انسانیت کی پوری تاریخ میں عروج وزوال کی داستان کو گھر، خاندان اور عورت کے کردار کی روشنی میں بہت بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ جب یہ ادارہ اور اس میں عورت کاکردار پختہ اور اہم تھا۔ جب تک انسانیت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور جب یہ ادارہ ٹوٹا اور عورت اپنے کردار سے غافل ہوئی تو انسان بھی تنزلی کی کھائیوں میں گرتا چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ
”اے لوگو اپنے اُس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اُس سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُسی سے بہت مرد اور عورتیں اس روئے زمین پر پھیلادیئے ۔“(سورة النساء :آیت ۱)
ایک حدیث مبارکہ میں اس آیت کی تفصیل میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بی بی حواکو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے تخلیق کیا اور کسی مفسر نے اس کے بارے میں بڑی پیاری تشریح کی ہے کہ پسلی بازوکے نیچے اور دل کے بہت قریب ہوتی ہے۔ یعنی ایک عورت کی فطرت میں ہے کہ اُس سے محبت کی جائے اور اُس کی حفاظت کی جائے۔ عورت کو جب محبت اور حفاظت کے حصار میسر ہوجائیں تو وہ ہرناممکن کام کو ممکن بنانے کا ذمہ اٹھا لیتی ہے۔
اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کی شفقت اور رحمت کی مستحق ہے، اگر وہ بہن ہے تو بھائی کی غیرت اور حفاظت کی مستحق اور اگر وہ بیوی ہے تو اپنے شوہر کی عفت و عصمت اورمحبت کی مستحق اور اگر وہ ماں ہے تو بیٹے کی عزت اور کفالت کی مستحق ہے اور اُس کے عوض ،بیٹی ، بہن ، بیوی اور ماں اپنے باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے پر اپنی زندگی کا ہر لمحہ قربان کردیتی ہے۔ مغرب میں آج یہ محبتیں اور حفاظتیں ختم ہوتی جارہی ہیں اور بات صرف اب مغرب تک ہی محدود نہیں رہی ، ہمارا معاشرہ بھی اب اسی فساد کی لپیٹ میں آ رہاہے جہاں یہ رشتے اپنی حرمت کھوتے چلے جا رہے ہیں۔
اقبال نے پچھلی صدی میں اس فتنے سے خبردار کرتے ہوئے کہاتھا کہ جو بھی آشیانہ شاخ نازک پر بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا۔ اس لیے اپنی تہذیب کو مستحکم بنیادوں پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے اپنی اُردو شاعری میں بھی عورت کو اپنے خاندان کا مرکز محبت بننے کی تلقین کی ہے مگر اُن کی فارسی شاعری میں تو عورت کو خاندان میں اپنا کردار نبھانے کی اتنی زیادہ تلقین ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ دیار مغرب میں مغربی فلسفہ و تہذیب اور حقوق و مساوات کے نعروں کو اتنا قریب سے جاننے والی ہستی کس قدر اس تہذیب کے کھوکھلے پن کو جان گئی تھی اور اُن کی دور بین نظروں نے اس تہذیب کے کڑوے کسیلے پھلوں کی پیش بندی کے لیے کس قدرگراں مایہ افکار ہمارے لیے ورثہ میں چھوڑے مگر ہماری بدنصیبی کی ہم اپنی اُن زبانوں سے ہی ناواقف ہوگئے جس میں ہمارا علمی ورثہ پوشیدہ ہے ۔ ہمیں ضروراپنی آنے والی نسلوں کے لیے کلیات اقبال میں اسرار خودی ،رموزبے خودی ،جاوید نامہ اور پس چہ بائیدکرداے اقوام شرق کے منتخب حصے بطور نصاب پڑھانے چاہیے اور اگر حکومت اس کا م کو نہیں کرتی تو نوجوانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرداں کارکنوں کو تو ضرور ہی اس کا مطالعہ کرناچاہیے۔
تہذیب جدید نے مسلمان عورت جوکہ خاندان کا نیوکلیئس ہے کو اپنا خصوصی ہدف بنایا ہوا ہے۔ آزادی، مساوات ،حقوق اور فیصلہ سازی اور باختیار بنادینے کے پرکشش اور پُر فریب نعروں میں اُلجھا کر اُسے گھر کی پیاری جنت اور خاندان کی محبت اور اُس کی حفاظت کے حصاروں سے محروم کیا جارہاہے۔ حیا اور حجاب کے باو وقار رویوں کو فرسودگی کی علامت قرا ر دیا جارہاہے کیونکہ حجاب کا ایک گز کا ٹکڑا ان کی اربوں ڈالر فیشن انڈسٹری کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ دیتاہے۔
خاندان اور شادی کے ادارے کو بھی تباہ کرنے کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچی ہیں ۔ مادہ پرستی ، خودغرضی اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کے حصول کی بے لگا م خواہشوں اور ہوس نے انسانوں کو فطرت سے بغاوت پر آمادہ کرلیا ہے ۔ محبت ،ایثار ، قربانی اور وفا کے جذبے ناپید ہوتے جارہے ہیں جوخاندان کی اہمیت کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور معاشرے کی یہ بنیادی اکائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔
