اب تک کی اطلاعات کے مطابق، آخر کار امریکا، افغانستان سے انخلا پر آمادہ ہو گیا ہے اور قطر کے دارالحکومت، دوحا میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اول الذّکر نے افغانستان سے نکلنے کے نکتے پر اتفاق کرلیا ہے۔ نیز، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ افغانستان پر کم و بیش 18برس تک غیر مُلکی افواج کی حُکم رانی کے بعد اس اتفاقِ رائے نے ایک شورش زدہ مُلک میں امن کی امید جگا دی ہے۔ رجائیت پسند ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کا انخلا ہوتے ہی افغانستان میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، افغان عوام کی مرضی کی حکومت بنے گی، ترقّی اور ہم آہنگی کا نیا دَور شروع ہو گا اور شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگیں گے۔ اگر ایسا ہو ا، تو یہ افغانستان جیسے مُلک کے لیے کسی کرامت سے کم نہ ہو گا، جسے گزشتہ 40برس کے دوران افراتفری، خانہ جنگی اور خون ریزی کے سوا کچھ اور دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ایک سُپر پاور کی فوج باہر نکلی، تو دوسری کی داخل ہو گئی۔ ایک کے خلاف مجاہدین برسرِ پیکار رہے، تو دوسرے سے طالبان نبرد آزما، جب کہ افغانوں کے لیے اُن کی اپنی زمین تنگ ہوگئی۔ 70لاکھ سے زاید افغان باشندے پاکستان میں پناہ گزین بن گئے، جن میں سے نصف ابھی بھی یہیں مقیم ہیں۔ اس کے نتیجے میں میزبان مُلک کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی شدّت پسندی اور دہشت گردی کے نِت نئے مظاہر بھی سامنے آئے۔ خیال رہے کہ اس وقت دُنیا بَھر میں افغانستان اور شام کے عوام ہی سب سے زیادہ امن کے لیے ترس رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک اسلامی دُنیا کا حصّہ ہیں۔
مزید تفصیل میں جانے سے پہلے ہم امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے اتفاقِ رائے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ دوحا میں ہونے والی بات چیت کے مطابق، امریکی افواج آیندہ 18ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ طالبان کو بلیک لسٹ سے نکالنے کے بعد ان پر عاید سفری پابندیاں بھی ہٹا لی جائیں گی۔ نیز، دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔ علاوہ ازیں، طالبان اس بات کی ضمانت بھی دیں گے کہ افغانستان کی سر زمین آیندہ کوئی دہشت گرد تنظیم، بالخصوص داعش اور القاعدہ استعمال نہیں کریں گی۔ ان مذاکرات کی میزبانی قطر نے کی، جب کہ امریکی وفد کی قیادت امریکا کے نمایندۂ خصوصی برائے افغان امن عمل، زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کی مُلاّ عبدالغنی برادر نے کی، جنہیں پاکستان نے مذاکرات میں شمولیت کے لیے خصوصی طور پر رہا کیا تھا۔ طالبان کے اصرار پر ان مذاکرات میں افغان حکومت فریق نہیں بنی، کیوں کہ وہ اسے ’’امریکی پِٹّھو‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بات چیت کے اختتام پر زلمے خلیل زاد فوراً کابل روانہ ہو گئے، جہاں انہوں نے افغان صدر، اشرف غنی کو ان مذاکرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سو، یہ کہنا کسی طور دُرست نہیں کہ کابل انتظامیہ اس پیش رفت سے بالکل لاعلم تھی، کیوں کہ زلمے خلیل زاد نے ہر موقعے پر افغان حکومت کی وکالت کی اور کابل انتظامیہ سے قربت کی وجہ ہی سے امریکا نے انہیں اپنا خصوصی نمایندہ مقرّر کیاہے۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کا پاکستان نے خیر مقدم کیا۔ اس موقعے پر پاک فوج کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر اپنی ذمّے داری پوری کر دی اور افغانستان کا استحکام پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ تاہم، آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان طالبان میں بہت سے دھڑے ہیں۔ کوئی معتدل ہے، تو کوئی سخت گیر اور ان سب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا آسان کام نہیں۔نیز، امریکا نے افغانستان میں پاکستان کا کردار تسلیم کر لیا ہے ، جب کہ بھارت کا افغان امن عمل میں کوئی کردار نہیں۔ یاد رہے کہ امریکا گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان میںجنگ بندی اور افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا ہے۔ تاہم، اس عرصے میں پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ ایک حد تک افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے اور پھر اسلام آباد، مذاکرات کے سہولت کار کے طور پر سامنے آیا۔ اس ضمن میں اس خط کا بھی کافی چرچا ہوا، جس میں مبینہ طور پر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان سے افغان امن عمل میں مدد طلب کی تھی۔
