے پیکر کو تشکیل دیتے ہیں۔ الفاظ جس قدر واضح اور بلیغ ہوں گے، زبان اسی قدر مستحکم اور جامع ہوگی۔ زبان کے باب میں الفاظ کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو سکے کے چلن کو معاشی استحکام میں حاصل ہے۔ اجتماعی معاشرہ کثیر تعداد میں بولیوں کو جنم دیتا ہے اور مختلف بولیاں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں، جن کے اثرات سے الفاظ میں تغیر رونما ہوتا ہے، لہجے تبدیل ہوتے ہیں اور ایک مستحکم زبان جنم لیتی ہے۔

یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک شخص جو اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان بولتا ہے تو بولنے میں تکان محسوس کرتا ہے، لہٰذا وہ اپنی آسانی کی خاطر لب و لہجے میں تبدیلیاں لاتا ہے، لہجے میں تبدیلیوں کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جن میں آب و ہوا، زمین اور غذا کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں عادات و اطوار اور رسم و رواج بھی اس معاملے میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کوئی زبان جامد نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن علمی اور ادبی زبان میں تبدیلیاں آہستہ آہستہ آتی ہیں،یہاں تک کہ ایک ہی زبان اور بولیوں میں اختلاف رہتا ہے، اس کے اسباب ماحول اور تعلیم رہے ہیں، یہاں تک کہ دو مختلف افراد بھی ایک ہی زبان نہیں بول سکتے۔ ہر شخص انفرادی طورپر اپنی زبان بولتا ہے، تاہم کثیر افراد ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں اور وہ غیر ملکی بھی جن کی وہ زبان نہیں ہوتی، اسے سیکھنے سمجھنے کی بات کرتے ہیں۔ لہجے اور تلفظ میں ایک متوسط معیار پیدا ہوجاتا ہے، البتہ انفرادی طورپر اکثر افرادکے تلفظ اورلہجے میں اختلاف پایا جاتاہے، مگر یہ تفریق فروغ زبان کومانع نہیںآتی ۔ بعض ماہر لسانیات کی نظر میں مذہب، فن اور معاشرے کی تفریق زبان کے ارتقا میں رکاوٹ ڈالنے والے رجحانات سمجھے جاتے ہیں۔ یہ رجحانات بغیر روک ٹوک کے اثر پذیر رہیں تو نئی نسل کے ساتھ یہ زبان میں تغیر پیدا کردیتے ہیں۔

اُردو زبان میں جذب و انجذاب کا عمل کئی صدیوں سے جاری ہے۔ برصغیر میں پہلے مقامی بولیوں نے جنم لیا، پھر یہاںعرب زبان کی تاثیر آئی ،پھر اولیائے کرام کی روحانی تاثیر فارسی کو ساتھ لائی، بعدازاں مغلیہ دور میں ترکی برصغیر میں علمی و ادبی زبان قرار پائی، ان تمام زبانوں کے الفاظ کے اختلاط کا عمل بھی جاری رہا۔ حضرت امیر خسرو کےزمانے میں اس کے ریختہ نے بولی کی شکل اختیار کی اور ہندی کہلائی۔ شاہجہان کے دور میں شاہجہان آباد میں عہد شباب کو پہنچی اور اُردوکہلائی۔ اس کی تعمیر اور تخلیق کاری کا عمل مزید آگے بڑھا۔

اردو زبان میں انگریزی کی سمائی ہم اُسی دور میں سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد وغیرہ کے ہاں بھرپور طریقے سے دیکھ سکتےہیں۔ اکبر الہٰ آبادی نے توانگریزی کے الفاظ کو چٹ پٹے انداز میں اپنی شاعری میں خوب برتا اورمعنی کی تہہ کواُبھارا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایک بار پھر زبان نے پلٹا کھایا اور اس میں تغیر و تبدل کا عمل شروع ہوا۔ مختلف تہذیبیں، معاشرتی رویوںکے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔ تہذیبوں کے ملاپ سے لسانی امتراج کے نئے پہلو ابھرے، جنہوں نے اردو میں نئے لہجوں کو جنم دیا۔ نئےروزمرہ، نئے محاورے پیدا کئے اور زبان وبیان نئی تراکیب سامنے آئیں۔ یہ سب کچھ اس مبادیاتی منطق کے تحت ہوا، جو ہم نے ابتدا میں بیان کیاہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

