• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ نمک کے بغیر کھانے میں ذائقہ کیسا؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کھانوں اور مسالوں میں نمک کی کافی مقدار استعمال کی جاتی ہے (ایک اندازے کے مطابق روزانہ کم ازکم 8سے10گرام) لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ نمک کا اہم جزو ’سوڈیم‘ جوکہ تقریباً ہر کھانے میں پایا جاتا ہے، اس کی زائدمقدار آپ کی صحت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ کیونکہ مقررہ مقدار سے زائد تعداد میں لیا گیا نمک کئی مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، وہ بیماریاں کون سی ہیں آئیے جانتے ہیں۔

نمک مہلک بیماریوں کا سبب

نمک دو کیمیائی عناصر سوڈیم اور کلورین کے کیمیائی ملاپ سے حاصل ہوتا ہےاور ان دونوں عناصر کی مخصوص مقدار جہاں صحت کے لیے ضروری ہے، وہیں ان کی زائد مقدار نقصان دہ ہے۔

٭نمک کی زائد مقدارہائی بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک اوردل کی دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ برطانیہ کے لندن اسکول آف میڈیسن کی چار سال قبل کی گئی تحقیق کے مطابق اگر ایک عام فرد غذا میں نمک کی مقدار کم کردے تو اس کے امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ40 فیصد اور فالج کا 42 فیصد تک کم ہوجاتا ہے جبکہ اوسط بلڈ پریشر بھی معمول پر رہتا ہے۔ برطانیہ کے معروف جرنل میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق امراض قلب میں ہونے والی 10فی صد اموات کی جڑیں کہیں نہ کہیں زیادہ نمک کھانے میں ملتی ہیں۔

٭ نمک میں موجود سوڈیم کی خاص مقدار دوران خون اور گردوں کو بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہے تاہم اگر سوڈیم کی مقدار خون میں بڑھنا شروع ہوجائے تو گردوں کا کام متاثر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم میں خون کی گردش کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

٭کھانوں میں اگر نمک کا استعمال زیادہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ یہ شریانوں کو بند کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح جسم ہائی بلڈ پریشر جیسے مرض کا شکار ہونے لگتا ہے۔

٭ نمک کا دوسرا اہم عنصر کلورائیڈ ہے اور کلورائیڈ جسم میں پانی یا سیال کو ریگولیٹ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نمک کا بہت زیادہ استعمال کرنے سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔

٭ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں نمک کے زیادہ استعمال کے باعث ساڑھے 15 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان میں 40فیصد کی عمر 70برس سے کم ہوتی ہیں اور اکثریت کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے۔

٭نمک کا زیادہ استعمال گردوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔نمک گردوں کو زیادہ پانی جسم میں رکھنے پر مجبور کرتا ہے، جو بتدریج گردے فیل ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ جب یہ مقدار بڑھ جائے تو ہاتھوں، بازوؤں اور پیروں میں سوجن یا ورم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

٭ ہڈیوں کو کمزور یا بھُر بھُرا(اوسٹیوپوروسس) کا مرض بھی نمک کی زائد مقدار کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق آپ جس قدر نمک کھائیں گے آپ کا جسم اسی قدر پیشاب کے ذریعے کیلشیم خارج کرے گا اور کیلشم کی کمی کا براہ راست اثر ہڈیوں پر پڑتا ہے۔

٭نمک کے زیادہ استعمال کی بدولت انسان کا اعصابی نظام بھی کمزور ہوجاتا ہے۔جس کے منفی اثرات انسان کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پرمرتب ہو سکتے ہیں ۔

نمک کی کتنی مقدار ضروری ہے؟

نمک کی زائد مقدار جہاں جسم کے لیے نقصان دہ ہے، وہیں نمک کی کمی بھی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص کتنی مقدار میں نمک کا استعمال کر سکتا ہے۔

WHOعالمی ادارہ صحت کے مطابق روزانہ3سے5گرام (تقریباًایک چائے کا چمچ) نمک کا استعمال تو ٹھیک ہے لیکن اس سے زائد کا استعمال انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہے ۔نمک کا اہم جزو ’سوڈیم‘ تقریباً ہر کھانے میں پایا جاتا ہے اور ہم اپنے جسم کی آدھی ضروریات بآسانی دیگر کھانوں سے پوری کر لیتے ہیں لیکن ہمارے کھانے کچھ اس قسم کے ہیں کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی 8 سے 10گرام یومیہ سوڈیم کھا لیتے ہیں جو کہ ہمارے جسم کے لئے خاص مفید بھی نہیں ہے۔ اگر امریکیوں کی بات کی جائے تو فاسٹ فوڈ اور چپس کے بے دریغ استعمال سے ایک عام امریکی روزانہ 3400 ملی گرام نمک استعمال کررہا ہے جو اصل مقدار سے 1.7 گنا زیادہ ہے۔

اسی لیے ماہرین جنک فوڈ، فاسٹ فوڈ اور بیکری کی اشیا کے بجائے قدرتی چیزیں مثلاً پھل، سبزیاں، دودھ، دہی، ٹماٹر، لیموں، ہرا دھنیا، مرچیں اور سرکہ کے زیادہ استعمال کا مشورہ دیتے ہیں، ساتھ ہی جب ڈبہ بند چیزوں کی خریداری کی جائے تو ان کے لیبل پر درج سوڈیم یا نمک کی مقدار پر توجہ دینے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ 

تازہ ترین