اُدھر افغان طالبان اس پیش رفت کو اپنی کام یابی قرار دے رہے ہیں اور ایک اعتبار سے انہیں اس کا حق بھی ہے، کیوں کہ افغان طالبان کا ابتدا ہی سے یہ مؤقف رہا ہے کہ غیر مُلکی فوج کے انخلا ہی سے افغانستان میں امن قائم ہو گا، لیکن اس کا خمیازہ پوری افغان قوم کو بُھگتنا پڑا۔ مغربی ذرایع ابلاغ کے مطابق، اس وقت بھی افغانستان کے ایک بڑے حصّے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ علاوہ ازیں، گزشتہ دو برسوں کے دوران طالبان کے حملوں میں شدّت آئی اور معمول کے برعکس موسمِ سرما میں بھی طالبان نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ تاہم، اسی کے ساتھ ہی امریکی حملوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا، کیوں کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ میدان میں جنگ جیتنے کے بعد ہی مذاکرات کیے جائیں، تاکہ طالبان کسی غیر معمولی رعایت کا مطالبہ نہ کر سکیں اور ان کی یہ پالیسی کسی حد تک کام یاب نظر آتی ہے۔ امریکا کی ڈرون حملوں کی حکمتِ عملی غیر روایتی جنگ میں کام یاب ثابت ہوئی اور ان حملوں کے نتیجے میں نہ صرف افغان طالبان بلکہ افغانستان میں پناہ لینے والے ٹی ٹی پی کے اہم رہنما بھی ہلاک ہوئے۔ اس 18سالہ جنگ میں مجموعی طور پر 3ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افغان باشندوں کی جانیں ضایع ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان عوام میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے اور دوسری جانب افغان طالبان کو بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ ان کے حملوں کے سبب ان کے ہم وطن ہی مارے جا رہے ہیں۔
قطر میں 6روزہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے اتفاقِ رائے کے بعد زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایک اہم پیش رفت تو ہے، تاہم حتمی نہیں۔‘‘ دوسری جانب امریکا بھی اسے اپنی کام یابی گردانتا ہے، کیوں کہ اوباما کے دَورِ صدارت ہی سے امریکا کی یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلا لیا جائے، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی دوسرے خطّوں میں جاری امریکی جنگوں کو سرمائے کا زیاں سمجھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے اچانک شام سے امریکی فوج واپس بلا لی، جس پر امریکا کے قریبی یورپی حلیف تک ٹرمپ انتظامیہ سے نالاں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، گزشتہ 18برس میں امریکا نے افغانستان میں کم و بیش 3کھرب ڈالرز خرچ کیے، لیکن اس کی نسبت امریکی فوج کی ہلاکتوں کی شرح کچھ زیادہ نہیں۔ پھر ہمیں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ عالمی طاقتیں ایک حکمتِ عملی کے تحت اپنے جدید ہتھیاروں کو جنگوں میں آزماتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویت نام کے خلاف جنگ میں امریکا اپنے بھاری بھرکم بم بار طیّارے استعمال میںلایا اور جنگل میں جاری آپریشن میں جدید اسٹیلتھ ہیلی کاپٹرز کی آزمایش کی گئی۔ اسی طرح عراق کی دونوں جنگوں میں لیزر بم استعمال کیے گئے، جس کے بعد فضائی جنگ میں بلیک آئوٹ کا تصوّر ختم ہو گیا، کیوں کہ یہ لیزر گائیڈڈ بم یا میزائل رات کی تاریکی میں بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ علاوہ ازیں، افغان جنگ میں سوویت یونین نے اپنے گن شپ ہیلی کاپٹرز کو کام یابی سے استعمال کیا، لیکن جب امریکا نے مجاہدین کو اسٹنگر میزائلز سے لیس کر دیا، تو انہوں نے پرندوں کی طرح ان ہیلی کاپٹرز کو زمین پہ مار گرایا اور سوویت یونین کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ رواں صدی کے اوائل سے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سرحدی علاقوں اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون طیّارے استعمال کیے اور ٹی ٹی پی کی پوری قیادت کا صفایا کر دیا۔ ان حملوں کو آج بھی سی آئی اے اور امریکی فوج آپریٹ کرتی ہے اور ان دونوں کی یہ مشترکہ کاوش کام یاب رہی۔ پھر اس جنگ میں خفیہ اداروں کا کردار بھی اہمیت اختیار کر گیا اور دہشت گردوں کے حملوں میں قابلِ ذکر حد تک کمی واقع ہوئی۔ پاک فوج نے بھی آپریشن ضربِ عضب اورآپریشن ردّ الفساد میں انٹیلی جینس شیئرنگ کا غیر معمولی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کو تقریباً جڑ سے اُکھاڑ پھینکا اور مُلک میں بڑی حد تک امن و امان قائم کر دیا۔
