• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بیتے دنوں کی بیتی یادیں اداکارہ ’’روزینہ‘‘

یادوں کی البم کی کچھ دل کش اور حسین تصویریں ذہن کے پردے پر اپنی دل کشی کے تمام رنگوں کا حسین امتزاج لیے آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔ یادوں کی ان البم کی ایک حسین تصویر اداکارہ روزینہ کا ذکر جب آتا ہے، تو ان دنوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، جب کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں ایک فلم ’’ایک شمع دو پروانے‘‘ بن رہی تھی، اس میں پہلی بار ایک نئی لڑکی روزینہ کو بہ طور اداکارہ متعارف کروایا گیا۔ یہ فلم تو نامکمل رہی، لیکن یہ حسین و خوب صورت لڑکی کراچی کے فلم سازوں کی نظروں کی توجہ بن گئی اور اسے دیگر فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔21ستمبر1950ء کراچی میں پیدا ہونے والی روزینہ کا اصل نام آئی وی سنتھیا (IV Sainthia) تھا، وہ کرسچن فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ معروف سائونڈ ریکارڈسٹ رفعت قریشی سے شادی کے بعد وہ عائشہ قریشی کہلائیں۔ انہیں روزینہ کا فلمی نام کراچی کے ایک فلمی صحافی یو کملانی نے دیا تھا۔ روزینہ نے سینٹ جوزف اسکول کراچی سے میٹرک اور اسی کالج سے انٹر کیا۔ابتدائی کیریئر کا آغاز انہوں نے اپنی بہن کے ساتھ اسٹیج پر رقص پرفارمنس سے کیا۔ فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ ان کی پہلی ریلیز شدہ فلم کہلائی۔ اس فلم میں وہ مہمان اداکارہ آئیں۔ ’’ہمیں جینے دو‘‘ 1963ء میں ریلیز ہوئی۔ روزینہ کو اصل شہرت1965ء میں پیش کی جانے والی یادگار کام یاب فلم ’’عشقِ حبیب‘‘ سے ملی، جس میں انہوں نے بطور سائیڈ ہیروئن بے حد اعلیٰ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ اپنے دور کی ایک سبق آموز اصلاحی فلم تھی، جس میں مشہور قوال غلام فرید صابری کی قوالی ’’میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا، مجھے نظر کرم کی بھیک ملے‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ اسی دور میں روزینہ کا حسین شگفتہ چہرہ، پُرکشش سراپا، ماڈلنگ کی دنیا میں بہت اہمیت اختیار کر گیا۔ انہیں اس وقت کی چند بڑی کمپنیز نے اپنی مصنوعات کی شہرت کے لیے بہ طور ماڈل اشتہارات میں دکھایا۔ ہدایت کار جمیل مرزا جو ان کے بہنوئی تھے، انہوں نے اسے اپنی فلم ’’چوری چھپے‘‘ میں پہلی بار بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔ مزاحیہ اداکار سیٹھی نے ان کے مقابل ہیرو کا کردار کیا۔ یہ فلم23جولائی1965ء کو کراچی کے پلازہ سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1966ء میں وحید مراد اور زیبا کی کام یاب پلاٹینم فلم ’’ارمان‘‘ میں انہیں سائیڈ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا۔ اس پہلی پلاٹینم جوبلی فلم میں ان کی خوب صورت اداکاری سے فلم بین بے حد متاثر ہوئے۔ 1968ء میں شباب پروڈکشن کی سپرہٹ نغماتی گولڈن جوبلی فلم ’’سنگدل‘‘ ان کے فنی کیریئر کی ایک بہت ہی لاجواب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں سلمیٰ نامی ایک ایسی امیرزادی کا کردار انہوں نے ادا کیا، جسے انسانیت سے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ ان کا یہ کردار فلم کے باقی تمام کرداروں پر سبقت لے گیا۔ ندیم اور دیبا نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ’’سنگدل‘‘ کے ساتھ ان کی ایک اور یادگار خوب صورت فلم ’’دوسری ماں‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں ان کا کردار اور اداکاری اپنی مثال آپ تھے۔ اداکار وحید مراد کی ذاتی فلم ’’سمندر‘‘ میں وہ ان کی بہن کے کردار میں نہ بھلا دینے والی اداکاری کے جوہر دکھاتی ہوئی اسکرین پر نظر آئیں۔ دیبا اور ندیم کی نغماتی، رومانی فلم ’’انیلا‘‘ میں ان کا کردار منفی ٹائپ کا تھا، جس میں انہیں نہایت دل کش انداز میں ایکسپوز کیا گیا۔