عورت اللہ کے لطف و جمال کی مظہر ہے اُس کی حسین ترین تخلیق ہے۔ جب بھی شیطان کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتاہے تو وہ اُس معاشرے کی عورت کاکردار تباہ کرتاہے۔ اگروہ خاندان اور نئی نسل کی پرورش سے غفلت برتے تو نئی نسل میں مجرمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں اور اگر عورت اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرے تو اس کی صلاحیتوں کے اظہار سے قومیں تشکیل پاتی ہیں۔ مگر جدید تہذیب نے خاندان، شادی ،مذہب اور مادریت کوعورت کی آزادی اور ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے اور اُس کو باور کرایا جارہاہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے رفیق نہیں بلکہ فریق ہیں اور مدمقابل قوتیں ہیں۔ معیشت اور سیاست میں عورت کو گھیسٹ کر لایا جارہاہے تاکہ مسلم تہذیب کے افتخار خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرا جاسکے ۔ بہبو د آبادی کے پروگراموں کی آڑمیں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ کم عمری کی شادی پر سزا مگر معصوم بچوں کے نصاب میں جنسی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں لگائی جارہی ہے۔ شادی سے گریز اور بغیر نکاح کے اکٹھا رہنے اور مخلوط ماحول اور معاشرت کے لیے فضا کو سازگار بنایا جارہاہے۔ ہم جنس پرستی اور آبرو باختہ عورتوں کے حقوق کی بات سرعام کی جارہی ہے۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختار بنا کر ریاست کی تحویل میں دے کر والدین کاکردار کم سے کم کیا جارہاہے تاکہ خاندان کا ادارہ بکھر جائے۔
ان کوششوں کے نتیجے میں ٹوٹے خاندان جنس زدہ معاشرہ ، محبت، احترام ، حیا اور حفظ مراتب کے تقاضوں سے عاری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور تہذیب زوال پذیر ہے۔ نیشنل میرج پراجیکٹ ،رٹگز یونیورسٹی کے 1999ء کے ایک سروے Should we live together? میں دو مغربی محققین ڈاکٹر ڈیوڈ اور ڈاکٹر باربرا ڈیفووائٹ ہیڈ کاکہناہے کہ ہمارے ہاں ایک ہزار میں صرف 36 جوڑے قانونی طور پر شادی شدہ ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں ٹوٹے خاندانوں کی شرح 45%ہے۔ بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے جوڑوں کے بگاڑ کا خدشہ 20گنا زیادہ ہوتاہے۔ ماں اور اُس مرد دوست کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 33گنا زیادہ اور Singleماں یا باپ کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 14گنا زیادہ بڑھ جاتاہے۔ اور اب ہم جنس پرستوں کو بھی قانونی جوڑے کی حیثیت حاصل ہونے جارہی ہے اور وہ بچے بھی Adoptکرتے ہیں۔ ان بچوں کی اخلاقی حالت کااندازہ ہر ذی شعور اور رجلِ رشید کرسکتاہے۔ UTAHکی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ ولکنز کا تجزیہ ہے کہ ماں اور بچے کے لیے تحفظ کے سب سے بڑے ادارے شادی اور خاندان ہیں ۔ مغربی معاشرہ میں سب سے مظلوم عورت اور بچے ہیں۔ ان سے عبرت حاصل کریں اور اپنے ممالک کو ان تجربات سے بچائیں۔
جنیوا میں و رلڈ گانگریس آفس فیملیز IIمیں ایک مقالہ میں پروفیسر ماریہ گوائر لکھتی ہیں کہ ”مغرب میں خاندانی نظام کی شکست و ریخت نے معاشروں اور حکومتوں کو بے پناہ مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ بچوں کی بحالی جرائم سے نبٹنے کے پروگرام، منشیات کی شکار نئی نسل کے علاج، جنسی تشدد کا شکار کم عمر ماؤں کی دیکھ بھال ،خصوصی افراد کی تعلیم وتربیت ،معمر افراد کے اولڈ ہاؤسز اور عدالتی چکروں میں اضافے کے باعث اربوں ڈالر کا خرچ ہو رہاہے اور اس کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہیں۔
عورت کو اس کے بنیادی کردار اور اس کی اصل (The Job) یعنی انسان سازی سے غافل کرکے عورت اور معاشرے دونوں کے ساتھ ظلم عظیم ہواہے۔ عورت اور بچے کابہترین مفاد اسی میں ہے کہ شادی اور خاندان کو مضبوط بنایا جائے اور ان کے تقدس کو بحال کیا جائے۔ مغرب کی اس لادین تہذیب اور حکمت عملی کی مزاحمت منظم حکمت عملی اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ منظم مزاحمت ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ خاندان کا ادارہ طوفانوں کی زد میں ہے۔ اس پس منظر اور پیش منظر میں یہ ادارہ میرا اور آپ کا منتظر ہے کہ ہم اپنے دین کے آفاقی اصولوں کا علم اس بے خدا تہذیب میں اس طرح سے بلند کریں کہ ہر طرف اُڑتی گرد سے اپنے خاندان کے ادارے اور اُس کو درپیش چیلنجز سے محفوظ کرلیں تاکہ ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ سکیں ۔
آسمان پر نظر رکھ ، انجم و ماہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