اردوکو ٹیکسالی میزان قرارنہیں دیا جاسکتا۔ برخلاف اس کے آج کی تخلیقی تحریریں پڑھیے تو ان میں سے اکثرو بیشتر میں جلدی جلدی کاتا اور لےدوڑے کا عمل نظر آئے گا۔ ان تحریروں میں پھوہڑ پن کا احساس ہوگا۔ یوں محسوس ہوگا کہ لکھنے والا نہ صرف زبان و بیان اور الفاظ کےرموز سے ناواقف ہے، بلکہ وہ اپنے قدیم و جدید ادب سے بھی اچھی طرح واقف نہیںہے۔ وہ تخلیقی سطح پرزبان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے اور انگریزی مرکبات اور جملوں کے بھونڈے ترجموں سے عبارت کو خراب کررہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کےرجحانات اور اس کے ادب کی پیروی کرکے وہاں کے ادبی مشن کو پاکستان میں درآمد کررہاہے۔ وہ اپنے معاشرے اور اس کے مسائل اور رجحانات سے کٹا ہوا ہے۔ صرف بدیسی اثرات اور فیشن کی سوداگری کررہاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عصری لسانی تقاضے، دونوں لسانی نظریات سے تکمیل پاتے ہیں۔ فن اور نظریہ دونوںکی ضرورت ہے ۔ ادبی تحریر میںاپنی زمین کی بو باس ہونی چاہیے، جس تحریر میں مقامی معاشرتی بولی ترجمانی نہ کرتی ہو، بلکہ اس میں انگریزی زبان و اسلوب کے اثرات نمایاں ہوں، وہ تحریر زبان کی ٹیکسالی اہمیت کو متاثر کرتی ہے اور ادبی روح کو بھی کچلتی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی ایسی تحریروں کومسترد کرتے ہیں، جب کہ نارنگ قطع نظر زبان کے فنی لزوم کے صرف زبان کے ارتقا پر نظر رکھتےہیں، ان کی زبان میں اب زمانہ ٹیکسال سے باہرآچکا ہے اور گویائی کے سکے عام بازار میں تلاش کررہاہے، لہٰذا اس رویے کووقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے۔

محبت کو جوان رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ ملک کی سب بولیوں کو ساتھ لے کرچلیں۔ پاکستان میںمجموعی لسانی مطالعے کے اعتبار سے فروغ ِزبان کااگرجائزہ لیا جائے اور تہذیبی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین پر اُردو کےبطن سے ایک اور معاشرتی زبان ابھر رہی ہے، جس کا لب و لہجہ اور لسانی آہنگ فطری و جغرافیائی اثرات کےتابع ہے۔ یہ نئی زبان بھی ایک ادائے خاص سے پنپ رہی ہے، جس کا لب و لہجہ آہستہ آہستہ اپنا اثردکھا رہا ہے۔

زبان ٹیکسال کی طرح ہے، اس کے الفاظ سکوں کی طرح چلتے ہیں۔ پرانے سکے غیر محسوس طریقے سے بازار سے نکلتے جاتےہیں، ان کی جگہ نئے سکے راہ پا لیتے ہیں۔ اس طرح زبان ہر پچاس برس بعد پلٹا کھاتی ہے۔ نئے الفاظ زبان پرچڑھتے ہیں، نئے محاورے اور روزمرہ استعمال میں آتے ہیں اور نئی زبان ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ مادی اصولوں کےمطابق نہیں ہوتا۔ یعنی کوئی کھانچا یا فرما نہیں ہوتا، جس میں زبان ڈھلتی ہو، بلکہ یہ نفسیاتی اور فطری عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ آب و ہوا اور جغرافیائی اثرات سے اصول لیتی ہے، یعنی الفاظ ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے تلفظ اور لہجے شمال، جنوب، مشرق، مغرب سمتوں میں بدلتے رہتے ہیں ۔ غرض یہ کہ اس طرح زبان کے لیے اور جدید زاویے اُبھرتے ہیں اور ایک ایسی زبان سامنے آتی ہے، جو عوامی بولی بن جاتی ہے ،جسے ہر خاص و عام سمجھتا ہے اور بولتا بھی ہے۔ ہمارےملک میں یہی عمل جاری ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں اردو زبان پر کئی ردّے لگ چکے ہیں۔ اب اس کی نئی شکل ابھر کر سامنےآتی جارہی ہے، اس نئی ابھرتی ہوئی اردو زبان کی رچی ہوئی شکل بعض ناولوں، ادبی تحریروں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے۔ اس زبان میں وہی کھٹ مٹھا پن ہے، جو پیڑ میں لٹکتی ہوئی امبیا کا ہوتا ہے۔ دانت سے کترو تو مزہ بھی آتا ہے اور منہ بھی بنتا ہے۔یہ زبان میٹھی بننے میں ابھی وقت لگے گا، مگر جب پوری طرح جوبن پرآئے گی تو اپنی مٹھاس دکھائے گی۔

تازہ ترین