روزینہ کا شمار اپنے دور کی ان چند اداکارائوں میں ہوتا ہے، جو فلموں میں اپنے ڈریسز اور گلیمرز کی وجہ سے فلم بینوں میں بے حد مقبول ہوئیں۔ ایک پُرکشش اور سحرانگیز شخصیت کی مالک ہونے کی بناء پر وہ ہر محفل میں لوگوں کی مرکز نگاہ بن جایا کرتی تھیں۔ علی زیب کی ذاتی فلم ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ میں ان کا کردار اداکارہ زیبا کی سہیلی کا تھا، جس کی کہانی کی کاپی حال ہی میں بنائی گئی فلم ’’مان جائو نا‘‘ کی صورت میں ریلیز ہوئی۔ ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ 1969ء میں ریلیز ہوئی۔ اسی سال ان کی پہلی کلر فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں وحید مراد نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، جب کہ دیبا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ کثیر سرمائے سے تیار کی ہوئی پاک فضائیہ کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے قابل فخر جذبے کے تحت بنائی گئی فلم ’’قسم اس وقت کی‘‘ میں وہ اداکار طارق عزیز کی بہن کے کردار میں عمدہ اداکاری کرتے ہوئے نظر آئیں۔ گلوکارہ مالا کی ذاتی فلم ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ میں وہ پہلی بار ویمپ کے کردار میں آئیں۔ محمدعلی اور زیبا اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ بطور ویمپ وہ ہدایت کار لقمان کی فلم ’’افسانہ‘‘ میں بھی پسند کی گئیں۔ اداکار وحید مراد کی ذاتی فلم ’’اشارہ‘‘ جس کے ہدایت کار بھی وہ خود تھے، اس فلم میں دیبا نے ان کے مقابل ہیروئن کا کردار کیا، جب کہ روزینہ کا کردار اس فلم میں اس قدر اہم تھا کہ فلم کی کہانی کی وہ اصل ہیروئن بن کر سامنے آئیں۔ ان کا کردار فن مصوری سے محبت کرنے والی ایک رئیس زادی کا تھا، جو فلم کے ہیرو وحید مراد کے فن مصوری سے بے حد متاثر ہو کر اس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ فلم کی ہیروئن دیبا اور وحید مراد کا ملاپ کرانے میں بھی وہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کردار میں وہ فلم کے ہر منظر میں حقیقت سے قریب تر کردار نگاری کر کے ناقدین فن سے داد و تحسین وصول کرنے میں کام یاب رہیں۔ ان کی اس عمدہ کردار نگاری پر انہیں سال کی بہترین معاون اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ علی سفیان آفاقی کی ’’سزا‘‘ رضا میر کی ’’آسرا‘‘ بھی اس سال روزینہ کی بہترین اداکاری سے مرصع فلمیں ثابت ہوئیں۔ 1970ء میں اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سید کمال کی نغماتی کام یاب فلم ’’ہنی مون‘‘ میں ان کا کردار ایک جنگلی دوشیزہ کا تھا۔ اس فلم کی شوٹنگ سابقہ مشرقی پاکستان کے خوب صورت، سرسبز جنگل ’’سندربن‘‘ میں کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پیرس اور یورپ میں بھی عکس بندی کی گئی۔ اداکارہ حسنہ نے کمال کے مقابل ہیروئن کا کردار کیا تھا، جب کہ روزینہ کا کردار سائیڈ ہیروئن کا تھا، جو بے حد پسند کیا گیا۔ اس سال نمائش ہونے والی ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ’’سوغات‘‘ میں وہ سپراسٹار ندیم کے مقابل ہیروئن کے کردار میں پسند کی گئیں۔ یورپ میں فلمائی جانے والی فلم ’’لو ان یورپ‘‘ میں وہ کمال کے مقابل ہیروئن آئیں۔

بیرون ملک بننے والی اس دور کی زیادہ تر فلموں میں ان کی اس خوبی کی بناء پر انہیں ہیروئن کاسٹ کیا جاتا تھا۔ ہنی مون، لو ان یورپ، خاموش نگاہیں اور جاپانی گڈی، یہ تمام فلمیں بیرون ملک میں فلمائی گئیں۔ ہدایت کار ریاضٗ شاہد کی تاریخی فلم ’’غرناطہ‘‘ کا شمار بھی ان کی چند خوب صورت اور یادگار فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگز پاکستان کے خوب صورت شمالی علاقہ جات میں ہوئی تھی، اس موقع پر مقامی لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کی پسندیدہ اداکارہ روزینہ فلم کی عکس بندی کے لیے آئی ہیں، تو شائقین فلم کی ایک بہت بڑی تعداد اس خوب صورت گلیمرل اداکارہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ گئی تھی۔ معروف ٹی وی اینکر و اداکار ضیاء محی الدین کے ساتھ فلم ’’مجرم کون‘‘ میں وہ ہیروئن آئیں۔ یہ فلم1971ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1972ء میں ’’دولت اور دُنیا‘‘ میں ان کی جوڑی وحید مراد کے ساتھ پسند کی گئی۔ اردو فلموں کے علاوہ انہیں پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا۔ ان کی پہلی پنجابی فلم ’’پردیسی‘‘ تھی، جس کے ہدایت کار ریاض احمد راجو تھے۔ یہ فلم1970ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ جاپانی گڈی، ٹھاہ، وارث، سجن دشمن، ہیرا، غیرت دا نشان، بشیرا، سر دھڑ دی بازی، خبردار، بڈھا شیر، سکندرا، سوہنی مہینوال نامی پنجابی فلموں میں آئیں۔

اداکارہ روزینہ نے اپنے پورے فلمی کیریئر میں کل92فلموں میں کام کیا۔ انہیں گانے کا بے حد شوق تھا۔ قدرت نے انہیں بڑی میٹھی ترنم ریز آواز سے نوازا ہے۔ آج بھی، جب وہ گفتگو کرتی ہیں تو ان کی آواز کی مٹھاس کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان پر فلمائے ہوئے چند خوب صورت گیتوں کا جب ذکر آئے گا تو فلم ’’غرناطہ‘‘ کا یہ گیت ’’کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا‘‘ اور ایسے کئی گیت ہمیں ماضی کی سنہری یادوں میں پہنچا دیں گے۔ روزینہ آج اپنی گھریلو زندگی میں مصروف ہیں۔ ان کی صاحبزادی صائمہ قریشی ٹی وی کی مشہور اداکارہ اور ماڈل ہیں۔  

تازہ ترین
تازہ ترین