مسئلہ افغانستان کے بنیادی طور پر دو فریق ہیں۔ امریکا اور افغان طالبان، جب کہ افغان حکومت کو، جس کی سربراہی صدر، اشرف غنی کر رہے ہیں، امریکا نے سہارا دے رکھا ہے اور طالبان اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ تاہم، پوری دُنیا اسے مانتی ہے اور تمام ممالک اس کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں اور خود پاکستان بھی اسے افغانستان کا حُکم راں مانتا ہے۔ البتہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ افغان صدر، اشرف غنی اور ان کے پیش رَو، حامد کرزئی کی حکومت کی کارکردگی نہایت پست درجے کی رہی۔ نیز، امریکا کی تیار کردہ افغان فوج بھی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ۔ اسے طالبان کے خلاف مسلسل پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان عوام اپنی فوج پر زیادہ بھروسا نہیں کرتے، لیکن اپنی تمام تر کم زوریوں کے باوجود افغان فوج، پولیس اور سول انتظامیہ ایک زمینی حقیقت ہیں اور یہ اب برقرار رہیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کی مدّت میں، جو کہ 18ماہ بتائی گئی ہے، حالات و واقعات کے پیشِ نظر توسیع بھی کی جا سکتی ہے اور کوئی بھی اس افراتفری اور خوں ریزی کو دوام دینے پر آمادہ نہیں۔ مثال کے طور پر چین، جو اس خطّے کی سب سے بڑی طاقت اور ’’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘‘ جیسے اربوں ڈالرز مالیت کے عالمی منصوبے کا پہل کار ہے، اپنی سرحدوں پر جنگ و جدل کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ اسی طرح رُوس بھی وسطی ایشیا کی جانب سے کسی قسم کی دہشت گردی کا متحمّل نہیں ہو سکتا، جب کہ خطّے کے ایک اور اہم اور افغانستان کے پڑوسی مُلک، پاکستان نے تو ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر ٹی ٹی پی کو اپنے سر زمین سے فرار ہونے پر مجبور کیا اور پھر یہ باڑ لگا کر پاک، افغان سرحد بھی بند کر رہا ہے، کیوں کہ اسے اب بھی یہ شکایت ہے کہ بلوچستان سمیت مُلک کے دیگر حصّوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی جاتی ہے اور وہ ہرگز اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ سو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان کو کسی نہ کسی شکل میں افغانستان کے مرکزی سیاسی دھارے میں شمولیت اختیار کرنا پڑے گی اور عسکریت پسندی کو ترک کر کے صلح جویانہ رویّہ اپنانا پڑے گا۔
افغان امن عمل کا سب سے حوصلہ افزا پہلو طالبان کا یہ بیان ہے کہ ’’ہم تنہا حُکم رانی کے خواہش مند نہیں۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اور اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر مُلکی ترقّی میں حصّہ لیں گے۔‘‘ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ’’ہم افغانستان میں پائے دار امن چاہتے ہیں۔ فی الوقت ہم امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں ، مگر ان کی کام یابی کے بعد افغان حکومت سے بھی گفت و شنید ہو سکتی ہے۔‘‘ افغان طالبان کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ معاہدے کی صورت میں اقوامِ متّحدہ، رُوس چین اور اسلامی ممالک کی تنظیم، او آئی سی ضامن کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ویت نام کی جنگ کے بعد یہی کردار ویت کانگ گوریلوں اور ان کی انقلابی حکومت نے اپنایا تھا۔ تب ویت نام کی حکومت، مُلک کی بحالی کے لیے ملنے والی امداد کو نہایت دانش مندی سے بروئے کار لائی، جس کی وجہ سے آج یہ مُلک جنوب مشرقی ایشیا کی اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہو چُکا ہے۔ تاہم، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغان طالبان ویت نام کی تقلید کر سکیں گے؟ امریکا کے انخلاکے بعد طالبان کو مزاحمت کا راستہ ترک کرنا پڑے گا اور افغان باشندے بھی ان سے امن، ترقّی و خوش حالی اور بہتر طرزِ زندگی کی توقّع کریں گے۔ لہٰذا، انہیں بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرناہو گا۔ پھر تاریخ کا بھی یہ سبق ہے کہ انقلابی و مزاحمتی تنظیموں اور ان کے رہنمائوں کی اصل آزمایش زمانۂ امن میں ہوتی ہے۔